وقتی طور پر پاک بھارت جنگ کی وجہ سے عمران خان ایشو کچھ دیر کے لیے ٹھنڈا ہو گیا تھا لیکن پی ٹی آئی نے ایک بار پھر محاذ گرم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پی ٹی آئی کو ایک بات سمجھ آگئی ہے کہ آپ نے ہر وقت خبروں میں رہنا ہے‘ اخبارات‘ ٹی وی‘ وی لاگز‘ سوشل میڈیا‘ ہر جگہ خود کو آگے رکھنا ہے۔ آپ کے مخالفین کو جگہ نہیں ملنی چاہیے‘ بس ہر جگہ آپ ہی آپ ہوں۔ یقینا عمران خان کو ماضی میں اس حکمت عملی کا فائدہ بھی ہوا اور اس کے سیاسی نتائج بھی ان کے حق میں نکلے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بدلتے حالات میں بھی خود کو ایڈجسٹ کرنے کے بجائے اسی پرانی حکمت عملی پر چلنا چاہتے ہیں کہ کوئی دن ایسا نہ ہو جہاں ان کا ذکر نہ ہو۔ لیکن اس حکمت عملی کا اب فائدے کے بجائے نقصان ہو رہا ہے جس کا ادراک نہ خود خان صاحب کو ہے نہ ان کی ٹیم اور قریبی لوگوں کو۔ لوگ اب ان کی روز روز کی احتجاجی کالز اور بیانات سے تنگ آنا شروع ہو گئے ہیں۔ کنویں سے بچہ نکالنا ہو یا درخت پر چڑھے بچے کو نیچے لانا‘ پی ٹی آئی اب بھی ایک ہی رسہ استعمال کر رہی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہی رسہ سب مسئلوں کا حل ہے‘ چاہے درخت سے بچے کو رسے کے ذریعے اتارتے وقت اس کی جان ہی چلی جائے۔
مزے کی بات ہے کہ ماضی میں جن لوگوں کو ہر روز اخبارات کے صفحہ اول پر رہنے کا شوق تھا یا جن کی تصویریں اور بڑی بڑی خبریں ہر روز چھپتی تھیں وہ اکثر الیکشن میں ہار جاتے رہے۔ پاکستان میں وزیراعظم ہو یا پھر وزیراطلاعات‘ ان کی تصاویر اور خبریں ہمیشہ پہلے صفحے پر چھپتی ہیں۔ شیخ رشید کا حال دیکھ لیں‘ جن کے بغیر ٹی وی سکرین پر شغل نہیں لگتا تھا اور وہ کھڑکی توڑ ہفتہ مناتے تھے‘ ہر اینکر ان کی خوشامد کرتا تھا کہ پروگرام کا وقت دیں۔ ان کا نخرہ اور انداز دیکھنے والا ہوتا تھا۔ آج کل وہ کہاں ہیں‘ کسی کو شاید یاد بھی نہ ہو۔ وہ روز حکومتیں بناتے اور توڑتے تھے۔ حکومت گرانا ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔ ڈکٹیٹروں کا بھی یہی حال رہا کہ روز پہلا صفحہ ان کی خبروں اور تصویروں سے بھرا ہو۔ پی ٹی وی دور میں تو نو بجے کا خبر نامہ ہی جنرل سے شروع ہوتا تھا اور جنرل پر ختم ہوتا تھا۔ پھر نہ وہ جنرل رہے نہ وہ وزیراطلاعات۔ اکثر وہ سیاستدان جو وزیراطلاعات رہے اور جن کے سامنے میڈیا کو سانپ سونگھ جاتا تھا‘ وہ اپنی سیٹ تک نہ جیت سکے۔ آج ان آمروں کا کہیں ذکر بھی نہیں ہوتا جو ہر وقت اخبار اور ٹی وی پر چھائے ہوتے تھے۔ کیا وجہ ہے کہ لوگ جلدی انہیں بھول جاتے ہیں یا شاید لوگ ایک ہی چہرہ دیکھ دیکھ کر تنگ آجاتے ہیں ۔
