اگرچہ میں تو امید ختم ہی کر بیٹھا تھا کہ ہمارے پسماندہ علاقوں خصوصا ًایم ایم روڈ کی قسمت کبھی جاگے گی۔ 2018ء میں عمران خان سے کچھ امید تھی کہ وہ میانوالی کے راستوں سے اچھی طرح آشنا ہیں اور برسوں سے ان راستوں پر سفر کررہے ہیں۔اگر کسی سیاستدان نے اسلام آباد سے ان علاقوں خصوصاً میانوالی تک کا زیادہ سفر کیا ہوگا تو وہ عمران خان ہی ہیں۔
1997ء میں جب انتخابی حلقہ کی تلاش شروع ہوئی تو فیصلہ ہوا کہ وہ میانوالی کا رُخ کریں جہاں سے آبائو اجداد کا تعلق تھا۔ پھر عزیز رشتہ دار اور کزن بھی وہاں سیاسی طور پر ایکٹو تھے۔ انعام اللہ نیازی ایم این اے تو حفیظ اللہ نیاری اپنا خاصا حلقۂ احباب رکھتے تھے۔ نمل پراجیکٹ کے سلسلے میں بھی عمران خان کے اکثر میانوالی کے سفرہوتے تھے۔ نمل یونیورسٹی بالکل پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔ برسوں تک یونیورسٹی کے ان پہاڑوں میں گھنٹوں ٹریفک جام رہتی تھی۔ سڑک کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ تلہ گنگ سے میانوالی روڈ بہت خراب حالت میں تھی۔ اس لیے جب عمران خان وزیراعظم بنے تو میرے ذہن میں تھا کہ وہ اس خطے کے لوگوں کے لیے سب سے پہلے ایم ایم روڈ پر توجہ دیں گے۔یہ سوچ کر ہی میں نے وزیراعظم عمران خان سے صحافیوں اور اینکرز کی پہلی ملاقات میں یہ بات کہی تھی کہ سر جی ایم ایم روڈ پر حادثے ہو رہے ہیں‘ روزانہ لوگ مر رہے ہیں‘ آپ تو اُن ٹوٹی پھوٹی سڑک پر خود سفر کرتے رہے ہیں اور میانوالی آپ کے آبائو اجداد کا شہر بھی ہے پھر اوپر سے میانوالی سے بھکر‘ لیہ‘ مظفرگڑھ یا ڈیرہ غازی خان تک آپ کی پارٹی الیکشن جیتی ہے لہٰذا ان علاقوں کی طویل سڑک کو آپ کی توجہ کی ضرورت ہے۔
میرا خیال تھا کہ خان صاحب اس پر مثبت جواب دیں گے کیونکہ یہ ان کے اپنے لوگوں‘ ووٹرز اور علاقے کا ایشو تھا‘ لیکن حیران کن طور پر وہ ناراض ہوگئے کہ ان سے ایم ایم روڈ کا سوال ہی کیوں کیا۔ بولے‘ یہ میرا کام نہیں ہے۔ اس پر وہاں بیٹھے میرے صحافی دوستوں نے میرا مذاق اڑایا کہ کہاں سے ایم ایم روڈ کا سوال لے آئے ہو۔ یہاں خان صاحب پوری دنیا کو لیڈ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں اور تم ہو کہ ایم ایم روڈ کو درمیان میں لے آئے۔میں نے دوستوں کو کہا: اس طویل تباہ شدہ سڑک پر لوگ مر رہے ہیں‘دنیا بعد میں چلا لیجیے گا پہلے جن لوگوں نے ووٹ دیا ہے ان کی جانیں بچا لیں۔ مسلم اُمہ کا لیڈر بعد میں بھی بنا جاسکتا ہے۔ دنیا کو چلانے کے منصوبے کچھ دن کے لیے ایک طرف کر کے اپنے لوگوں پر توجہ دیں جن کی اس طویل برباد سڑک کی وجہ سے جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔
خیر اس کے بعد پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیموں کو ٹاسک دیا گیا کہ مجھے سبق سکھائیں کہ وزیراعظم سے ایم ایم روڈ کا سوال کیوں کیا۔ کئی ماہ میں نے پی ٹی آئی سے گالیاں کھائیں‘ پھر بھی کئی دفعہ ٹاک شوز میں ایشو اٹھایا لیکن وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے کان پر جوں تک نہ رینگی‘ البتہ 2022ء میں پنجاب اسمبلی کے جب ضمنی الیکشن ہوئے تو پی ٹی آئی پھر انہی اضلاع سے بڑے آرام سے الیکشن جیت گئی حالانکہ ان علاقوں میں عثمان بزدار کے دور میں کوئی کام نہیں کیا گیا تھا۔ ایک ٹی وی چینل پر میرے دوستوں نے میرا پھر مذاق اڑایا کہ تم نے مفت میں اپنے علاقوں کی پسماندگی کا رولا ڈالا ہوا ہے۔ میانوالی ‘بھکر‘ لیہ‘ مظفرگڑھ کے عوام کا مسئلہ تو ترقی یا ترقیاتی کام نہیں ہیں‘ نہ انہیں ایم ایم روڈ درکار ہے۔ وہ عمران خان کی بات سمجھ چکے ہیں‘ قومیں سڑکوں سے عظیم نہیں بنتیں۔ تمہارے علاقے کے لوگ ترقی نہیں کرنا چاہتے‘ پہلے وہ عظیم قوم بننا چاہتے ہیں اور یہ کام عمران خان ہی کر سکتا ہے۔ سڑکوں کا ہم نے اچار ڈالنا ہے۔ انہوں نے میرا مذاق اڑایا اور کہا‘ تم سکون کرو۔ لوگ کاموں پر ووٹ نہیں دیتے وہ محض جذباتی نعروں پر ووٹ دیتے ہیں کہ ہم نے عظیم قوم بننا ہے۔
اب کی دفعہ بھی 8 فروری کو پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار پھر انہی اضلاع سے جیت کر آئے ہیں جہاں پی ٹی آئی نے عثمان بزدار دور میں کوئی کام نہیں کیا۔ یہ معاملہ صرف ایم ایم روڈ کا نہ تھا‘ اگر شور کوٹ سے جھنگ گڑھ مہاراجہ اورچوک اعظم لیہ روڈکی حالت دیکھ لیں تو کبھی یقین نہ کریں کہ اس سائیڈ پر بھی انسان بستے ہیں۔ فیصل آباد ملتان موٹر وے کا فائدہ اس علاقے کے لوگوں کو نہ ہوا کیونکہ شور کوٹ جھنگ چوک اعظم روڈ اتنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے کہ بندہ اس پر پیدل نہ چل سکے۔ لیکن وہی بات کہ عمران خان نے اچھی طرح یہ بات ہمارے لوگوں کو سمجھا دی ہے کہ قومیں سڑکوں کی وجہ سے عظیم نہیں بنتیں۔ کسی نے نہ پوچھا پھر کیسے بنتی ہیں۔ شاید عثمان بزدار کے ذریعے بنتی ہیں۔
