میں رات گئے ملتان پہنچا تھا۔ جمشید رضوانی نے پوچھا کیا کھانا ہے؟ میں نے کچھ جھجک کر کہا: مولانا (اسے پیار سے مولانا کہتا ہوں) اگر دال کھانے کو مل جائے تو کیا ہی بات ہے۔ جمشید سوچ میں پڑ گیا کہ رات بارہ بجے دال کہاں سے ملے گی۔ پھر اچانک جیسے جمشید کے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔ مجھے کہا :چل گاڑی میں بیٹھ۔ کیا یاد کرے گا‘ تجھے بڑی اعلیٰ قسم کی دال کھلاتے ہیں۔
جمشید گاڑی لے کر رات گئے ملتان کی سڑکوں پر نکل گیا۔ ویسے تو سب دالیں بہت اچھی ہیں اور شوق سے بندہ کھا لیتا ہے لیکن مسور کی دال کی اپنی چس اے۔ ''یہ منہ اور مسور کی دال‘‘ کے محاورے کی سمجھ بھی اُس وقت آتی ہے جب آپ مسور کی دال کھاتے ہیں۔ دال سے یاد آیا کہ ہم سب کے تونسہ کے مرحوم استاد نظامی دال کے شدید دشمن تھے۔ ان کے سامنے دال کا تذکرہ کرنا اپنا سر پھڑوانے کی دعوت دینے جیسا تھا۔ وہ دال بالکل نہیں کھاتے تھے۔ کہتے تھے کہ تم سرائیکی دال کھانے کے اتنے شوقین ہو کہ تمہارے دیو (جن) بھی دال کھاتے ہیں۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے استاد نظامی قصہ سناتے تھے کہ ہماری نانیاں دادیاں بچپن میں ایک بادشاہ کا قصہ سناتی تھیں۔ اس بادشا کی ایک خوبصورت بیٹی تھی۔ ایک دن وہ نہانے کے بعد اپنے لمبے لمبے بال سکھانے کیلئے ست ماڑ محل پر کھڑی تھی کہ اوپر سے ایک دیو (جن) گزرا‘ جو اُس پر عاشق ہوا اور اسے اٹھا کر لے گیا۔ بادشاہ بیٹی کے غم میں رو رو کر اندھا ہو گیا۔ وہ شہزادی ساتھ والی ریاست کے شہزادے کی منگ (منگیتر) تھی۔ اس نے گھوڑا نکالا اور قسم کھائی کہ وہ کوہ قاف سے اپنی منگ کو جن سے واپس لائے گا۔ کئی دنوں کی مشکلات کے بعد وہ کوہ قاف پہنچا تو وہاں اُس غار کے سامنے ایک خوفناک دیو بیٹھا تھا جہاں شہزادی قید تھی۔ اس دیو نے اپنے سامنے دال کا کنا رکھا ہوا تھا اور سامنے روٹیوں کا تھمب (انبار) لگا ہوا تھا۔ استاد نظامی مرحوم یہاں پہنچ کر رک جاتے اور ہنس ہنس کر کہتے کہ ذرا اندازہ لگاؤ کہ ہماری فوک کہانیوں کے دیو بھی دال کھاتے ہیں۔ بھائی تم جن ہو‘ بندے کھاؤ‘ اونٹ کھاؤ‘ بکرے کھاؤ لیکن وہ الو کا پٹھا بیٹھا دال کھا رہا تھا۔ استاد نظامی کہتے تھے کہ نظریۂ پاکستان کی ایک بڑی وجہ دال بھی تھی۔ ہم کہتے تھے کہ ہم نے گوشت کھانا ہے۔ ہندو کہتے تھے دال کھاؤ۔ ہم نہ مانے اور اپنا الگ ملک بنا لیا جہاں ہم گوشت کھا سکیں۔ اگر دال ہی کھانی تھی تو پھر الگ ملک کی کیا ضرورت تھی۔
اتنی دیر میں جمشید نے ایک بڑے گھر کے سامنے گاڑی روکی۔ میں حیران ہوا کہ اتنی رات گئے جمشید کہاں لے آیا ہے۔ گیٹ کھلا تو آگے ایک نئی دنیا منتظر تھی۔ یہ ملتان میں رانا خلیل احمد کا گھر تھا اور سامنے پورچ میں درجن بھر لوگ آگ کا الاؤ جلائے گپیں لگا رہے تھے۔ ایک محفل جمی ہوئی تھی۔ حیران ہوا کہ اب بھی لوگ رات گئے اس طرح محفلیں جماتے ہیں۔ وہ سب اتنی محبت سے ملے کہ جیسے برسوں کی دوستی ہو۔ فوری طور پر دال اور دیگر کھانوں سے میز بھر دی گئی۔ میں حیران ہوا کہ سب کچھ اتنی جلدی کیسے؟ پتہ چلا کہ یہ ڈیرہ ہر وقت چلتا ہے‘ یہاں سب کچھ ملتا ہے۔ پتہ چلا کہ رانا خلیل الرحمن ملتان میں پچھلے 20برس سے دوستوں کو اکٹھا کرنے اور رکھنے میں کامیاب ہیں‘ یہ انہی کا ڈیرہ ہے‘ یہاں روز رات کو محفلیں لگتی ہیں‘ دوست اکٹھے ہوتے ہیں۔ سردیوں میں الاؤ‘ کھانا پینا سب کچھ چلتا ہے۔ پھر اسی آگ کے الاؤ پر چائے کا بڑا پیتلا تیار ہوتا ہے۔ چائے بنانا بھی ایک بڑا فن ہے جس میں اس ڈیرے کے آصف مجید اور ڈاکٹر شفیق پتافی ماہر ہیں۔ بڑے بزنس مین لیکن ڈیرے کے متحرک ترین ارکان‘ جن کی نوک جھونک رانا خلیل سے چلتی رہتی ہے اور محفل کو گرمائے رکھتے ہیں۔ یہاں کھانے کا اہتمام یاروں کے یار اور معیاری کھانے کے شوقین اور عمدہ میزبان اظہر ممتاز ٹیپو کے ذمہ ہے۔ دال ہو یا ملتانی چانپ‘ مٹن ہو یا دیسی چکن یا سبزی‘ اس ڈیرے کو آباد رکھنے میں ان کا اہم کردار ہے۔ سیاست ہو یا معیشت‘ جگت بازی ہو یا بحث مباحثہ‘ ڈیرے پر سب کچھ چلتا ہے۔ کسان اتحاد کے خالد کھوکھر اس ڈیرے کے ریگولر رکن ہیں۔ زراعت کے ہر مسئلہ کو یہاں دوستوں کے ساتھ شیئر کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ چوہدری امجد اقبال اور چوہدری جاوید پرنس سنجیدہ گفتگو‘ افتخار الحسن کا روایتی صحافیانہ انداز اور خبریں‘ عبدالرزاق‘ عبدالغفار غفاری‘ علی اکرم اور غلام رسول بلا کا سماجی تعلق‘ سلیم ناصر کی گائیکی اور بہت سے رکن روز رات کو اکٹھے ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان میں سے کوئی شخص شہر میں ہو اور وہ ڈیرے پر نہ آئے۔ رات نو بجے سے ایک بجے تک رانا خلیل کا ڈیرہ بھی کھلا ہے اور دوستوں کیلئے دستر خوان بھی۔ اس ڈیرے پر شہر کی ہر خبر اور ملک کا ہر مسئلہ روز ڈسکس ہوتا ہے۔ ملتان کے سیاستدان‘ سابق و موجودہ وزرا اور ارکانِ اسمبلی اس ڈیرے پر اکثر و بیشتر چکر لگاتے رہتے ہیں۔ کئی سابق اور موجودہ بیوروکریٹ بھی ملتان کے اس ڈیرے کو رونق بخشتے رہتے ہیں اور مختلف الخیال لوگوں سے ایک وقت اور ایک جگہ پر مل کر کچھ بتانا اور کچھ سننا پسند کرتے ہیں۔رانا صاحب نے جو امجد اقبال کا تعارف کرایا وہ کمال تھا کہ یہ پیپلز پارٹی کے اتنے بڑے شیدائی ہیں کہ اس پارٹی کو آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو چھوڑ کر جا سکتے ہیں امجد اقبال نہیں چھوڑیں گے۔
