وزیراعظم ہاؤس میں ایک میڈیا سیل بنایا گیا جس کا کام پی ٹی آئی کی طرف سے سوشل میڈیا اور نیشنل میڈیا پر نواز شریف حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی گفتگو کا توڑ کرنا تھا۔ اس میڈیا سیل کو مریم صاحبہ ہیڈ کررہی تھیں۔ اس گروپ کی ناشتے پر ملاقات ہوتی تھی‘ گزشتہ رات کے ٹی وی چینلز کے پروگرامز کا جائزہ لیا جاتا تھا‘ شوز میں شریک (ن) لیگ کے لیڈروں کی کارکردگی پر شاباش دی جاتی تھی۔ اینکرز اور چینلز کو ہینڈل کرنے پر بھی گفتگو کی جاتی۔ ہمارے ایک صحافی دوست بھی اُس گروپ میں شامل تھے۔ وہ صحافت چھوڑ کر اہم سرکاری عہدے پر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے جب مریم نواز کو صحافیوں کو براہِ راست فون کرکے باتیں کرتے دیکھا تاکہ اُن کے ساتھ ایک پروفیشنل لنک بنایا جائے تو اُس سابق صحافی نے کہا کہ آپ یہ کیا کررہی ہیں‘ آپ کس کس کو مینج کریں گی‘ ایک کو کریں گی تو دس شروع ہو جائیں گے۔ مریم نواز نے پوچھا تو پھر کیا کریں؟ انہوں نے بڑے پتے کی بات کی کہ آپ چینل مالکان کے ساتھ براہِ راست رابطہ کریں‘ وہ اپنے اینکرز کو خود ہینڈل کر لیں گے۔ جو اینکر آپ کے سامنے نخرے کرے وہ اپنے چینل مالکان کے سامنے بھیگی بلی بن کر وہی کرے گا جو اُس کا مالک کہے گا جس سے اس نے ہر ماہ تنخواہ کا بھاری چیک وصول کرنا ہے۔ یہ بات مریم نواز کی سمجھ میں آئی اور یوں مالکان سے براہِ راست رابطے شروع ہوئے اور میڈیا کو مینج کرنا آسان ہوتا چلا گیا۔ یہ الگ بات کہ وہی ہمارے صحافی دوست جب حکومت سے نکلے تو پچھتاتے تھے کہ انہوں نے کیوں یہ مشورہ دیا تھا۔ ایک دن اُن کے اپنے خلاف بھی فون کال اس چینل کو موصول ہوئی جس میں وہ پروگرام کرتے تھے۔ بعض دفعہ تو مریم نواز نے ان ناشتوں پر اپنے ان لیڈروں کے لیے تالیاں بھی بجوائیں۔ اس گروپ میں محمد زبیر‘ دانیال عزیز اور طلال چوہدری سمیت دیگر بھی شامل تھے۔ پھر شام کے ٹی وی شوز کیلئے حکمت عملی بنائی جاتی۔ حکومت اشتہارات کے ذریعے ٹی وی چینلز کو سنبھالنے میں لگی ہوئی تھی۔ چینل مالکان کو اینکرز بارے بھی ہدایات دی جارہی تھیں کہ فلاں کو نکال دیں‘ فلاں کو رکھ لیں۔ ریٹنگز کنٹرول کرنے کا منصوبہ بھی تھا اور مخالف اینکرز کے شوز کو اشتہارات نہ دینے کا بھی۔
2015 ء میں ایک چینل جوائن کررہے تھے تو اُس وقت وزیراعظم ہاؤس سے چینل مالکان پر دباؤ تھا کہ رؤف کلاسرا اور عامر متین کو مت لائیں۔ اُن پر خاصا دباؤ ڈالا گیا لیکن مالکان کو شاید ہماری ضرورت تھی کہ چینل نیا تھا لہٰذا وہ اس دباؤ کو برداشت کر گئے۔ انہی دنوں پیمرا کو بھی خاصا ایکٹو کیا گیا تاکہ چینلز اور اینکرز کو کنٹرول کیا جائے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ بعض اینکرز واقعی آسمان پر تھے اور غیرذمہ دارنہ گفتگو کررہے تھے۔ ٹی وی سکرین پر دو قسم کے صحافی اُس وقت پروگرام کررہے تھے‘ ایک وہ جو اُردو اور انگریزی پرنٹ جرنلزم سے آئے تھے۔ اُن کی تربیت پروفیشنل بنیادوں پر ہوئی تھی لہٰذا وہ پوری تسلی اور کنفرمیشن کے بعد خبر دینے کے عادی تھے۔ اُن کے پروگرام بالکل مختلف تھے اُن اینکرز سے جو بیٹھے بٹھائے اینکرز بن گئے۔ کیونکہ ٹی وی چینلز کی مارکیٹ بڑھ رہی تھی اور فیلڈ میں زیادہ تربیت یافتہ لوگ موجود نہیں تھے یوں محض لوگوں کی شکلیں دیکھ کر ٹی وی شوز دے دیے گئے اور ان کے ساتھ چند ریسرچر لگا کر انہیں ٹی وی پر بٹھا دیا گیا اور جو کچھ لکھ کر دیا گیا انہوں نے پڑھ دیا۔ یوں خبر اور جینوین تبصرہ غائب ہوتا چلا گیا اور شوز اور خبروں میں خبر کی جگہ خواہش نے لے لی۔
اُس دوران نواز شریف اور مقتدرہ کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو مقتدرہ نے بھی چینل مالکان پر دباؤ بڑھایا کہ عمران خان کو زیادہ وقت دیں اور ان کی سفارش پر کچھ ایسے حکومت مخالف اینکرز کو بھی ٹی وی شوز ملے کہ ان کے ایجنڈے پر کام کریں۔ یوں مقتدرہ کے بھیجے ہوئے نوجوان بھی ٹی وی چینلز کی سکرین پر جلوہ افروز ہوئے اور نئی مہابھارت نے جنم لیا۔ حکومت اور عمران خان کے درمیان جاری اس جنگ میں اب مقتدرہ خان کے ساتھ کھڑی تھی‘ ساتھ ٹی وی چینلز کو ملایا گیا۔ عمران خان پہلے ہی سوشل میڈیا پر حکمرانی کر رہے تھے جبکہ نواز شریف اُن دنوں بیرونِ ملک دوروں میں مصروف تھے۔ وہ پورے چار سو دن ملک سے باہر رہے‘ آٹھ ماہ تک تو پارلیمنٹ نہیں گئے‘ چھ ماہ تک انہوں نے کابینہ اجلاس نہیں بلایا اور میدان عمران خان کے لیے کھلا چھوڑا ہوا تھا۔ مقتدرہ کو بھی موقع مل گیا کہ نواز شریف کو صرف وزیراعظم بننے کی حد تک پارلیمنٹ اور جمہوریت سے دلچسپی تھی۔ وہ وزیراعظم کیلئے اعتماد کا ووٹ لینے پارلیمنٹ گئے‘ اس کے بعد کئی کئی ماہ پارلیمنٹ کا منہ نہیں دیکھا۔ نواز شریف عمران خان اور مقتدرہ کے اس الائنس کو سنجیدہ نہیں لے رہے تھے۔ اس دوران جنرل راحیل شریف اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع بھی چاہتے تھے۔ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان کو بھی دلچسپی تھی کہ جنرل راحیل کو ایک سال کے لیے توسیع مل جائے تو اگلے سال وہ خود آرمی چیف بننے کی فہرست میں شامل ہوں گے۔ وہ بھی اس وقت شریف خاندان کے قریب ہوچکے تھے اور انہیں آرمی چیف کی پوسٹ ایک سال کے فاصلے پر نظر آرہی تھی۔ اس لیے جنرل باجوہ کو جنرل رضوان سے شکایت رہی کہ جب اُن کا نام آرمی چیف کیلئے آیا تو اُن کی طرف سے کچھ ایسے اقدامات کیے گئے جو جنرل باجوہ کو کبھی پسند نہیں آئے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب جنرل باجوہ آرمی چیف بنے تو انہوں نے جنرل رضوان کو فوری طور پر ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا کر عسکری یونیورسٹی میں بھیج دیا۔ وہاں سے کچھ دنوں بعد وہ استعفیٰ دے کر چلے گئے۔ جنرل باجوہ نے اپنا بدلہ لے لیا تھا۔
اس سے پہلے جنرل مشرف کے بعد جنرل کیانی نے بھی سوشل میڈیا کی اہمیت سمجھ لی تھی اور اُس وقت کے ترجمان نے بھی سوشل میڈیا پر رول ادا کرنا شروع کر دیا تھا۔ بہت سے نوجوانوں کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم فراہم کیا گیا۔ بہت سے نوجوان انٹرن شپ کے نام پر بھرتی کر لیے گئے جن کا کام عمران خان کو ہیرو اور اس کے مخالفین کو ولن ثابت کرنا تھا۔ جب آپ کو مقتدرہ کی حمایت حاصل ہو تو بکری بھی شیر بن جاتی ہے‘ وہی ہوا‘ سوشل میڈیا پر مقتدرہ کے حمایت یافتہ ایکٹویسٹس نے اَنی مچا دی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہی نواز شریف حکومت کو کمزور کیا گیا۔ نواز شریف پہلے سے گورننس اور ان ایشوز میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ یوں ان سب کی گرفت کمزور ہوتی گئی۔ اگرچہ مریم نواز نے سوشل میڈیا پر قدم جمانے کی کوشش کی۔ وہاں سے بھی مخالفین پر وہی حملے ہونا شروع ہو گئے جس میں عمران خان سے لے کر صحافیوں اور اینکرز تک سب شامل تھے۔ مریم نواز نے ٹویٹر پر مخالفوں کو جواب دینا شروع کر دیا اور اب ٹویٹرسے ہی حکومت چل رہی تھی۔ اس پر اُس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک دن سخت بات کہہ دی۔ مریم نواز صاحبہ نے کسی ایشو پر ٹویٹ کیا تو کراچی میں چوہدری صاحب سے اس ٹویٹ بارے پوچھ لیا گیا۔ چوہدری صاحب کا بھی الگ شاہی مزاج ہے‘ بندہ ضائع ہو جائے لیکن جملہ نہ ہو۔ وہ بھی ویل لیفٹ پر یقین نہیں رکھتے۔ انہوں نے جو سخت تبصرہ کیا اس سے نواز شریف اور مریم نواز ناخوش تھے کہ ایسی بات میڈیا میں کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ حکومتیں ٹویٹر سے نہیں چلتیں۔ بات تو چوہدری نثار نے ٹھیک کی تھی لیکن عام بندے بارے نہیں تھی۔ وہ وزیراعظم کی بیٹی تھی۔ یوں چوہدری نثار اور نواز شریف کے درمیان اختلافات بڑھتے چلے گئے جس کا انجام ہم سب جانتے ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم ہاؤس میں مریم نواز کو علم تھا کہ سوشل میڈیا لڑائی ابھی شروع ہو رہی ہے۔ ان کے پاس ابھی چند اور پتے باقی تھے جو انہوں نے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ (جاری)