ہر روز نئی بات ہوتی ہے اور ہمیں لگتا ہے اب اس سے زیادہ نیا کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن چوبیس گھنٹے بعد ہم غلط ثابت ہوتے ہیں اور اس سے بھی بڑا کام یا بڑی واردات ڈالی جا چکی ہوتی ہے۔ اب تو ہم نے ان ایشوز کا شمار رکھنا بھی چھوڑ دیا ہے جنہوں نے ہمیں دن رات بے چین کیے رکھا تھا‘ جن کا کئی دنوں تک ٹی وی شوز میں چرچا رہتا تھا یا سوشل میڈیا پر ٹرینڈز چلائے جاتے تھے۔ لوگ دھیرے دھیرے بے حس ہوتے گئے اور کوئی خبر اب خبر نہیں رہی۔ اگر کبھی خبروں کی اہمیت دیکھی تھی تو وہ اخبار کا دور تھا۔ ایک خبر چھپتی تھی تو پورے شہر میں آگ لگ جاتی تھی۔ میں نے خبروں سے حکومتی ایوانوں اور وزیروں کو کاپنتے ہوا دیکھا ہے۔ وزیر کو فکر ہوتی تھی کہ کہیں وزارت نہ چلی جائے جبکہ وزیراعظم کو ٹینشن ہوتی تھی کہ کہیں ان کی حکومت کا امیج اتنا نہ بگڑ جائے کہ اپوزیشن صدر کے ساتھ مل کر ان کی حکومت کا تختہ نہ الٹ دے اور کل کلاں کو وہ جیل میں بیٹھے مقدمات بھگت رہے ہوں۔ اسی ڈر کی وجہ سے حکمرانوں نے ہر جگہ اپنا بندہ بٹھانے کا فیصلہ کیا تاکہ کوئی ان کے آرام میں مخل نہ ہو۔ اپنا صدر ہونا چاہیے‘ اپنا آرمی چیف‘ اپنا چیف جسٹس‘ اپنا انٹیلی جنس چیف‘ اپنا صحافی‘ اپنا اینکر‘ اپنا کالم نگار۔ ہر جگہ اپنا بندہ لگا کر بھی وزیراعظم نہ حکومتیں بچا سکے‘ نہ ان کا جیل جانا بند ہوا۔
عدالتوں میں بھی ایک دور تھا کہ جج حکومتیں ہی لگاتی تھیں۔ وہ فیصلہ کرتی تھیں کہ کون چیف جسٹس لگے گا۔ یہ سوچ کر ہی بینظیر بھٹو نے سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس لگایا کہ وہ سندھ سے ہے‘ اپنا بندہ ہے۔ اس نے نواز شریف حکومت کی بحالی کے خلاف رائے دی تھی لہٰذا ہمارا وفادار بن کر رہے گا۔ بعد ازاں اسی سجاد علی شاہ نے فاروق لغاری کے بینظیر حکومت ختم کرنے کے فیصلے کو درست قرار دیا۔ بینظیر بھٹو فاروق لغاری کو صدر اور سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس لگا کر مطمئن تھیں کہ اب ان کے ساتھ چھ اگست 1990ء والا کام نہیں ہوگا مگر صدر غلام اسحاق اور آرمی چیف اسلم بیگ نے ان کی حکومت گھر بھیج دی۔
نواز شریف اس معاملے میں سب سے زیادہ حساس تھے بلکہ انہوں نے ہی یہ روایت شروع کی کہ ہر جگہ اپنا بندہ ہونا چاہیے۔ وہ سرکاری افسران کی غیر جانبداری کے قائل نہ تھے۔ امریکی صدر جارج بش نے تو نائن الیون حملوں کے بعد کہا تھا کہ آپ یا ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمن‘ نیوٹرل ہونے کا کوئی آپشن نہیں ہے‘ ہمارے سیاسی حکمران یہ راز بہت پہلے سے جان چکے تھے کہ نیوٹرل نام کی کوئی بیورو کریسی یا کوئی عہدہ نہیں ہوتا۔ یوں ہر جگہ سیاسی عہدیدار بیٹھ گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہر پارٹی نے یہ روٹ لیا کہ جب بھی انہیں اقتدار ملا تو ہر جگہ ان کے اپنے بندے ہوں‘ ورنہ انہیں کوئی حق نہیں کہ وہ کسی عہدے پر رہیں۔ اگر مجھ سے پوچھیں تو پاکستان کو اسی سوچ اور اسی کلچر نے تباہ کیا۔ بیورو کریٹ بھی سیانے نکلے اور انہوں نے بھی ریاست کے بجائے حکمرانوں سے وفاداری کا حلف لے لیا۔ اب سب ادارے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو چکے ہیں اور کسی کی عزت محفوظ نہیں رہی۔ ہر کوئی دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے تو کھل کر کہہ دیا کہ سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی ہے اور اب بھی ہو رہی ہے۔ اس کے بعد تو ہم حیرت سے انگلیاں ہی منہ میں داب سکتے ہیں۔ جس طرح چھ ججوں نے خط لکھا اور اب ایک جسٹس اطہر من اللہ بھی اس بات کی کنفرمیشن کر رہے ہیں‘ تو اس کے بعد مزید کیا کہا جا سکتا ہے۔