میں نے تو اب اپنے علاقے کے مسائل پر بات کرنا تقریباً چھوڑ دیا تھا کیونکہ مجھے احساس ہوا کہ لوگوں کے نزدیک اجتماعی کام اہم نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ کام پر ووٹ دیتے ہیں۔ لوگوں کو بیوقوف بنانا آسان ہے نسبتاً اس بات کے کہ انہیں یقین دلایا جائے کہ انہیں بیوقوف بنایا جارہا ہے۔ یوں ٹک ٹاک پر سستے گانوں اور جگت بازی میں پھنسی قوم اب پہلے عظیم بننا چاہتی ہے جو دنیا کو لیڈ کرے گی۔ یقین کریں ایسی بڑھکیں سن کر حیرانی ہوتی ہے کہ واقعی ہم اتنے ہی سادہ ہیں یا بیوقوف۔ کیا لوگوں کو بیوقوف بنانا واقعی اتنا آسان ہے جتنی آسانی سے وہ بن جاتے ہیں یا پھر عظمت کا نعرہ اتنا مسحور کن ہے کہ ہر بندہ اس میں بہہ جاتا ہے‘ چاہے رات کو گھر کھانے کے لیے کچھ نہ ہو؟
خیر چند دن پہلے ٹویٹر پر ایک کلپ دیکھا جس میں وزیراعلیٰ مریم نواز صاحبہ پنجاب میں سڑکوں کے منصوبوں کی تفصیلات فائنل کررہی تھیں۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ پرویز سندھلیہ صاحب نے ٹویٹ میں یہ خبر دی ہوئی تھی کہ وزیراعلیٰ مریم نواز صاحبہ نے صوبے بھر کی سڑکوں کی چھ ماہ میں بحالی کا ٹارگٹ دیا ہے جس کے تحت ساڑھے سولہ ہزار کلومیٹر طویل سڑکوں کی مرمت کی جائے گی اور ساتھ میں دس خطرناک پلوں کی بحالی کا کام بھی ہوگا۔ مجھ سے نہ رہا گیا حالانکہ مجھے علم ہے کہ ہمارے علاقے کے لوگوں کی ترجیح سڑکیں نہیں کیونکہ وہ پہلے عظیم قوم بننا چاہتے ہیں۔میں نے اس ٹویٹ پر لکھا کہ شور کوٹ‘ جھنگ لیہ روڈ کی حالت بہت خراب ہے‘ اسے بھی ان منصوبوں میں شامل رکھیں۔ ایم ایم روڈ تو برسوں سے کسی مسیحا کے انتظار میں ہے۔
میرے اس ٹویٹ پر وزیراعلیٰ مریم نواز صاحبہ نے خود جواب دیا کہ ہم پورے صوبے میں پانچ سو سڑکوں کی بحالی کا کام شروع کررہے ہیں۔ اور ساتھ میں مریم نواز صاحبہ نے ایم ایم روڈ اور شور کوٹ جھنگ مظفرگڑھ روڈ ایشو پر اپنے صوبائی وزیربرائے مواصلات ملک شعیب احمد کو بھی کہا کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں۔ ملک شعیب کا کہنا تھا کہ شور کوٹ جھنگ لیہ روڈ پہلے ہی منصوبے میں شامل ہے اور ایم ایم روڈ ایشو کو بھی وہ ٹیک اَپ کررہے ہیں۔
سوشل میڈیا کا یہ بڑا فائدہ ہوا ہے کہ آپ اب حکمرانوں سے براہِ راست رابطہ کرسکتے ہیں۔ عثمان بزدار خیر ان کاموں سے میلوں دور تھے۔ ان کی ترجیحات کچھ اور تھیں۔وزیراعلیٰ مریم نواز کے پانچ سو سڑکوں کی بحالی کے منصوبے کی طرف توجہ دینا یقینا ایک اچھا فیصلہ ہے ورنہ آج کے دور میں تو کام کر کے الیکشن جیتنا مشکل ہے۔ آپ کوئی کام نہ کریں اور بس ٹک ٹاک پر مزاحیہ کلپ اور گانے بجاتے رہیں‘ قوم کو عظیم بنانے کی خوشخبریاں سناتے رہیں چاہے وہی قوم ایم ایم روڈ پر مررہی ہو تو لوگ آپ سے خوش اور مطمئن رہیں گے۔ آج کے سوشل میڈیا دور میں اجتماعی ترقیاتی کام کرکے ووٹ لینا مشکل ہے۔اصل فن تو ٹکے کا کام نہ کر کے بھی ووٹ لینا ہے۔