میرا خیال ہے کہ لوگ روز ایک ہی چہرہ دیکھ دیکھ کر تھک جاتے ہیں اور آج کل تو یہ حالت ہے کہ آپ کوئی بھی فورم چیک کریں‘ وہاں آپ کو سیاسی لیڈروں کے چہرے مسلسل نظر آتے ہیں۔ وہ چوبیس گھنٹے آپ کو کہیں نہ کہیں نظر آ جاتے ہیں۔ آپ ٹی وی چھوڑ کر ایکس (ٹویٹر) پر جائیں‘ وہاں بھی وہ موجود ہوں گے اور یوٹیوب پر بھی۔ اگر آپ نے ان کو ایک ٹی وی شو پر دیکھ لیا اور شکر کیا کہ چلیں آج کا کوٹہ پورا ہوگیا تو آپ غلطی پر ہیں۔ وہ ایک دن میں چار چار شوز پر موجود ہوتے ہیں۔ کئی تو ایسے ہیں جو صبح ناشتہ کر کے گھر سے نکلتے ہیں اور پھر دن بھر ٹی وی چینلز پر ہی پائے جاتے ہیں۔ ایک سٹوڈیو سے نکلے تو اگلا پروڈیوسر فون کررہا ہوتا ہے۔ بعض تو ایسے ہیں کہ پرائم ٹائم میں تین تین اینکرز کو پروگرام ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں اور تینوں پروگرام ایک ہی وقت پر چلتے ہیں۔ ہر جگہ ایک ہی گفتگو! پھر اپنے اپنے سیاسی لیڈروں کی وہ شان بیان کرتے ہیں کہ لیڈر خود سن کر حیران ہوجائے۔ جیسے کبھی عمران خان اپنے محبوب‘ وسیم اکرم پلس عثمان بزدار کا ذکر کرتے تھے تو عقیدت اور احترام سے اس میں ڈوب جاتے تھے اور جو بزدار کی تعریف نہیں کرتا تھا اس سے سخت ناراض ہوتے تھے۔
ندیم افضل چن سے پوچھا گیا کہ عمران خان کی کابینہ سے استعفیٰ کیوں دیا؟ انہوں نے جہاں دیگر کچھ وجوہات بتائی تھیں وہاں ایک مزے کی یہ بات بھی بتائی تھی کہ عمران خان اپنے وزیروں کو ہر کابینہ اجلاس میں کہتے کہ باہر جا کر ٹی وی شوز میں عثمان بزدار کی تعریفیں کرو۔ ان سے بزدار کی تعریف نہیں ہوتی تھی‘ اس لیے کابینہ سے نکل گئے۔ یہ سلسلہ صرف عمران خان تک یا ان لیڈروں تک محدود نہیں جو ٹی وی شوز میں مسلسل خوشامد کرتے اور اپنے لیڈروں کو مہان ہستی بنا کر پیش کرتے تھے۔ پارٹی لیڈروں سے اپنی خوشامد کرانے کا سلسلہ حالیہ تاریخ میں الطاف حسین نے شروع کرایا۔ ایم کیو ایم کے دوست ٹی وی چینلز پر اپنے قائد کی تسبیح پڑھنا شروع کرتے اور پھر پڑھتے جاتے تھے۔ عمران خان اُن دنوں ان کا مذاق اڑاتے تھے کہ ان کا حال دیکھو! یہ کوئی جمہوری پارٹی ہے یا کسی پیر کی پارٹی ہے جہاں مرید عقیدت اور احترام سے سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ اس طرح عمران خان پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے اور سینئر رہنمائوں کا بھی مذاق اڑاتے کہ دیکھو کیسے زندہ لاشیں بن کر اپنے بچوں سے بھی چھوٹے موروثی لیڈروں کے سامنے خوشامدی بن کر بیٹھے ہیں۔ نواز لیگ کو ہم نے دیکھا کہ ہر شو میں ان کے لیڈروں نے بھی‘ کوئی حوالہ بنتا ہے یا نہیں‘ آصف زرداری‘ بلاول بھٹو‘ نواز شریف یا شہباز شریف کو ضرور اپنی گفتگو کا حصہ بنایا ہے اور ان کی اَن گنت خوبیاں اس قوم کو بتائیں۔ پھر عمران خان‘ جو دوسروں کا مذاق اڑاتے تھے انہیں بھی خوشامد سننے کا چسکا پڑ گیا۔
میں حیران ہوتا ہوں کہ جو لوگ مسلسل اپنی تعریف یا خوشامد سنتے ہیں‘ کیا وہ بور نہیں ہوتے؟ ان کے کان تھک نہیں جاتے؟ مانا کہ تعریف اور خوشامد انسانوں کو اچھی لگتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کتنی تعریف اور کتنی خوشامد؟ اور کب تک؟ کیا ان کا دل نہیں کرتا کہ کوئی ایسا دن ہو جب ان کی کوئی تصویر یا بات کسی جگہ نظر نہ آئے؟ ان سب ہنگاموں سے دور کوئی ایک دن صرف ان کا اپنا ہو اور جب وہ ٹی وی یا سوشل میڈیا دیکھیں تو وہاں سے غائب ہوں۔ میں حیران ہوتا ہوں یہ کس حد تک دوسروں کی تعریف کے محتاج ہوتے ہیں اور ان میں مقابلہ ہوتا ہے کہ کون زیادہ خوشامد کرسکتا ہے۔
ایک دفعہ (ن) لیگ کے ایک سینئر رہنما جو کبھی نواز شریف کے قریب ہوا کرتے تھے‘ انہیں کابینہ میں شامل نہ کیا گیا تو کسی نے انہیں کہا کہ جناب آپ کا مزاج الگ ہے‘ اس دربار میں وہی چل سکتا ہے جوخوشامد کا فن جانتا ہو۔ آپ اگر اپنی طبیعت کے مطابق خوشامد نہیں کرسکتے تو پھر اس میں ان کا کیا قصور جو اس فن میں ماہر ہیں۔ انہیں بڑی مشکل سے راضی کیا گیا کہ اگلے پارٹی اجلاس میں وہ نواز شریف کی کچھ خوشامد کریں‘ پھر کرشمے دیکھیں۔ جونہی اجلاس شروع ہوا‘ انہوں نے دل پر جبر کر کے میاں نواز شریف کی تعریفوں کے پل باندھنا شروع کر دیے۔ سب حیران ہوئے کہ آج سورج مغرب سے کیسے نکل آیا۔ آخر پر انہوں نے کہا کہ میاں صاحب! آپ عوام میں بہت مقبول ہیں‘ آپ جیسا لیڈر دور دور تک نظر نہیں آتا۔ ویسے بھی بینظیر بھٹو کے بعد ملک میں آپ ہی اکیلے لیڈر بچے ہیں‘ اگلا الیکشن آپ بھاری مارجن سے جیتیں گے۔ اب وہ اس انتظار میں تھے کہ میاں صاحب خوش ہوں گے اور تالیاں بجیں گی مگر عین اسی وقت ایک اور صاحب‘ جو سابق سفیر تھے اور نئے نئے مشیر بنے تھے‘ اٹھ کر بولے: کمال کرتے ہیں آپ۔ صرف اگلا الیکشن ؟ میاں صاحب تاحیات سب الیکشن جیتیں گے۔ یہ سن کر میاں صاحب کے چہرے پر خوشی ابھری‘ ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور وہ صاحب شرمندہ ہو کر رہ گئے۔ بعد میں اپنے خیرخواہوں سے کہا کہ آپ بتائیں اب میں کہاں مقابلہ کر سکتا تھا؟ اگلے نے تاحیات کہہ کر بات ہی ختم کر دی تھی۔یہ الگ بات ہے کہ اگلے الیکشن سے پہلے نواز شریف نااہل ہو کر اڈیالا جیل بیٹھے تھے اور انہیں وہ خوشامدی جیل کے دروازے تک بھی چھوڑنے نہیں گئے‘ جیسے عمران خان کو چھوڑنے کوئی نہیں گیا تھا۔