میں نے بڑے عرصے بعد ایسی محفل میں شرکت کی تھی۔ رانا صاحب بتانے لگے کہ وہ روز یہ محفل سجاتے ہیں۔ اگر انہیں شہر سے باہر کسی کی شادی پر جانا ہو تو وہ دن چڑھے ان کے پاس چلے جاتے ہیں اور سلامی دے کر فوراً ملتان اپنے گھر لوٹ آتے ہیں تاکہ شام کو دوستوں کی محفل جمائی جا سکے۔ مزے کی بات ہے کہ اس ڈیرے پر ہر قسمی دوست ہیں جن کے مختلف سیاسی نظریات ہیں۔ جو محفل محبت پیار سے شروع ہوتی ہے وہ رفتہ رفتہ ایک زبانی دنگل کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ کچھ عمران خان کے حامی ہیں تو کچھ نواز لیگ اور کچھ پیپلز پارٹی کے۔ یوں یہاں ہر وقت سیاست زیر بحث رہتی ہے لیکن اس محفل یا ڈیرے کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ بحث وہ جاتے وقت یہیں چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ اپنا غصہ یا ناراضی اپنے گھر لے کر نہیں جاتے۔ اگلے دن پھر وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں چھوڑ گئے تھے۔ ایک دوسرے کیلئے دِلوں میں کوئی ناراضی یا غصہ نہیں رکھتے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔میں نے رانا خلیل الرحمن سے پوچھا کہ آپ اتنے عرصے سے یہ ڈیرہ چلا رہے ہیں‘ آپ کے گھر والے تنگ نہیں آتے کہ یہاں شور شرابہ‘ کھانا پینا اور ہنگامہ چل رہا ہوتا ہے‘ بلکہ میں نے پورچ کی دیواریں اور چھت دیکھ کر کہا کہ اتنا اچھا گھر‘ جس کا پینٹ دھویں کی وجہ سے کالا ہو رہا تھا‘ وہ یہ سب کچھ کیسے برداشت کرتے ہیں؟ عموماً دو تین مہمان آجائیں تو سب تنگ آ جاتے ہیں اور یہاں 20برس سے یہ ڈیرہ چل رہا ہے۔ رانا صاحب نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ جناب گھر والے تنگ تو ہوتے ہیں لیکن اب وہ بھی عادی ہو چکے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ رانا باز نہیں آئے گا۔ اب میں بھی پروا کم ہی کرتا ہوں۔ یاراں نال بہاراں۔
رات گئے جب رانا خلیل کے ڈیرے سے نکلا تو میں نے جمشید سے کہا کہ دال اپنی جگہ لیکن اگر میں ملتان ہوتا تو روز رات کو یہاں حاضری دیتا۔ آج کل رانا خلیل جیسے میزبان اور دوست کہاں ملتے ہیں۔ اس دور میں جب نفرتیں آسمان کو چھو رہی ہیں‘ ایسے ڈیرے نعمت ہیں۔ دوستوں کے ڈیرے آباد رہیں‘ محبتیں بانٹتے رہیں۔ اگر نواز شریف‘ عمران خان اور دیگر سیاستدان چاہیں تو ملتانی رانے کے اس ڈیرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جہاں سب کے اپنے اپنے سیاسی خیالات ہیں لیکن کوئی کسی کا ذاتی دشمن نہیں ہے۔ سب اپنے اپنے سیاسی نظریات پر ڈٹ کر کھڑے ہیں لیکن اس ڈیرے سے سب اپنی محبتوں سمیت بندھے ہوئے ہیں۔