جونہی الیکشن کا اعلان ہوا یوں لگا جیسے ہر شخص ایم این اے‘ ایم پی اے بننا چاہتاہے۔ لوگ سیاستدان بننے کے لیے ہر قسمی رسک لینے کو تیار ہیں۔ لڑائیاں‘ جھگڑے‘ مارکٹائی‘ گھروں پر چھاپے‘ جیلیں‘ سختیاں اور سزائیں۔ آپ کہیں گے وہ ملک اور قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں کیا برائی ہے۔ الٹا ان کا ہمیں ساتھ دینا چاہیے تاکہ وہ ملک کو آگے لے جا سکیں۔ اگر میں صحافی نہ ہوتا‘ تیس سال اس پروفیشن کو نہ دے چکا ہوتا اور سب سے بڑھ کر بائیس برس سے پارلیمنٹ سے سیاسی رپورٹنگ نہ کررہا ہوتا تو میں بھی یہی سوچتا اور یہی یقین رکھتا۔ لیکن پارلیمنٹ میں گزرے ان برسوں میں ان سب کو بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ کچھ اچھے لوگ بھی پارلیمنٹ میں ملے جن سے متاثر ہوا‘ لیکن یقین کریں 99فیصد لوگ سیاست اور سیاستدان کی تعریف پر پورا نہیں اترے ۔ آپ ان کی گفتگو سنیں یا تقریر تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان کا اپنا سیاسی‘ سماجی یا حکمرانی کا شعور کہاں پر کھڑا ہے۔ میں بہت سے کمیٹی اجلاسوں میں بھی شریک ہوتا رہا ہوں۔ کچھ سینیٹرز یا ایم این ایز واقعی بہت اچھے تھے لیکن اکثریت کو وہاں صرف ٹی اے ڈی اے کے نام پر خاموش بیٹھے دیکھا۔ یا پھر بہت بڑی تعداد میں بلڈرز‘ ٹھیکیدار اور ہاؤسنگ سوسائٹیز کے مالکان ہیں جو ان کمیٹیوں کے چیئرمین ہیں یا ممبر جو اُن کے کاروبار سے متعلقہ ہیں اور وہاں ان وزارتوں کے وزیر اور سیکرٹریز آتے ہیں۔ 1985ء کے الیکشن نے اس ملک کی سیاست اور سیاستدانوں کے منہ کو پیسے کا ذائقہ لگایا‘ اب ہر کوئی طاقت چاہتا ہے جس کا وہ بے دھڑک استعمال کر سکے اور اس کے زور پر پیسہ کمائے۔ آپ کسی بھی ضلعی ہیڈرکواٹرز چلے جائیں وہاں جب ترقیاتی فنڈز ملتے ہیں تو ڈپٹی کمشنر کو علم ہوتا ہے کہ ایم پی اے یا ایم این اے اپنے ساتھ جو بندہ لایا ہے وہ اس کا فرنٹ مین ہے اور سڑک یا سکول کا ٹھیکہ اُسے دینا ہے۔ بیس سے تیس فیصد کمیشن تو عام سی بات ہے۔ مجھے یاد ہے 2013ء میں جب میں نے دنیا ٹی وی کے اپنے پروگرام' خبر یہ ہے ‘میں سکینڈل بریک کیا تو لوگ حیران تھے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ پنجاب کے چند سینیٹرز اور ایم این ایز خصوصا ًخواتین نے لکی مروت میں اپنا ترقیاتی فنڈ بیچا تھا۔ ایک کروڑ روپے فنڈ پر بیس سے تیس لاکھ روپے نقد وصولی کی گئی ۔ لکی مروت کے ٹھیکیداروں کی چاندی ہوگئی ۔ پانی کا پمپ لگانے کے نام پر ایک کروڑ کا فنڈ ٹرانسفر ہوتا اور جس سینیٹر یا ایم این اے کا وہ فنڈ ہوتا اُسے بیس‘ تیس لاکھ دے کر لے لیا جاتا۔ درجنوں نمائندوں نے وہاں فنڈز بیچے۔ پانچ دس لاکھ کا پمپ لگا کر پچاس ساٹھ لاکھ کمایا جاتا تھا۔ ایک دن میرا وکیل مجھے ملا اور کہنے لگا: یہ خبریں دینا بند کرو‘ یہ فنڈز تو ہم خرید رہے ہیں۔ اُس دن اُس سے کیس واپس لیا اور کبھی دوبارہ نہیں ملا ۔ یقین نہ آیا کہ ایسے لوگ بھی اس لوٹ مار میں شریک ہیں۔ میں نے اکثر سندھ اور خیبرپختونخوا کے نمائندوں میں دیکھا ہے کہ وہ جب اپنے لوگوں کے پیسوں میں لوٹ مار کرتے ہیں تو اپنے لوگوں اور میڈیا کو نجی محفلوں میں بتاتے ہیں کہ ماڑا ہم تو پنجابیوں کو لوٹ رہے ہیں اور آگے سے ان کے سامعین کے چہرے کھل اٹھتے ہیں۔ انہیں کبھی یہ خیال نہ آیا کہ وہ دراصل انہی صوبوں کے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ ان کے این ایف سی سے ملنے والا سالانہ شیئر ان چند لیڈروں کی جیبوں میں جارہا تھا یا دبئی شفٹ ہورہا تھا۔ 2008ء میں‘ مجھے یاد ہے بلوچستان اسمبلی کے ہر ممبر کو پچیس پچیس کروڑ روپے ترقیاتی فنڈ کے نام پر دیے گئے۔ آپ کا کیا خیال ہے وہ پیسے ترقیاتی کاموں پر خرچ ہونے تھے؟یہ پیسہ ان سب کو ذاتی طور پر ملا تھا۔ اُس دور میں بلوچستان اسمبلی کے سبھی ممبر وزیر تھے۔ صرف ایک ممبر وزیر نہیں بنا ‘ جو کہ اپوزیشن لیڈر تھا اور اس کا نام سردار یار محمد رند تھا۔ یار محمد رند کے وزیر نہ بننے کی وجہ یہ تھی کہ ان کی وزیراعلیٰ سے قبائلی لڑائی تھی جس میں دونوں اطراف سے کئی لوگ مارے گئے تھے۔ اُس وزیراعلیٰ نے خود ہی اپنے اور اپنے بھائی کو ایک ارب روپے کا کیش ایوارڈ دیا کہ ان کی رند قبیلے کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے فصلوں اور مکانات کا نقصان ہوا تھا‘ اس کو پورا کیا جائے۔اب سیاست پیسہ کمانے کا حربہ ہے‘ لہٰذا ہر کوئی اب ہر قیمت پر پارلیمنٹ کے اندر پہنچنا چاہتا ہے چاہے جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
ایک دوست سے بات ہورہی تھی تو انہوں نے کہا کہ آپ نے کبھی ان سیاستدانوں کے رشتہ داروں کی شان و شوکت نہیں دیکھی۔ ان کے والدین اور بھائی بہنوں کا جو رعب دبدبہ ہوتا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ اس سٹیٹس کو انجوائے کرتے ہیں جب تک کوئی ناگہانی آفت ان پر نہ جا گرے۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ وہ مظلوم ہوتے ہیں اور ان کو مشکل میں دیکھ کر آپ ہمدردی محسوس کرتے ہیں جبکہ یہی لوگ اپنے بیٹے کے اثر و رسوخ کی وجہ سے خود کو بہت کمفرٹ ایبل محسوس کرتے ہیں اور مزے کرتے ہیں۔
جب آپ دیکھتے ہیں کہ ہر طرف طاقت کا نشہ چل رہا ہے اور لوگ مرنے تک تیار ہیں‘ ان حالات میں چند اچھی خبریں بھی نظروں سے گزری ہیں جیسے خیبرپختونخوا سے ایک ہندو ڈاکٹر سویرا پرکاش کا ایم پی اے کی جنرل سیٹ پر الیکشن لڑنا ایک خوش آئند بات ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں اچھی خبریں آنا بند ہو چکی ہیں لیکن ڈاکٹر سویرا کی خبر نے ان پاکستانیوں کا دل فخر سے بلند کیا ہے جو اس ملک میں امن چاہتے ہیں۔ جو ایک نارمل ملک چاہتے ہیں جس میں ہندو‘ سکھ‘ مسیحی اور دیگر مذاہب کے لوگوں کا اس ملک پر یقین ہو‘ اعتبار ہو۔ انہیں بھی لگے کہ وہ اگر جنرل سیٹ پر الیکشن لڑیں تو انہیں بھی مسلمان ووٹ ڈال کر کامیاب کرائیں گے۔ ان سے مذہبی بنیادوں پر فرق نہیں رکھا جائے گا۔
ڈاکٹر سویرا پرکاش کی ہمت کی داد اپنی جگہ کہ ایک روایتی پختوں معاشرے میں ایک عورت ہو کر مردوں کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کا حوصلہ کیا۔ سویرا سے زیادہ داد تو پختون بھائیوں کو ملنی چاہئے جنہوں نے ایک عورت کے حق کو مانا بلکہ اسے بونیر کی بیٹی کا لقب دیا۔ یقینا ہمارے مردوں کے معاشروں میں کسی خاتون کا چیلنج تو ان کی غیرت اور اَنا کو ہرٹ کرتا ہے۔ آپ خاتون سے الیکشن جیت جائیں تو بھی کوئی بڑا کارنامہ نہیں لیکن ہار جائیں تو عمر بھر کی شرمندگی ہے۔
ڈاکٹر سویرا پرکاش کی خبریں عالمی میڈیا پر سرخیاں بنی ہیں۔ بھارت میں تو وہاں لوگوں اور میڈیا کو یقین نہیں آرہا کہ پختون لوگ ایک ہندو خاتون کو ووٹ دینے کی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ یقینا ڈاکٹر پرکاش کی وجہ سے ہمارا امیج دنیا میں بہتر ہوا ہے اور اس پر ہمارے پختون بہن بھائی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ کئی روایتیں توڑ رہے ہیں اور ایک نئی تاریخ رقم کی جارہی ہے۔پیپلز پارٹی نے بونیر سے ڈاکٹر سویرا پرکاش کو ٹکٹ دے کر اچھا کام کیا ہے۔ اس سے پاکستان کا امیج مزید بہتر ہو گا۔ ملک اور معاشرے کے لیے یہ ایک ایسی خبر ہے جو برسوں تک یاد رکھی جائے گی۔