ہمارے دوست شاہد صدیقی صاحب لاہور سے آئے ہوئے تھے۔ طویل مدت بعد ان سے ملاقات ہو رہی تھی۔ پروفیسر طاہر ملک بھی شریکِ مجلس تھے۔ شاہد صدیقی اسلام آباد میں تھے تو ان کے دم سے رونقیں تھیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو نیا رنگ دیا۔ کالم نگاروں اور اینکروں‘ شعرا اور ادیبوں نے بھی یونیورسٹی کا منہ دیکھا۔ طالب علموں سے مکالمہ شروع ہوا۔ کتاب میلے ہوں یا مشاعرے یا لیکچرز‘ ایک علمی رونق کا سا ماحول تھا۔ پتا ہی نہیں چلا‘ صدیقی صاحب کے چار سال گزر گئے اور وہ ریٹائر ہو گئے۔ زندگی میں جو میں نے دو تین لوگ دیکھے‘ جن کے بارے میں میرا خیال تھا کہ انہیں ریٹائر نہیں ہونا چاہیے تھا‘ ان میں ڈاکٹر ظفر الطاف‘ ڈاکٹر انوار احمد اور شاہد صدیقی کے نام سرفہرست ہیں۔ معاشرے میں ان کے فیض کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے تھا۔ پرویز مشرف دور میں ڈاکٹر ظفر الطاف کو او ایس ڈی بنایا گیا (ویسے ہر دور میں ہی وہ زیرعتاب رہے) تو میں نے جنرل مشرف کے ایک بہت قریبی سیاستدان کو کہا کہ آپ لوگوں نے اس ملک کے کسانوں اور لوگوں ساتھ بڑا ظلم ہے‘ ڈاکٹر صاحب جیسے ایک ذہین اور قابل بندے کو گھر بھیج دیا ہے‘ ان کا ٹیلنٹ گھر بیٹھ کر ضائع ہو جائے گا۔ ان صاحب نے مجھے ایک ایسی بات کہی کہ اس کے بعد میری ٹیلنٹ کے بارے میں سوچ ہی بدل گئی۔ میں نے عمر بھر دوبار ہ کسی بندے کے بارے یہ نہیں کہا اور نہ سوچا کہ فلاں کا ٹیلنٹ ضائع ہو گیا۔ وہ کہنے لگے: آپ کو کس نے کہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا ٹیلنٹ ضائع ہو گا؟ جو ٹیلنٹ ہوتا ہے وہ ضائع نہیں ہوتا اور جو ضائع ہو گیا‘ سمجھیے کہ وہ کبھی ٹیلنٹ تھا ہی نہیں۔ وہ ایک تُکا تھا جو کچھ عرصے کے لیے کام کر گیا اور جب اسے آگے سے مزاحمت ملی تو وہ دبائو کا شکار ہو کر دوڑ سے نکل گیا یا نکال دیا گیا۔ ٹیلنٹ تو نکھرتا ہی اس وقت ہے جب اسے ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے جو اسے دبانے کی کوشش کریں‘ پھر وہ ان تمام مشکلات کو زیر کر کے ایک تیراک کی طرح سطح سمندر پر ابھرے۔ ان کا کہنا تھا کہ تم دیکھ لینا ڈاکٹر صاحب جس شعبے اور جس جگہ ہوں گے‘ وہ وہاں تبدیلی لائیں گے۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہماری حکومت کی بدقسمتی ہے لیکن یہ کہنا کہ اگر انہوں نے حکومت میں کام نہ کیا تو وہ ضائع ہو جائیں گے‘ غلط ہے۔ وہ جہاں جائیں گے اپنی الگ دنیا پیدا کر لیں گے۔
اور وہی ہوا۔ جب کچھ دنوں بعد انہیں امریکی ایگرکلچرل ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے روم میں ایک اعلیٰ عہدے کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے انکار کر دیا۔ کہنے لگے: مجھ سے کام لینا ہے تو پاکستان میں لو تاکہ پاکستانی کسانوں کو فائدہ ہو۔ روم جانے سے انکار کر دیا حالانکہ ڈالروں میں بڑی تنخواہ مل رہی تھی۔ کچھ دنوں بعد انہیں وسطی ایشیا کے ایک ملک نے رکھ لیا کہ آپ ہمیں ہمارے ملک کے لیے زرعی پالیسی بنا کر دیں۔ جب میں نے ڈاکٹر صاحب کو دن رات زرعی پالیسیاں بناتے دیکھا تو مجھے جنرل مشرف کے اس قریبی سیاستدان کی بات یاد آئی کہ ٹیلنٹ کبھی ضائع نہیں ہوتا‘ جو ضائع ہو گیا سمجھ لو وہ کبھی ٹیلنٹ تھا ہی نہیں۔
خیر مجلس میں بات جھوٹی خبروں اور افواہوں کی طرف چل پڑی۔ لاہور میں جس طرح ایک جھوٹی خبر کو پھیلا کر طلبہ کے ذریعے ہنگامے کرائے گئے‘ اس پر ہم تینوں افسردہ تھے۔ جھوٹ کے خریدار کتنی آسانی سے مل جاتے ہیں جبکہ سچ اکیلا رہ جاتا ہے۔ اگرچہ دنیا کے کچھ ممالک میں جعلی خبروں کی وجہ سے پُرتشدد ہنگامے ہو چکے ہیں لیکن دیکھا جائے تو پاکستان میں پہلی بار ایک جھوٹی خبر نے اس طرح ہنگامے اور توڑ پھوڑ کرائی ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو چند ماہ پہلے برطانیہ میں بھی دور دراز بیٹھے ایک صاحب کی ایک جعلی خبر کی بنیاد پر ہنگامے شروع ہو گئے تھے جس کی وجہ سے برطانیہ کئی دن تک مشکل حالات کا شکار رہا۔ یہ ہنگامے اس وقت شروع ہوئے جب یہ جھوٹی خبر پھیلائی گئی کہ برطانیہ میں جن تین چھوٹی بچیوں کو قتل کیا گیا تھا‘ ان کا قاتل ایک مسلمان تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ خبر جھوٹی تھی اور ان بچیوں کے قاتل کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ لیکن ہیجان اور پاگل پن میں کون کب کسی کی سنتا ہے اور یوں سب نے دیکھا کہ برطانیہ کے مقامی گورے اور ایشیائی تارکین وطن اور مسلمان آمنے سامنے آ گئے۔ دونوں اطراف سے لوگوں نے جلسے جلوس اور مارچ شروع کر دیے۔ تارکین وطن کو انگلینڈ سے ڈی پورٹ کرنے کا مطالبہ شروع ہو گیا۔ دوسری طرف وہ گورے بھی باہر نکلے جو نسل پرست نہیں تھے اور تارکین وطن کے حامی تھے۔ انہوں نے برطانیہ کی تاریخ کے بڑے لانگ مارچ کر کے سب کو حیران کر دیا کہ اگر برطانیہ میں نسل پرست لوگ موجود ہیں تو ان سے زیادہ بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو تارکین وطن کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں۔ اب ذرا آپ ردعمل ملاحظہ کریں کہ برطانوی حکومت نے جھوٹی خبروں کے بعد پیدا ہونے والی خطرناک صورتحال کا مقابلہ کیسے کیا۔ انہوں نے ہنگامہ آرائی کرنے والے پندرہ سو لوگوں کو گرفتار کیا اور اب تک ان میں سے اکثریت کو سزا سنائی جا چکی ہے۔ راتوں رات عدالتیں لگا کر سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے مجرموں کی شناخت کر کے سب کو سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔ کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں دکھائی جا رہی کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں نے برطانیہ کا تشخص خراب کیا ہے اور بڑے پیمانے پر فسادات کی کوشش کی‘ جس میں سینکڑوں جانیں جا سکتی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دلوں میں ایسی نفرتیں پیدا کر دیں جو ایک سلگتی آگ کی طرح معاشرے کو کھا رہی ہیں۔ جھوٹی خبروں کی وجہ سے برطانوی سماج مزید نفرت اور تقسیم کا شکار ہوا۔ اگر آپ کو یاد ہو تو برطانوی وزیراعظم نے ہنگاموں کے وقت ہی کہا تھا کہ جو لوگ ان ہنگاموں میں ملوث ہیں وہ تسلی رکھیں‘ انہیں برطانوی قانون نہیں چھوڑے گا۔ پولیس راتوں کو ان کے دروازوں پر دستک دے گی۔ اور پھر وہی ہوا‘ راتوں رات ایسے شرپسندوں کو ان کے گھروں سے گرفتار کر کے رات تک کھلنے والی عدالتوں میں پیش کر کے سزائیں سنائی دی گئیں اور اب بھی سنائی جا رہی ہیں۔
اس طرح کی جعلی خبروں کا کمال ہمیں امریکہ میں بھی نظر آیا جب وہاں سوشل میڈیا پر پوسٹیں لگنا شروع ہو گئیں کہ غیر قانونی تارکین وطن ایک ریاست میں لوگوں کے پالتو کتے‘ بلیاں کھا رہے ہیں کیونکہ انہیں کھانا نہیں مل رہا۔ سوشل میڈیا کا یہ پروپیگنڈا اتنا مہلک تھا کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کا لائیو مباحثہ ہوا تو اس میں ٹرمپ نے اس جھوٹی خبر کو ایک ہتھیار کے طور پر ڈیموکریٹس کے خلاف استعمال کیا اور کہا کہ اب وہ تارکین وطن‘ جنہیں صدر بائیڈن اور کملا ہیرس غیر قانونی طور پر امریکہ لا رہے ہیں‘ وہ اتنے بائولے ہو گئے ہیں کہ لوگوں کے کتے بلیاں کھا رہے ہیں۔ اس پر فوراً ہی ردعمل آنا شروع ہو گیا اور پتا چلا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ کسی غیر ملکی تارکِ وطن نے کسی کی بلی یا کتا نہیں کھایا‘ یہ سب ٹرمپ کے حامیوں کی پھیلائی گئی جعلی خبریں تھیں۔ فیک پوسٹس تھیں‘ جو سوشل میڈیا پر پھیلائی گئیں تاکہ ٹرمپ کا امیگریشن کے خلاف جو مؤقف ہے‘ اسے تقویت مل سکے اور لوگوں کو تارکین وطن کے خلاف بھڑکایا جا سکے۔
اب جب برطانیہ سے امریکہ تک‘ پڑھے لکھے اور ترقی یافتہ ممالک کے عوام بھی ایک سکینڈ میں جعلی خبروں پر ایمان لے آتے ہیں تو بھلا پاکستان میں جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈا کے ذریعے کالجوں اور اداروں کو تباہ کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ لوگوں کو بیوقوف بنانا آسان ہے‘ بہ نسبت اس کے کہ انہیں قائل کیا جائے کہ انہیں بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