"RKC" (space) message & send to 7575

باجوڑ کا ڈاکٹر شازلی منظور

آپ کی زندگی میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے آپ پہلی دفعہ ملتے ہیں اور فوراً ان سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگوں سے آپ پوری عمر ملتے رہیں پھر بھی ان کی کوئی بات آپ کو متاثر نہیں کر پاتی اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ آپ اُن سے زندگی میں صرف ایک دفعہ ملے ‘پھر ان سے کبھی ملاقات نہ ہوئی لیکن پھر بھی دل و دماغ کے کسی کونے میں وہ ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ ڈاکٹر شازلی منظور اُن چند لوگوں میں سے ہیں جن سے میں پہلی ملاقات میں ہی متاثر ہوگیا‘ جبکہ ڈاکٹر ظفر نیازی وہ آدمی تھے جن سے میری ایک ہی دفعہ ملاقات ہوئی لیکن ان کی شخصیت کا تاثر آج تک میرے اوپر قائم ہے حالانکہ انہیں فوت ہوئے بھی اب 22 برس گزر چکے ہیں۔ ان سے میری صرف ایک ملاقات ہوئی تھی۔ ظفر نیازی بھٹو صاحب کے ڈینٹسٹ تھے اور انہوں نے بھٹو صاحب کے جیل کے دنوں میں ان کا بڑا ساتھ دیا تھا۔
یہ ایک طویل کہانی ہے کہ انہوں نے بھٹو صاحب سے اپنی وفاداری کیسے نبھائی اور اس کی پاداش میں کیا کچھ بھگتا‘ لیکن میں نے زندگی میں ڈاکٹر ظفر نیازی جیسا نفیس‘ انکسار پسند اور مختلف انسان کم ہی دیکھا ہے۔آپ ان کی شخصیت کا اندازہ یوں لگا لیں کہ میری ان سے 2000ء میں ایک ملاقات ہوئی۔ 2002ء میں وہ فوت ہو گئے لیکن آج ان کی وفات کے 22برس بعد بھی ان کو نہیں بھول پایا۔ اسی طرح ڈاکٹر شازلی منظور وہ آدمی ہیں جن سے پہلی ملاقات نے ہی مجھے بہت متاثر کیا۔ اگرچہ میں نے ان کا نام اُس وقت سنا تھا جب کووڈ وبا نے پاکستان سمیت پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ موت کے خوف نے سب کو جکڑ لیا تھا‘ لگتا تھا کہ قیامت کا منظر ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے ڈرتے تھے۔ لوگوں کے عزیز اور سگے رشتے ان سے دور ہو چکے تھے۔ ہر کسی کو اپنی جان عزیز تھی۔ چہروں پر ماسک چڑھ گئے تھے۔ کسی کو کچھ پتہ نہ چل رہا تھا کہ یہ کیسا وائرس ہے اور اس کا علاج کیسے ہو گا اور آیا جو بندہ ہسپتال جائے گا وہ زندہ واپس آئے گا یا نہیں۔ کووڈ کا دوسرا نام موت تھا۔
ان حالات میں فرنٹ لائن پر ہونے کی وجہ سے ڈاکٹرز اور نرسیں سب سے زیادہ دباؤ میں تھے۔ انہیں بھی علم نہ تھا کہ وہ کس بیماری سے مقابلہ کررہے ہیں۔ اس کا علاج کیسے ہو گا۔ اس دوران کچھ ڈاکٹرز اور نرسیں بھی کووڈ کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ جس سے خوف مزید بڑھ گیا اور کوئی مریض کے قریب جانے کو تیار نہ تھا۔ ان حالات میں ڈاکٹر شازلی منظور‘ جو کہ ایک Chest Specialist ہیں‘ نے خطرناک رسک لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ ڈاکٹر ہو کر مریضوں کو موت کے منہ میں جاتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ وہ جس ہسپتال میں کام کررہے تھے اس کی انتظامیہ کا خیال تھا کہ ان حالات میں اب ہسپتال کو بند ہی کرنا پڑے گا‘ لیکن ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ نہیں‘ ایسا نہیں ہوگا۔ ہم یہیں کووڈ وارڈ بنا کر لوگوں کا علاج کریں گے۔ اس وقت مریضوں کو ہماری ضرورت ہے۔ انہیں اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ کہہ کر وہ ہسپتال سے سیدھے گھر گئے۔ اپنی بیٹیوں کو بٹھا کر انہیں اعتماد میں لیا کہ وہ جو کام کرنے جا رہے ہیں ممکن ہے کہ زندہ واپس نہ آئیں‘ لیکن اس وقت انہیں فرنٹ لائن پر رہنا ہے‘ یہی ان کا کام ہے۔ ان کی بیوی اور بیٹیوں نے ان کی پوری بات سنی اور سمجھی اور کہا کہ آپ اس وقت انسانیت کے کام آئیں‘ یہی زیادہ ضروری ہے۔