یقینا اس طرح کے خطوط اور اعترافات یا انکشافات سے اداروں کے وقار کو چوٹ لگے گی۔ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں میڈیا ہائوسز کو تو کنٹرول کیا جا سکتا ہے لیکن سوشل میڈیا کو نہیں‘ جس کا ذکر خود چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں کیا کہ سوشل میڈیا ایک بیماری بن چکا ہے۔ اس سے پہلے آرمی چیف بھی اسے شیطانی میڈیا کا لقب دے چکے ہیں۔ مقتدر اداروں کے سربراہان کی طرف سے سو شل میڈیا بارے سخت رائے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ریاست اور ریاستی ادارے بھی اب سوشل میڈیا کی حدت کو محسوس کر رہے ہیں اور اس کو مینج کرنے کا کوئی حل ان کے پاس نہیں ہے۔ ان حالات میں جب اعلیٰ عہدیداران بھی خود کو سوشل میڈیا کے سامنے بے بس محسوس کر رہے ہیں تو پھر ان کے پاس دو ہی آپشن بچ جاتے ہیں۔ ریاست ٹویٹر کو بند کر دے‘ جیسے کہ پہلے ہی کیا جا چکا‘ یا پھر اس نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ایڈجسٹ کرے۔ میرا یہ بھی ماننا ہے کہ جس تیزی سے پاکستان میں سویلین حکمرانوں نے اپنی سپیس اور اختیارات کھوئے ہیں‘ اس کا نتیجہ سیاسی حکمرانوں اور مقتدرہ‘ دونوں کے لیے ہرگز اچھا نہیں نکلے گا۔
جنرل باجوہ نے بھی یہی غلطی کی تھی کہ انہوں نے عمران خان کا ٹھیکہ لے لیا تھا کہ اسے ہر صورت کامیاب کرانا ہے۔ اگرچہ ان کے اپنے ذاتی فوائد اس سوچ کے پیچھے موجود تھے لیکن اس اپروچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان اپنے پائوں پر کھڑے نہ ہو سکے۔ انہیں ہر وقت وہیل چیئرز کو دھکا لگانے یا جنرل باجوہ کی بیساکھی کی ضرورت رہتی تھی۔ جب اکتوبر 2021ء میں عمران خان نے اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی کوشش کی تو وہ آخری کوشش ثابت ہوئی۔ اس وقت تک دیر ہو چکی تھی۔ مجھ سے اگر پوچھیں تو عمران خان سے زیادہ قصور جنرل باجوہ کا تھا جنہوں نے جنرل کیانی یا جنرل راحیل شریف کی طرح پیچھے رہ کر حکومت چلانے کے بجائے سامنے آکرعمران خان کی حکومت چلانے کا ٹھیکہ لیا۔ سب کو علم تھا کہ حکومت جنرل باجوہ کر رہے تھے یا جنرل فیض۔ عمران خان نے بھی یہ نہ سوچا کہ وہ ایک سیاسی وزیراعظم ہیں‘ انہیں مخالفین کو سیاسی طور پر ہینڈل کرنا ہے نہ کہ ہر وقت فون اٹھا کر جنرل باجوہ یا جنرل فیض کو کہنا شروع کر دیں کہ فلاں کو ذرا سیدھا تو کریں۔ یہ وہی کام ہو رہا تھا جیسے سکول میں اکثر بچے کیا کرتے ہیں کہ جب کوئی لڑکا تنگ کرے تو وہ کہتے ہیں کہ ذرا رک! میں اپنے بڑے بھائی کو بلا کر لاتا ہوں‘ وہ تمہیں سیدھا کر دے گا۔ وزیراعظم عمران خان کے بڑے بھائی جنرل باجوہ اور جنرل فیض تھے جو عمران خان کی شکایت پر سیاسی سکول کے لڑکوں کو سیدھا کر رہے تھے۔ اس اپروچ کا جو نقصان ہوا وہ ہم سب جانتے ہیں۔ آج جنرل (ر) باجوہ پچھتاتے ہوں گے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ انہوں نے پہلی بڑی غلطی یہ کی کہ عمران خان کے بڑے بھائی بن بیٹھے اور دوسری غلطی مدتِ ملازمت میں توسیع لے کر کی۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ قمر جاوید باجوہ والی غلطیاں اب بھی دہرائی جا رہی ہیں۔ ہر جگہ بڑا واضح نظر آ رہا ہے کہ شہباز شریف ایک بے بس وزیراعظم ہیں جن کے پاس کوئی پاور نہیں۔ رانا ثناء اللہ کی گفتگو سنیں تو لگتا ہے کہ نواز لیگ دھیرے دھیرے اس بات پر قائل ہوتی جا رہی ہے کہ ان کو حکومت دے کر اقتدار تو دراصل مقتدرہ نے لے لیا ہے اور بدنامی ان کے کھاتے میں آ رہی ہے۔ مقتدرہ کی مرضی کی ٹیم کابینہ میں ہے۔ ان کے دیے گئے نام سینیٹرز بن گئے ہیں۔ ان کے پسندیدہ بندوں کو من پسند وزارتیں اور عہدے مل رہے ہیں۔ رانا ثناء اللہ کا یہ کہنا کہ محسن نقوی چاہتے تو وزیراعظم بھی بن سکتے تھے‘ انہیں کون روک سکتا ہے‘ یہ گہرا طنز بہت بڑا پیغام دے رہا ہے کہ معاملات کہاں تک پہنچ چکے ہیں۔ پہلے محسن نقوی نگران وزیراعلیٰ بنے‘ پھر چیئرمین کرکٹ بورڈ‘ پھر وزیر داخلہ اور اب سینیٹر۔ رانا ثناء اللہ کا یہ کہنا کہ وہ چاہتے تو وزیراعظم بھی لگ سکتے تھے‘ اس سے عید کے بعد فائر ورک کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ جب پرانی غلطیاں دہرائی جائیں گی تو نتائج بھی وہی نکلیں گے۔