سابق وزیرخزانہ سلیم مانڈوی والا نے بات ہی ایسی کردی کہ یقین نہیں آیا۔ کہنے لگے :رئوف صاحب دیکھ لیں وقت تیزی سے گزر گیا ہے۔ آپ اور میں نے دس سال کے اندر اندر اسحاق ڈار کے 2014 ء میں جاری کیے گئے یورو بانڈز کو 2024ء میں میچور ہوتے دیکھ لیا ہے۔آپ کو لگ رہا ہوگا اس میں ایسی کیا خاص بات ہے۔بانڈز نے میچو ر ہونا تھا‘ ہوگئے۔آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن غلط میں بھی نہیں کہہ رہا۔ جب میں آپ کو پوری کہانی سنا چکوں گا تو آپ کو یقین آئے گا کہ میری اس بات کے پیچھے کیا کہانی ہے‘ میرے اور سلیم مانڈوی والا کے درمیان ہونے والی اس گفتگو کا کیا بیک گراونڈ ہے۔کل پرسوں پوری قوم کو ایک خوشخبری سنائی گئی کہ پاکستان نے بانڈز کی ادائیگی کے لیے ایک ارب ڈالرز انتظام کر لیا ہے۔ یقینا ایک خوشی کی خبر ہے ان لوگوں کیلئے جو پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے سے بچانا چاہتے تھے اور بُری خبر ہے ان لیڈروں اور لوگوں کے لیے جو دن رات دعا کررہے تھے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے‘لیکن اس ایک ارب ڈالرز بانڈز کی کہانی بھی کچھ زیادہ خوش آئند نہیں ہے۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ 2014ء میں جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے یوروبانڈز فلوٹ کرنے کا اعلان کیا۔اس وقت عالمی مارکیٹ میں بانڈز فلوٹ کرنے کا وقت نہیں تھا۔ کچھ اور ممالک بھی بانڈز فلوٹ کرنا چاہتے تھے جن میں ترکی بھی شامل تھا لیکن مارکیٹ میں مارک اَپ ریٹ بہت زیادہ تھا لہٰذا ان تین چار ممالک نے فورا ًبانڈز فلوٹ کرنے کی بجائے کچھ دن انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ عالمی مارکیٹ میں ماہرِ معیشت اور دیگر ایکسپرٹ اس وقت حیران رہ گئے جب اسحاق ڈار نے عالمی مارکیٹ میں 500 ملین ڈالر کے یورو کے بانڈز فلوٹ کرنے کا اعلان کیا۔ پتا چلا ان بانڈز کا سالانہ پرافٹ 8.25 فیصدہوگا تو مارکیٹ میں کھلبلی مچ گئی۔ آج تک کسی ملک نے اتنا بڑا پرافٹ آفر نہیں کیا تھا۔ سب حیران تھے کہ اسحاق ڈار کو کیا ہوگیا ہے۔ 500 ملین ڈالرز اتنی بڑی رقم بھی نہیں یا اتنی بڑی ایمرجنسی بھی نہ تھی کہ اتنا مہنگا قرضہ لیا جاتا۔ پاکستان کو اس وقت ادائیگیوں یا ڈیفالٹ کا ایشو بھی نہیں تھا۔ اگر بہت زیادہ ضرورت تھی بھی تو متحدہ عرب امارات نے پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے ابھی 800 ملین ڈالرز روک رکھے تھے۔ وہ پیسہ جنرل مشرف دور سے انہوں نے دیناتھا جو نہیں دے رہے تھے۔ عقل کا تقاضا تھا کہ متحدہ عرب امارت کی منت ترلا کیا جاتا کہ چلیں 500 ملین ڈالرز ہی دے دیں۔ باقی ہم معاف کر دیتے ہیں۔ لیکن ہم سب کو علم ہے کہ ہمارے حکمران لندن یا د بئی کے حکمرانوں کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے‘ کیونکہ وہاں ان کی اپنی جائیدادیں ہیں‘ گھر ہیں‘لہٰذا وہ افورڈ نہیں کرسکتے کہ پاکستان کا حق مانگ سکیں بلکہ جب میں نے 2016ء میں دبئی لیکس کے نام سے پچیس سو پاکستانیوں کی دبئی میں جائیداد کی تفصیلات کا سکینڈل بریک کیا تھاتو اس میں عمران خان کی دو بہنوں کا نام بھی شامل تھا جنہوں نے دبئی میں فلیٹس خرید رکھے تھے جنہیں انہوں نے پاکستان میں اپنے گوشواروں میں ڈکلیئر نہیں کیا تھا۔
خیر اُن دنوں یہ خبر سامنے آئی کہ بھارت کی مشہور کمپنی ریلائنس نے بھی 700 ملین ڈالرز کے بانڈز فلوٹ کیے تو انہوں نے سالانہ پرافٹ ریٹ 2.75 فیصددیا جبکہ اسحاق ڈار‘جو پاکستان کے وزیرخزانہ تھے‘ انہوں نے سوا آٹھ فیصد پرافٹ دیا۔ یوں ایک پرائیویٹ کمپنی کی کریڈٹ ریٹنگز پوری ریاستِ پاکستان سے زیادہ بہتر نکلی۔ سرمایہ کاروں کو بھارت کی ایک نجی کمپنی پر زیادہ بھروسا تھا کہ وہ ہر سال پرافٹ بھی دے گی اور بانڈز میچور ہونے پر ادائیگی بھی مکمل ہوگی۔ لیکن ایک نیوکلیئر سٹیٹ پر یقین نہ تھا کہ وہ دس سال تک انہیں پرافٹ دے پائے گی اور دس سال پورے ہونے پر بانڈز میچور ہونے پر ادائیگی بھی کرے گی۔ یوں ان سب نے 8.25 فیصدپرافٹ مانگا اور انڈیا کی کمپنی کو خوشی خوشی 700 ملین ڈالرز صرف ڈھائی فیصد پر دے دیے۔جب یہ خبر پاکستان میں بریک ہوئی تو دو تین کام ہوئے۔ سینیٹر عثمان سیف اللہ نے قومی اسمبلی میں ایک دھواں دھار تقریر کی جس میں انہوں نے پہلی دفعہ دعویٰ کیا کہ اسحاق ڈار نے پاکستانی تاریخ کا مہنگا ترین قرضہ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پانچ سو ملین ڈالرز پر پاکستان کو سرمایہ کاروں کو ساڑھے چار سو ملین ڈالرز کا پرافٹ دیناہوگا۔ مطلب سو فیصد ادائیگی کرنی ہوگی۔
ابھی اس پر گرد بیٹھ ہی رہی تھی کہ سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے اپنی کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا کہ ان کے علم میں آیا ہے کہ پاکستان سے 70 ملین ڈالرز کچھ اہم لوگوں نے باہر بھیج کر یہ بانڈز خریدے ‘ کیونکہ اتنا بڑا پرافٹ وہ دوبارہ اپنی زندگیوں میں سوچ ہی نہیں سکتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ 70 ملین ڈالرز بڑے بڑے لوگوں نے باہر بھجوائے تاکہ وہ یہ بانڈز خرید سکیں۔ چند بینکوں کے ذریعے بعد میں وہ بانڈز خریدے گئے کیونکہ پرافٹ بہت زیادہ تھا۔ اس پر سلیم مانڈوی والا نے بہت اجلاس بلائے لیکن کوئی انہیں وہ نام دینے کو تیار نہ تھا جنہوں نے پاکستان سے بانڈز خریدے تھے۔ اُس وقت کے سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کو دو تین دفعہ بلایا گیا لیکن وہ اُن لوگوں کے نام دینے سے انکاری تھے جنہوں نے پاکستان سے ڈالرز باہر بھیج کر وہ بانڈز خریدے تھے۔اس دوران میری ملاقات چودھری شجاعت حسین سے اُن کے گھر پر ہوئی۔ اُن دنوں میں اس ایشو پر کام کررہا تھا کیونکہ یہ بات اب سینیٹ کمیٹی برائے خزانہ میں سلیم مانڈوی والا اٹھا چکے تھے اورسینیٹر عثمان سیف اللہ بھی اس پر بات کر چکے تھے۔ چودھری شجاعت حسین کو بھی اس ایشو کی بھنک پڑ چکی تھی۔ مجھے کہنے لگے: ائوے منڈیاایدھر آ گل سُن۔ میں تجھے بتاتا ہوں ان بانڈز کے پیچھے کون ہے اور وہ کون سے تین لوگ ہیں جن کی خاطر یہ بانڈز فلوٹ کیے گئے۔ مقصد ان تین خاندانوں کو فائدہ پہنچانا تھا۔ جان بوجھ کر سوا آٹھ فیصد پرافٹ رکھا گیا کیونکہ اس کے خریدار وہی پاکستانی تھے جو یہ سب فیصلے کرتے ہیں۔ انہوں نے دو بڑے سیاسی گھرانوں کے علاوہ لاہور کے ایک بڑے بینکر کا نام لیاکہ ان بانڈز کا سارا پرافٹ ان کی جیب میں جارہا ہے۔میں حیرانی سے بیٹھا سنتا رہا کہ کوئی اپنے ملک کے ساتھ ایسی بے رحمی بھی کرسکتا ہے کہ صرف اپنے ایک پائو گوشت کے لیے پورا اونٹ ذبح کر دے۔
پچھلے دنوں انکشاف ہوا کہ پاکستان قرضوں پر سات ہزار ارب روپے سود دے رہا ہے اور بینکوں کی موجیں لگی ہوئی ہیں۔ پاکستان کا کل ٹیکس ریونیو پانچ چھ ہزار ارب سے زیادہ نہیں اور وہ سب کچھ سود ادا کرنے کی مد میں جارہا ہے‘ بلکہ سود دینے کے لیے بھی الٹا بینکوں سے سود پر قرضہ لیا جارہا ہے۔ مہنگے قرضوں نے بھٹہ بٹھا دیا ہے۔انہی دنوں ہمارے صحافی دوست احتشام الحق نے اس پانچ سو ملین ڈالرز پر ایک کالم لکھا تو انہوں نے اسحاق ڈار کے حوالے سے کہا کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے جا ن بوجھ کر اتنا مہنگا قرضہ کیسے لے لیا ‘ جب ترکی جیسے ملک بھی پیچھے ہٹ گئے‘ تو ڈار صاحب نے بڑا دلچسپ جواب دیا کہ ہم عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ چیک کررہے تھے۔ مطلب ساکھ چیک کرنے کے چکر میں دنیا کا مہنگا ترین قرضہ لے لیا اور وہ بانڈز بھی اپنے ہی لوگوں نے خرید لیے۔
یہ دس سال پہلے کا واقعہ ہے اور اب اسی ماہ پاکستان ان بانڈز کی ادائیگی کررہا ہے اور مجھے سلیم مانڈوی والا نے ہنس کر یاد کرایا کہ رئوف صاحب دیکھ لیں ہماری نظروں کے سامنے ہی یہ بانڈ میچور بھی ہوگیا جس پر رولا ڈالا تھا۔ یوں لگتا ہے کہ دس سال دس دنوں میں گزر گئے۔ اب آپ کو سمجھ آگئی ہوگی ڈار صاحب کو وزارتِ خزانہ کیوں جان سے بھی عزیز ہے بلکہ یوں کہیے کہ جیسے جن کی قید میں شہزادی کی جان طوطے میں ہوتی تھی‘ ایسے ہی اسحاق ڈار کی جان وزارتِ خزانہ میں ہے۔