فون تھا آئی جی جیل خانہ جات پنجاب فاروق نذیر کا۔ وہ جیلوں میں لائبریریاں بنانا چاہتے ہیں‘ انہیں کتابوں کی ضرورت ہے جو وہ اُن قیدیوں کو فراہم کر سکیں جو پڑھنا چاہتے ہیں۔ میں حیران ہوا کہ ایسا جیلر پاکستان میں کب پیدا ہوا جو قیدیوں کے لیے لائبریری بنانے اور ان کے پڑھنے کے لیے کتابیں ڈھونڈ رہا ہے۔وہ بتانے لگے کہ قیدیوں میں کتابیں پڑھنے کی رجحان اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ اب اس ڈیمانڈ کو پورا نہیں کر پا رہے۔
26برس پہلے جب میں ملتان میں ایک انگریزی اخبار میں رپورٹر تھا تو فاروق نذیر سے شکیل انجم‘ ناصر شیخ اور ظفر آہیر کی وساطت سے ملاقات ہوئی۔ شاید وہ اُس وقت ساہیوال کی جیل کے سپریٹنڈنٹ تھے اور انہوں نے قیدیوں کیلئے چند اقدامات کیے تھے جس پر میں نے ایک سٹوری کی تھی۔ عمومی طور پر فلموں اور ڈراموں سے جیلر کا تاثر ایک خوفناک انسان کا اُبھرتا ہے جو ہر قیدی کے ساتھ بربریت سے پیش آتا ہے۔ خیر جیلر بھی کیا کرے‘ جیل میں قید لوگوں کو ہینڈل کرنا کسی بھی انسان کیلئے آسان نہیں۔ انہوں نے ہر جیل میں جا کر جو اچھا کام کیا وہ قیدیوں کے کھانے پینے پر توجہ دینا تھا۔ جو قیدی عدالتوں میں اپنے مقدمات کی سماعت کیلئے جاتے ان کو سارا دن کھانا نہیں ملتا تھا‘ انہیں جیل واپسی پر ہی کچھ کھانے کو ملتا تھا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ صبح سویرے ان سب قیدیوں کا سکول کے بچوں کی طرح ٹفن باکس تیار کیا جاتا ہے‘ پانی کی بوتلیں ساتھ دی جاتی ہیں تاکہ وہ لوگ وہیں عدالتوں میں اپنے کیس کی سماعت کا انتظار کرتے ہوئے اپنا دوپہر کا کھانا کھا لیں۔ تمام انڈر ٹرائل قیدیوں کو صبح سویرے وہ ٹفن باکس دیے جاتے ہیں‘ عدالت سے واپسی پر وہ سب خالی ٹفن باکس جیل کے عملے کو جمع کراتے ہیں۔ چند قیدیوں کی ڈیوٹی ان باکس کو دھونے پر لگی ہوتی ہے۔ اگلے دن صبح سویرے پھر یہی مشق دہرائی جاتی ہے۔ یوں قیدی سارا دن وین میں بیٹھ کر بھوکے پیاسے نہیں رہتے۔ یہ طریقہ کار پہلی دفعہ پنجاب کی جیلوں میں متعارف کرایا گیا ہے۔
میں نے فاروق نذیر سے پوچھا کہ ان قیدیوں سے جیلوں میں فرنیچر ‘ قالین‘ فٹ بال یا جو دیگر سامان بنوایا جاتا ہے اس کا وہ کیا کرتے ہیں؟ انہوں نے بتایاکہ وہ سامان مارکیٹ میں بیچا جاتا ہے۔ ہم آرڈر پر بھی سامان بنواتے ہیں۔ یہ مشقت اُن قیدیوں سے کرائی جاتی ہے جنہیں عدالتیں قید بامشقت دیتی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا ان قیدیوں کو بھی ان چیزوں کی مارکیٹ میں فروخت سے کچھ مزدوری کا حصہ دیا جاتا ہے؟ اُن کی بات سن کر میں ششدر رہ گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان قیدیوں کو ان کے بنائے سامان میں سے کچھ نہیں ملتا۔ وہ سب مفت میں مزدوری کرتے ہیں۔ سب پیسہ حکومت کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتا ہے۔ میں نے کہا :یہ تو بڑی زیادتی ہے۔ جو قیدی سارا دن آپ کو مزدوری کرکے سامان بنا کر دیتا ہے اور آپ باہر بیچ کر پیسے کماتے ہیں اس میں سے اس قیدی کو کیوں حصہ نہیں ملتا؟ ان کا کہنا تھا کہ یہی قانون اور عدالتوں کا حکم ہے۔ مزید کہنے لگے کہ اب انہوں نے پنجاب حکومت کو تجاویز دی ہیں کہ قانون میں تبدیلی کی جائے اور ان قیدیوں کو بھی اس سامان کی فروخت میں سے حصہ ملنا چاہیے۔
یہ وہ ترمیم ہے جو بلا تاخیر ہونی چاہیے کیونکہ جو لوگ جیلوں میں قید ہوتے ہیں‘ پیچھے ان کے گھروں میں بیوی بچے یا ماں باپ رُل جاتے ہیں۔ وہ مزید جرائم کی دنیا میں پھنس جاتے ہیں تاکہ گزارا کر سکیں۔آئی جی جیل خانہ جات نے انکشاف کیا کہ اس وقت پنجاب کی جیلوں میں بارہ سو خواتین قید ہیں۔ ان میں سے 126ایسی مائیں بھی شامل ہیں جن کے ساتھ ان کے بچے بھی قید ہیں۔ وہ اتنے چھوٹے ہیں کہ انہیں ماؤں سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے آئی جی جیل خانہ جات سے پوچھا کہ وہ کن جرائم میں قید ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اکثر خواتین وہ ہیں جن کے خاوند مختلف جرائم میں جیل میں قید تھے اور ان کے پاس گزارے کیلئے کوئی وسیلہ نہیں رہاتھا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو پالنے پوسنے کی خاطر وہ مختلف گینگز کے ہتھے چڑھ گئیں جو ان سے منشیات کی سمگلنگ کا دھندہ کراتے تھے۔ ایک چکر کے چار پانچ ہزار روپے انہیں دے دیے جاتے تھے اور وہ مجبور ہو کر ان جرائم پیسہ گینگز کے ہاتھوں استعمال ہوتی رہیں تاکہ وہ اپنے بچے پال سکیں۔ اور بالآخر وہ پکڑی گئیں۔ یوں پہلے والد جیل گیا تو پھر ماں جیل گئی اور بچے پیچھے رُل گئے جن کا پیچھے کوئی نہیں ہوتا کہ ان کا خیال رکھ سکے۔
میں حیران ہو کر یہ باتیں سنتا رہا اور کہا کہ بچوں کا باپ جیل میں بیٹھا روزانہ گھنٹوں مزدوری کر رہا ہے اور اسے اس کی مزدوری کا ایک روپیہ بھی نہیں مل رہا اور اس کی بیوی بچے پیچھے زندہ رہنے کیلئے جرائم کی دنیا میں شامل ہو رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت جیلوں میں ایسے قیدیوں کو ان کی بنائی ہوئی اشیا میں سے زیادہ نہیں تو کم از کم پچاس فیصد منافع تو دے۔ اب اس قیدی کی مرضی ہے کہ وہ پیسے اپنے گھر بھیجنا چاہتا ہے یا بچا کر اپنے لیے رکھنا چاہتا ہے تاکہ کل کو وہ رہا ہو تو کم از کم اس کے پاس اتنے پیسے تو ہوں کہ وہ اپنا چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر سکے اور دوبارہ جرم نہ کرے۔ ان قیدیوں کو الگ سے بینک اکاؤنٹ کھولنے کی سہولت بھی دیں تاکہ مزدوری سے ملنے والا پیسہ وہ بینک میں رکھ سکیں۔ یہ تو ظلم ہے کہ سارا دن جس قیدی سے مزدوری کرائی جاتی ہے اور اس کی بنائی ہوئی چیزوں سے لاکھوں‘ کروڑوں روپیہ پنجاب حکومت کا محکمہ جیل کما رہا ہے‘ اسے ایک روپیہ تک نہیں مل رہا۔وہ کہنے لگے کہ اب وہ اس قانون میں تبدیلیوں کے لیے کوششیں کررہے ہیں اور مسودہ قانون بنا کر بھیجا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون کے تحت قید بامشقت کا تصور یہی تھا کہ سزا یافتہ قیدی سے مشقت کرائی جائے اور اس کا کوئی معاوضہ قانون میں نہیں دیا گیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ جنہوں نے قید بامشقت کا قانون بنایا تھا انہوں نے یہ بھی تو سوچا ہوگا کہ قیدی کے پیچھے اس کے جو ماں باپ یا بیوی بچے ہوں گے ان کا کیا بنے گا۔ مان لیا انہوں نے جرم کرتے وقت اپنے ماں باپ یا بیوی بچوں کا نہیں سوچا تو قانون کیوں سوچے؟ لیکن پھر ایک مجرم اور ریاست میں کیا فرق رہ گیا؟ ریاست نے جہاں مجرم کو سزا دینی ہے وہیں اس مجرم کے بے قصور بیوی بچوں یا ماں باپ کا بھی سوچنا ہے جو اس جرم کے براہِ راست متاثرین ہیں اور ان کا اتنا ہی نقصان ہوا ہے جتنا مدعی کا ہوتا ہے۔ یہ تو بے گناہ وکٹمز ہیں۔ چلیں ریاست ان کا خیال نہ رکھے لیکن جو قیدی جیل میں مزدوری کرکے حکومت کو کما کر دے رہے ہیں انہیں تو ان کی مزدوری میں حصہ دے تاکہ وہ اپنے لواحقین کا خیال رکھ سکیں اور وہ جرائم کی دنیا میں نہ پھنس جائیں جیسے اس وقت ہورہا ہے۔
میں نے مزید پوچھا کہ اس کے علاوہ خواتین کن جرائم پر جیلوں میں قید ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ تین چار درجن ایسی خواتین بھی ہیں جن پر اپنے خاوندوں کو قتل کرنے کا الزام ہے۔ میں افسردہ ہو کر وہ دردناک کہانیاں سنتا رہا کہ ایک عورت اپنے بچوں کے باپ کو قتل کرنے جیسا فیصلہ کیسے کر لیتی ہے۔ ایک ایسا فیصلہ جس کی وجہ سے بچوں نے پہلے باپ کھویا اور پھر ماں کھوئی اور وہ رُل گئے۔ ہم انسان بھی عجیب ہیں۔ جون ایلیا یاد آئے:
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں(جاری)