یہ انسانی مزاج ہے کہ آپ یہ جاننے کے باوجود کہ فلاں کا مزاج کیسا ہے‘ اس سے توقعات باندھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہی دیکھ لیں کہ نواز شریف سے میں یہ توقع رکھ کر بیٹھا تھا کہ وہ اپنی شکست تسلیم کر کے اپنا سیاسی قد بڑا کریں گے۔ 2007-08ء میں پہلے بھی ان سے جڑی میری توقعات ٹوٹی تھیں اور اب پھر ٹوٹی ہیں۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ نہ پہلی دفعہ نواز شریف کا قصور تھا نہ ہی اس بار‘ قصور اگر ہے تو میرا ہے۔ مجھے انہوں نے پہلے کہا تھا نہ اب کہا کہ مجھ سے امیدیں باندھ کر بیٹھ جائو۔ مجھے اکثر اپنے گھر میں بھی یہ طعنہ سننا پڑتا ہے کہ تم لوگوں پر جلدی بھروسا کر لیتے ہو اور پھر بعد میں دکھی ہوتے ہو۔ میں جواباً کہتا ہوں کہ ہم انسان معاشرتی جانور ہیں‘ ہم نے ایک دوسرے سے ملنا ہے‘ اب ایسا بھی کیا کہ ہر بندے پر شک کرو اور اس سے دور رہو کہ کبھی یہ بندہ کوئی غلط حرکت کر دے گا۔ ہاں! جب وہ کچھ غلط کرے گا تو میں خود ہی اس سے دور ہو جائوں گا۔ اس سے قبل اس سے اچھائی کی امید رکھیں اور اسے اچھا ہی سمجھیں۔ یہ بھی کیا کہ ہر انسان کو شک کی نظر سے دیکھو۔
سیاستدان انسانی نفسیات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہمارا اعتماد جیتنے کیلئے لمبی لمبی چھوڑتے رہتے ہیں‘ اور ہم اُن پر یقین کیے رکھتے ہیں مگروہ موقع ملتے ہی دائو لگاتے ہیں۔ اس لیے ٹویٹرکے مالک ایلون مسک نے پچھلے دنوں ایک ٹویٹ کیا کہ اگر آپ اپنے پارٹی لیڈر کی ہر بات پر یقین کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے سب سچ ہے تو آپ ایک بیوقوف انسان ہیں۔ دنیا بھر میں دیکھا گیا ہے کہ لوگ کی اکثریت اپنے سیاسی حکمرانوں اور پارٹیوں کی بات پر یقین کرتی ہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں‘ وہی سچ ہے۔ ایلون مسک ٹھیک کہہ رہا ہے کہ پھر آپ بیوقوف ہیں۔ بھٹو صاحب کے حوالے سے ایک بات کہی جاتی ہے کہ وہ اقتدار سے رخصتی کے بعد کہیں جا رہے تھے کہ ایک جگہ مجمع میں پھنس گئے‘ لوگوں نے بھٹو صاحب کو دیکھ کر انقلاب کے نعرے لگانے شروع کر دیے‘ اس پر بھٹو صاحب نے کار میں موجود اپنے ساتھیوں کو کہا: آپ اور ہم انقلاب لانے کے بارے میں سنجیدہ ہیں یا نہیں لیکن یہ سب لوگ تیار کھڑے ہیں۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ جو لیڈر انقلاب کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں وہ خود انقلاب کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ عمران خان کو دیکھ لیں کہ اقتدار سے باہر کیسے نعرے لگاتے تھے اور پھر کیسے سب کچھ اس کے الٹ کیا ۔ ان کا نام ہی 'یوٹرن خان‘ پڑ گیا۔ یہی حال نواز شریف کا ہے۔ لندن میں تھے تو دن رات پاکستان میں نئی شروعات کا نعرہ لگاتے تھے‘ بار بار بتاتے تھے کہ اب وزیراعظم بن کر کیا کرنا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ میں دو دفعہ پہلے بھی وزیراعظم بن چکا‘ اب کی دفعہ آپ دیکھنا کہ کیسے پرویز مشرف کی باقیات کا صفایا ہو گا۔ پھر وطن لوٹ کر سب سے پہلے زاہد حامد کو الیکشن میں ٹکٹ دے کر اپنا وزیر بنایا‘ جو مشرف کے وزیر قانون تھے۔ جو یہ کہتے تھے کہ اب وزیراعظم بننے کی خواہش نہیں‘ انہوں نے آئین میں ترمیم کرا کے پہلے تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کی راہ ہموار کی‘ پھر تیسری دفعہ وزیراعظم بنے‘ اور پھر کچھ عرصہ بعد لندن جا بیٹھے جہاں سے 2007ء میں آئے تھے اور وہاں جا کر پھر وہی انقلابی گفتگو شروع کر دی اور 2023ء میں پھر اسی طرح پاکستان لائے گئے۔
اب مجھے لگتا ہے کہ نواز شریف زیادہ دیر تک پاکستان میں رہیں گے‘ انہیں مقدمات یا جلاوطنی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ وہ اقتدار سے دور ہیں‘ یہ اُن کے لیے اچھا ہے یا بُرا یہ الگ بحث ہے لیکن میرا ایشو اس وقت کچھ اور ہے۔ وہ تین دفعہ وزیراعظم رہ چکے اور اب چوتھی دفعہ بننا چاہ رہے تھے۔ کوئی بندہ ایک دفعہ وزیراعظم رہے یا تین دفعہ‘ اس کا نام تاریخ میں درج ہو چکا‘ اچھا یا برا۔ اندرا گاندھی تین دفعہ وزیراعظم بنیں‘ بینظیر بھٹو دو دفعہ‘ مارگریٹ تھیچر تین دفعہ۔ نواز شریف بھی تین بار۔ تاریخ یا مورخین نے انہیں وزیراعظم ہی لکھناہے۔ جب آپ تین دفعہ وزیراعظم رہ چکے ہوں تو آپ کو اپنی سیاسی وراثت کا سوچنا پڑتا ہے۔ نواز شریف کی سیاسی وراثت کیا ہو گی؟ یقینا ان کے حامی کچھ اور بتائیں گے مگر مورخین کچھ اور لکھیں گے۔
اگر نواز شریف اپنی شکست تسلیم کر لیتے تو ان کا سیاسی قد اونچا ہوتا یا چھوٹا؟ ایک سیاستدان کے لیے الیکشن میں شکست ایک عام بات ہے۔ باقی چھوڑیں‘ ونسٹن چرچل‘ جس نے برطانیہ کو دوسری عالمی جنگ میں فتح دلائی تھی‘ وہ بھی جنگ کے بعد الیکشن ہار گیا تھا۔ اندازہ کریں کہ جس وزیراعظم نے برطانیہ کو شکست سے بچایا‘ لوگوں نے اسے دوبارہ وزیراعظم نہیں بنایا۔ اس کے برعکس مسٹر اٹیلی کو وزیراعظم بنا دیا گیا جو اپوزیشن لیڈر تھا۔ تاہم چند برس بعد چرچل الیکشن جیت کر دوسری دفعہ وزیراعظم بن گیا۔ ہمارے خطے کی مثال دیکھنی ہو تو اندرا گاندھی کو دیکھ لیں۔ وہ نہرو کی بیٹی تھی اور پھر اس نے 1971ء کی جنگ کو لیڈ کیا اور اپنا مقصد حاصل کیا‘ اس کے باوجود وہ 1977ء کا الیکشن ہار گئی ۔ دو‘ تین سال بعد دوبارہ الیکشن ہوئے تو جیت کر وہ تیسری دفعہ وزیراعظم بن گئی۔ یوسف رضا گیلانی سابق وزیراعظم ہو کر بھی 2018ء میں ملتان سے الیکشن ہار گئے۔ اس سے پہلے 1990ء کی دہائی میں ایک دفعہ ملتان سے یوسف رضا گیلانی نے نواز شریف کو بھی ہرایا تھا۔ 1988ء میں پیر پگارا جیسا بندہ پیپلز پارٹی کے ایک عام ورکر سے ہار گیا۔ مطلب یہ کہ ہار‘ جیت تو سیاستدان کی زندگی کا حصہ ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے کہ نواز شریف اپنی شکست قبول کرتے‘ جیسے چرچل، اندرا گاندھی یا یوسف رضا گیلانی نے کی تھی۔ الیکشن کی رات وہ وکٹری سپیچ نہ دے سکے کہ انہیں لگا وہ الیکشن نہیں جیت رہے مگر اگلے دن منت ترلوں سے انہیں واپس لا کر تقریر کرائی گئی۔ خود نواز شریف کو بھی پتا تھا کہ اُن کے پاس سیاسی اور اخلاقی وکٹری نہیں ہے۔ وہ دو سیٹوں سے لڑے اور کہا جا رہا ہے کہ لاہور والی سیٹ انہیں جتوائی گئی تاکہ انہیں پشیمانی نہ ہو کہ لاہور ہی نے انہیں ریجیکٹ کر دیا۔ نواز شریف 1999ء سے 2013ء تک وزیراعظم نہیں تھے بلکہ پارلیمنٹ میں بھی نہیں تھے‘ مگر پاکستان چلتا رہا اور ان کی اپنی زندگی بھی چلتی رہی۔ اب بھی وہ اپنی شکست مان کر اپنا قد بڑا کر سکتے تھے۔ مخالفین کو مبارک دے سکتے تھے۔ منت ترلوں اور اتنے کمپرومائز کر کے جیتنا بھلا کون سی فتح ہے۔ لوگ لاکھ کہیں کہ ملک کی بقا کا مسئلہ تھا مگر نواز شریف کو تو کمپرومائز کرنا پڑا۔
اگر عوام آپ میں اپنی بقا تلاش نہیں کرتے تو آپ زبردستی کیوں ملکی مجبوریوں کی کہانیاں سنا کر خود کو اُن پر مسلط کرنا چاہتے ہیں؟ لوگ اگر‘ بقول آپ کے ‘' تباہی‘ کا راستہ چن رہے ہیں تو چننے دیں۔ لوگوں کو اگر وہ لوگ یا حکمران اچھے لگتے ہیں جو کام نہیں صرف ٹک ٹاک پر بیانہ بنا کر عوام کا دل جیت سکتے ہیں تو انہیں جیتنے دیں۔ انہیں خود ہی کچھ دنوں بعد اندازہ ہو جائے گا۔ یا پھر آپ بھی ٹک ٹاک پر آ جائیں اور ریلیں بنا کر وڈیوز ڈالیں‘ تا کہ عوام آپ سے بھی خوش رہیں گے۔
اس کمپرومائز کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کو زبردستی کی سیٹیں جتوا کر بھی وزیراعظم نہیں بننے دیا گیا۔ اگرچہ وزیراعظم بن کر بھی آپ نے بیرونِ ملک دورں ہی پر رہنا تھا‘ پارلیمنٹ نہیں جانا تھا یا کابینہ کا اجلاس تک نہیں بلانا تھا۔ اب بھی تو گھر ہی بیٹھیں گے‘ لہٰذا اس وقت ہی یہ فیصلہ کر لیتے کہ مجھے زبردستی نہ جتوائیں۔ یہ ایک باعزت سیاسی راستہ تھا جو لیا جا سکتا تھا‘ مگر ہماری سیاست اور سیاستدانوں کا سیاسی آنر اور سیاسی وراثت سے کیا لینا دینا۔ Legacy اور Honor جیسے لفظوں کی ہمارے نزدیک صفر اہمیت ہے۔ پھر بھی نواز شریف کو چرچل اور اندرا گاندھی والا روٹ لینا چاہئے تھا‘ ان کی طرح شکست تسلیم کر کے مخالفین کو حکومت بنانے دیتے۔