یوں اُن بچیوں نے اپنے باپ کو ہسپتال واپس بھیجا جہاں ڈاکٹر شازلی اور ان کی ٹیم نے کووڈ کے مریضوں کی دیکھ بھال شروع کی۔ خود ڈاکٹر صاحب بھی اس کا شکار ہوئے لیکن ہر دفعہ تندرست ہو کر دوبارہ مریضوں کے علاج میں جُت گئے۔ وہ کئی مریضوں کو موت کے منہ سے واپس لائے۔ اس دوران انہیں اسلام آباد میں شہرت حاصل ہو چکی تھی کہ ڈاکٹر صاحب اللہ کی مہربانی سے کووڈ کا علاج کر رہے ہیں۔ تین بڑے صحافی بھی کووڈ کا شکار ہو کر ان کے پاس علاج کیلئے پہنچے۔ اُن صحافیوں کی حالت کچھ اچھی نہیں تھی۔ ایک دو تو باقاعدہ وینٹی لیٹر پر تھا۔ کووڈ کے دنوں میں جو وینٹی لیٹر پر گیا وہ واپس نہیں آیا ‘ لیکن ڈاکٹر شازلی ایسے بہت سے مریضوں کو اللہ کی مہربانی سے زندگی کی طرف واپس لائے۔ کووڈ کا شکار ہو کر ان کے پاس جانے والوں میں انصار عباسی‘ سمیع ابراہیم اور سلیم صافی بھی شامل تھے۔
کچھ دن پہلے میری ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ ان میں اتنی ہمت کہاں سے آئی کہ انہوں نے خود کو موت کے منہ میں ڈالا حالانکہ ان کی اپنی فیملی تھی۔ کہنے لگے کہ اُس وقت جب میرے مریضوں کو میری ضرورت تھی تو میں محض اس لیے گھر بیٹھ جاتا کہ میری جان بچی رہے‘ مجھے یہ بزدلی لگی۔ میرے پوچھنے پر بتانے لگے کہ میں نے امریکہ اور آسٹریلیا میں پریکٹس کی لیکن ایک دن پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا‘ جب یہ اندازہ ہوا کہ اب بڑھاپے کی طرف بڑھتے والدین کو ان کی ضرورت ہے۔ ہسپتال کے سی ای او کیلئے یہ عجیب سی بات تھی کہ کوئی ڈاکٹر اتنا پیسہ کما رہا ہو اور سب کچھ چھوڑ کر پاکستان چلا جائے تاکہ والدین کی خدمت کر سکے۔ ہسپتال کا سی ای او سمجھا کہ شاید ڈاکٹر شازلی زیادہ تنخواہ کے خواہاں ہیں‘ لہٰذا اس نے انہیں نیا پیکیج آفر کیا۔ یہاں تک کہا کہ وہ سال میں تین ماہ پاکستان اپنے والدین کے پاس رہ لیا کریں اور تنخواہ بھی لیتے رہیں‘ لیکن ڈاکٹر صاحب کو عجیب سی بے چینی تھی اور وہ سب کچھ چھوڑ کر اپنے والد کے پاس لوٹ آئے۔ان کے والد ونگ کمانڈر منظور‘ جوکہ 1965ء کی جنگ کے ہیرو تھے‘ نے بیٹے کو منع کیا کہ وہ اپنا مستقبل دیکھے اور ان کی خاطر پاکستان نہ لوٹے‘ لیکن ڈاکٹر شازلی کیلئے ممکن نہ تھا کہ جب بوڑھے والدین کو ان کی ضرورت تھی تو وہ اس وقت بیرونِ ملک بیٹھ کر تجوریاں بھرے۔ یوں بوڑھے باپ کی محبت انہیں پاکستان واپس لے آئی۔
ڈاکٹر شازلی منظور کو دلی تسلی ہے کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر پاکستان واپس لوٹے تاکہ اپنے والد کی خدمت کر سکیں جنہیں اُن کی ضرورت تھی۔ بتانے لگے کہ ایک دفعہ اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں ایک دو اوورسیز پاکستانیوں نے‘ جو وہاں اپنے والد کے علاج کیلئے آئے تھے‘ میرے ساتھ بلا وجہ بدتمیزی کی کہ یہ نہیں ہورہا‘ وہ نہیں ہورہا تو میں نے پوچھا کہ آپ باہر سے آئے ہیں؟ وہ بندہ حیران ہوا اور بولا: جی‘ آپ کو کیسے پتہ چلا؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ جتنا شور تم اپنے والد کیلئے مچا رہے ہو‘ یہ تمہارے اندر کی Guilt ہے۔ تم ہمسایوں کو باپ کی رکھوالی پر رکھ کر چند سو ڈالرز بھیج کر خود کو تسلی دیتے رہے۔ اب تم نے واپس جانا ہے اور تمہارے اندر فرسٹریشن بڑھ رہی ہے اورتم پورے ہسپتال پر شاؤٹ کر رہے ہو۔ شاید ڈاکٹر صاحب کو اپنا وقت یاد آگیا ہو جب وہ سب کچھ چھوڑ کر باپ کی محبت میں پاکستان لوٹ آئے تھے اور آج تک انہیں اپنے اس فیصلے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ میں حیران ہوں کہ اس ملک میں صدارتی یا حکومتی میڈلز ایسے لوگوں کو کیوں نہیں ملتے؟ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو حکومتِ پاکستان نے آپ کی خدمات پر کوئی ایوارڈ دیا تو بے نیازی سے سر ہلا کر بولے: انسانوں کی خدمت اور جان بچانے کے بعد جو لوگ مجھے دعائیں دیتے ہیں اس سے بڑا میڈل کوئی نہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ میڈلز بانٹتے وقت سیاسی حکمران اور بیوروکریسی کو ایسے بے نیاز لوگ کیوں نظر نہیں آتے جو سب کچھ چھوڑ کر پاکستان لوٹے اور کووڈ کے دنوں میں اپنی جان پر کھیل کر سینکڑوں انسانی جانیں بچائیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں