"RKC" (space) message & send to 7575

عوامی درد میں مبتلا حکمران

یہ سوال اکثر ذہن میں آتا ہے کہ 25کروڑ کی آبادی میں چند ہزار افراد کیوں ہر قیمت پر ہمارے حکمران بننا چاہتے ہیں؟
ان میں ایسا کیا خاص ہوتا ہے کہ وہ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں‘ سمجھتے ہیں کہ وہ زیادہ ذہین ہیں‘ زیادہ امیر ہیں‘ ایماندار ہیں اور ان کے دل میں عام لوگوں کا درد ہے۔ وہ ان کی زندگی کا معیار بہتر کر دیں گے۔ چونکہ ان کے پاس بڑے بڑے گھر‘ گاڑیاں اور پیسہ ہوتا ہے لہٰذا عام لوگ ان کی باتوں پر جلد اعتبار کر لیتے ہیں اور یوں وہ حکمرانی کی طرف اپنا سفر شروع کر دیتے ہیں اور ایک دن حکمران بن جاتے ہیں۔ اور پھر ایک دن وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس عوام کو نوکریاں دینے کیلئے تو پیسے نہیں ہیں لیکن ہمارا اپنا گزارہ اُس تنخواہ میں نہیں ہو رہا جو ہمیں مل رہی ہے لہٰذا یہ فوراً بڑھائی جائے‘ اور پھر خود ہی اسمبلی میں بیٹھ کر اپنی تنخواہ بڑھا لیتے ہیں۔ لیکن یہ استحقاق عوام کے پاس نہیں ہے کہ وہ بھی اپنی تنخواہ بڑھا سکیں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے ڈاؤن سائزنگ کے نام پر سرکاری محکمے بند کیے جا رہے ہیں اور ہزاروں لوگ بے روزگار ہورہے ہیں۔ پہلے پی ڈیلیو ڈی کو بند کیا گیا‘اب یوٹیلیٹی سٹور کارپویشن کو بھی بند کر دیا گیا ہے جس میں بارہ ہزار ملازمین کام کر تے تھے۔ ضلع لیہ کے کروڑ شہر کا میرا پرانا کلاس فیلو اور دوست بھی بے روزگار ہونے والوں میں شامل ہے‘ جو بچیوں کا باپ ہے اور کتنا پریشان ہے یہ میں جانتا ہوں۔ وہ اکیلا پریشان نہیں ہے بلکہ ہزاروں گھرانے اس وقت شدید پریشانی میں مبتلا ہیں اور انہیں کچھ نظر نہیں آرہا کہ کیا کریں۔ آپ کا جواب ہو گا کہ وہ کچھ کام کر لیں‘ لیکن کیا کام کریں ؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ چلیں مان لیا کہ ان میں سے چند سو اگر کاروبار شروع کر بھی لیں تو باقی کیا کریں گے؟ ہر بندے کے پاس اپنا کاروبار یا دکان کھولنے کی سکت نہیں ہوتی۔
اب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کے اجلاس میں حکومت نے کہا ہے کہ ریاست اب مزید سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس وقت کئی حکومتی کمپنیاں کاروبار کر رہی ہیں مگر منافع بخش نہیں ہیں‘ انہیں یا تو بند کیا جائے گا یا نجکاری کے ذریعے چلایا جائے گا۔ یہ بھی کہا گیا کہ نوکریاں دینا حکومت کا کام نہیں۔ مان لیا یہ کام حکومت کا نہیں لیکن ایک ایسا ماحول پیدا کرنا تو حکومت کا کام ہے جس سے نوجوانوں کو نجی شعبے میں نوکریاں مل سکیں۔ کیا اس ملک میں کبھی ایسا ماحول بنا ہے کہ نوجوانوں کو آسانی سے نوکری مل سکے؟ جس شرح سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اس شرح سے آپ کتنے لوگوں کو نوکریاں دے سکیں گے؟ اب مسئلہ صرف کھانا کھانے کا نہیں رہا‘ کھانا تو ہر کوئی کسی نہ کسی طرح کھا لیتا ہے‘ اب جو لڑائی ہو رہی ہے وہ معیارِ زندگی کی ہے‘ جو شخص ایک طے شدہ معیار کے مطابق زندگی نہیں گزار پا رہا وہ اگر کار پر بھی سوار ہے تو بھی گلہ شکوہ کرتا پایا جاتا ہے۔
اب بنیادی ضروریات مسئلہ نہیں رہیں۔ مجھے اگر کوئی ایسا شخص جو کسی بڑے ہوٹل میں ایک رات کا تیس‘ چالیس ہزار روپے کرایہ دے کر ہوٹل سے جاتا ہوا لابی میں مل جائے تو وہ بھی رونا روتا ہے۔ میرا واسطہ اُن لوگوں سے پڑتا ہے جو مہنگے ریستوران سے کھانے کا پندرہ‘ بیس ہزار روپے بل دے کر نکل رہے ہوں گے اور پوچھیں گے کہ ملک کدھر جارہا ہے ‘ ہم برباد ہورہے ہیں۔ گارڈ یا مزدور یہ سوال نہیں پوچھتے کہ ان کا کیا بنے گا ۔ وہ یہ گلہ نہیں کرتے۔ گلہ بھی وہی کرتا ہے جس کے پاس پہلے سے کچھ نہ کچھ ہے اور اسے خوف ہے کہ اگر کچھ ہو گیا تو اس کا معیارِ زندگی متاثر ہو گا۔ ہر ایک اپنا معیارِ زندگی قائم رکھنا چاہتا ہے جو ٹھیک بات ہے لیکن جب وہ اپنے ذہن میں قائم کردہ معیار حاصل نہیں کر سکتا تو اس کے اندر غصہ اور چڑچڑاپن بڑھ جاتا ہے اور اسے حکمران برے لگنے لگتے ہیں جنہیں وہ اپنے مسائل کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ لیکن اگر حکمران مرضی کا ہو تو مہنگائی بھی تنگ نہیں کرتی‘ اگر مرضی کا حکمران نہ ہو توغصہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ اکیس لاکھ ہو گئی ہے‘ ارکان اسمبلی کی تنخواہ سات لاکھ تک بڑھ گئی ہے‘ ان ارکان کو ترقیاتی فنڈز الگ سے دیے جاتے ہیں‘ بقول شاہد خاقان عباسی ارکانِ اسمبلی اس میں سے تیس فیصد تک کمیشن لیتے ہیں (یقینا سب ارکان کمیشن نہیں کھاتے)۔ جب ان کی تنخواہ پر رولا پڑا تو وزیر خزانہ نے جواب دیا کہ بعض ارکان غریب ہیں۔ مطلب بعض ''غریب ارکان‘‘ کا گھر چلانے کیلئے باقی پانچ سو ارکانِ اسمبلی اور سینیٹرز کو بھی کھل کر تنخواہ دے دو۔ اور پھر بھاری تنخواہ لے کر اس اسمبلی میں یہ ارکان کیا کر رہے ہیں؟ اسمبلی اجلاس میں گالی گلوچ کے علاوہ کیا ہوتا ہے؟ ڈیڑھ سال سے ایک اجلاس بھی ایسا نہیں ہوا جو سکون سے چلا ہو اور اپوزیشن نے ہنگامہ نہ کیا ہو۔ وہ اس اسمبلی کو جعلی اسمبلی کہتے ہیں لیکن تنخواہیں بھی لے رہے ہیں۔ اس جعلی اسمبلی کے (ن) لیگ اور پی پی پی ارکان کی طرف سے بڑھائی گئی تنخواہ پر پی ٹی آئی ارکان کو کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ ان کی تنخواہ بھی بڑھ گئی ہے۔ لہٰذا تنخواہ کے معاملے میں پی ٹی آئی کو نہ اسمبلی جعلی لگتی ہے نہ ہی اس جعلی اسمبلی کی بڑھائی ہوئی تنخواہ بری لگتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب لوگ تو عام لوگوں کی زندگیاں بدلنے آئے تھے‘ ان میں سے بیشتر کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے‘ انہیں کوئی لالچ نہیں‘ انہیں عوام کا درد یہاں تک لایا ہے لیکن اب عوام کا درد ختم ہو گیا اور ان کا اپنا درد شروع ہو گیا ہے۔ بجلی مہنگی کی گئی تو بھی اس کا فائدہ حکمرانوں کے بچوں کو پہنچا کہ وہ نجی بجلی گھر چلا رہے تھے۔کسی دن وفاقی وزیر برائے نجکاری کی توانائی پر رپورٹ پڑھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ حکمرانوں کے بچوں نے کتنے لمبے ہاتھ مارے ہیں۔ پہلے گیس کی قیمت میں اضافہ کیا‘ پھر پٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھائی‘ پھر اپنی تنخواہیں بڑھائیں‘ ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کیا اور اب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نوکریاں نہیں ہیں‘ پیسہ نہیں ہے۔ لیکن اپنی ضرورت کیلئے تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھا کر خرچہ پورا کر لیتے ہیں۔
دوسری طرف حالت یہ ہے کہ پنجاب میں سرکاری سکول‘ کالج یا ہسپتال تک نجی شعبے کو دیے جا رہے ہیں۔ حکومت کہتی ہے اس کا کام نہ سکول چلانا ہے‘ نہ ہسپتال چلانا‘ نہ نوکریاں دینا‘ بلوچستان سے لاشیں الگ آرہی ہیں‘ تو پھر حکمرانوں کا کیا کام ہے؟ کچھ عرصہ بعد اپنی غربت کا رونا رو کر اپنی تنخواہیں بڑھا لینا‘ ہزاروں افراد کو نوکریوں سے نکال دینا اور سکولوں اور ہسپتالوں سے ہزاروں استادوں یا نرسز کا ٹرانسفر کرکے دوردراز علاقوں میں بھیج دینا؟ اگر لیہ کے کسی سرکاری ہیلتھ یونٹ کی نرس کا تبادلہ ڈیرہ غازی خان کے ہیلتھ یونٹ میں کر دیاجائے گا تو وہ کیسے وہاں جاکر کام کر پائے گی؟ اس طرح خواتین ٹیچرز کو بھی لیہ سے ڈیرہ یا تونسہ بھیجا جائے گا تو وہ کیسے ایڈجسٹ کریں گی؟ صرف لیہ میں نہیں پورے پنجاب میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ سرکاری سکول ہوں یا ہسپتال‘ سب نجی شعبے کو دیے جارہے ہیں۔ یہ وہ حکمران ہیں جو آپ کی زندگیاں بدلنے آئے تھے اور کہانیاں سنا کر اپنی تنخواہیں میں کئی گنا اضافہ کرکے کہتے ہیں کہ ہمارا گزارہ نہیں ہوتا۔ آپ کا گزارہ نہیں ہوتا تو 37 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے کا کیسے گزارہ ہو رہا ہے؟ اور جن ہزاروں افراد کو نوکریوں سے نکالا گیا ہے وہ اپنے بچوں کے ساتھ کیسے گزارہ کریں گے؟
اب آپ کو سمجھ آئی کہ یہ سب عوامی درد میں ہمارے حکمران بننے کیوں آتے ہیں؟ ان سب کا اپنا اپنا درد ہے‘ انہیں عوام کا کوئی درد نہیں۔ وہی عوام جو ان کے نعرے مار کر باؤلے ہوئے پھرتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں