"RKC" (space) message & send to 7575

عمر ایوب‘ شبلی فراز سے زرتاج گل تک

سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے بڑے لیڈروں کو دس دس سال کی سزاؤں پر بحث ہو رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے ورکرز اور حامی سخت غصے میں ہیں‘ ناراض ہیں اور ان کا غصہ جائز بھی ہے کہ ان کے لیڈروں کو سزائیں اُن جرائم میں دی گئی ہیں جو انہوں نے کیے ہی نہیں۔ جرم کرنا ایک طرف‘ وہ تو نو مئی کو فیصل آباد میں موجود ہی نہ تھے‘ لہٰذا جو بندہ موقع پر موجود نہ ہواسے دس سال سزا کیسے دی جا سکتی ہے؟ جو موقع پر موجود تھے اور جن پر الزام تھا کہ نو مئی کو انہوں نے دنگا فساد کیا‘ توڑ پھوڑ کی یا آگ لگائی‘ انہیں تین سال سزا اور جو وہاں موجود نہ تھے انہیں دس سال سزا کا تصور لوگوں کو سمجھ نہیں آیا بلکہ اس پر کئی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ خیر جب میں نے وہ پورا فیصلہ پڑھا تو یہ راز بھی کھل گیا کہ پی ٹی آئی کے لیڈروں کو دس سال سزا کیوں دی گئی‘ لیکن پھر بھی اس سزا پر سوال اٹھتے ہیں کہ یہ سزا بہت زیادہ ہے‘ خصوصاً ان لوگوں کیلئے جو اس وقت پارلیمنٹ میں موجود ہیں۔ احمد خان بھچر پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں‘ عمر ایوب رکنِ قومی اسمبلی ہیں‘ شبلی فراز سینیٹ کے رکن ہیں‘ انہیں دس دس سال کی سزا دے کر نااہل کر دیا گیا ہے۔زرتاج گل صاحبہ کو بھی دس سال کی سزا سنائی گئی ہے۔
میں عمر ایوب کو 2002ء سے ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ ایک شاندار‘ مہذب سیاستدان۔ اتنے بڑے بیک گراؤنڈ کے باوجود عمر ایوب ہمیشہ انکساری اور اچھے طریقے سے ملتے ہیں حالانکہ جس بندے کا والد سپیکر قومی اسمبلی اور وزیر خارجہ رہا ہو اور دادا ملک کا فیلڈ مارشل اور صدر رہا ہو اور وہ خود بھی وزیر رہا ہو تو بندے کا دماغ خراب ہونے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ عمر ایوب نے محنت بھی کی‘ میں نے انہیں اسمبلی کے اندر اپنے موضوع پر ہمیشہ مکمل تیار اور اچھی گفتگو کرتے پایا۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے جب سے عمر ایوب کے لہجے میں تلخی اور شدت در آئی ہے تب سے لگ رہا تھا کہ وہ بھی ریاستی تشدد کا نشانہ بننے والے ہیں۔ مگر جب کسی مہذب اور بڑے بیک گراؤنڈ والے بندے کو پکڑنے کیلئے پولیس چھاپے مارے گی‘ بچوں اور ملازمین کو ہراساں کیا جائے گا‘ اس شخص کو پکڑنے اس کے والد کے جنازے پر بھی پولیس پہنچ جائے گی تو پھر بندہ کب تک اپنی تلخی روک سکتا ہے۔ عمر ایوب کے ساتھ یہی کچھ ہوا اور ان کے اندر تلخی بڑھ گئی۔ عمر ایوب اسمبلی کے علاوہ قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں بھی اپنی قابلیت کے جوہر دکھا رہے ہوتے ہیں‘ وہیں وہ حکومتی ارکان سے کبھی کبھار لڑ بھی رہے ہوتے ہیں۔ اب عمر ایوب میں بہت سی تبدیلیاں آ چکی ہیں اور ان تبدیلیوں کی وجہ پچھلے دو برس میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والا سلوک ہے۔
سینیٹر شبلی فراز کو بھی پچھلے چند برسوں میں مَیں نے قریب سے دیکھا ہے۔ سینیٹ سے لے کر قائمہ کمیٹیوں میں ان کی پرفارمنس اچھی رہی ہے۔ وہ ایک ذہین پارلیمنٹرین ہیں اور بڑی تیاری کے ساتھ حکومت اور بیوروکریسی کا اپنی تقریروں میں کمال پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔ ابھی بجٹ کے موقع پر جو خزانہ کمیٹی کے دو تین دن مسلسل اجلاس ہوئے‘ ان میں شبلی فراز نے بہت عمدہ گفتگو کی اور اپنی قابلیت سے متاثر کیا۔ اس سے پہلے انہوں نے شاید 2018-19ء میں پاکستان میں لگائے گئے بجلی گھروں اور پاور سیکٹر پر جو پارلیمانی رپورٹ تیار کرکے ایوان میں پیش کی تھی وہ پڑھنے کے لائق تھی کہ کیسے اس ملک کے ساتھ بجلی گھروں کے نام پر لوٹ مار کی گئی۔ شبلی فراز سے پارلیمنٹ کے باہر کی سیاست پر اختلاف ہو سکتا ہے لیکن وہ ایوان کی حد تک اپنی تنخواہ اور سینیٹر کے عہدے کے ساتھ پورا انصاف کرتے ہیں۔ اسی طرح زرتاج گل صاحبہ جب 2018ء کے الیکشن میں ڈیرہ غازی خان سے جیت کر پارلیمنٹ آئیں تو سب حیران تھے کہ ڈیرہ غازی خان جیسے علاقے سے‘ جہاں سرداروں کا راج رہا ہے‘ ایک خاتون کیسے سرداروں کو ہرا کر اسمبلی پہنچ گئی۔ وہ عابدہ حسین‘ حنا ربانی کھر اور تہمینہ دولتانہ کے بعد شاید پہلی خاتون تھیں جو سرائیکی علاقوں سے ووٹ لے کر اسمبلی پہنچی تھیں۔ زرتاج گل صاحبہ کا کریڈٹ زیادہ بنتا ہے کہ وہ قبائلی علاقوں سے ڈیرہ غازی خان منتقل ہوئی تھیں اور یہیں رچ بس گئیں اور اپنی حیثیت اتنی بنا لی کہ سرداروں کو ہرا دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ شروع میں سیاسی طور پر اتنی میچور نہیں تھیں‘ دوسرا انہیں فوری طور پر وزیر بھی بنا دیا گیا لہٰذا وہ اُس طرح پرفارم نہ کر سکیں۔ جو نئے لوگ آتے ہیں اگر وہ قابل ہوں تو انہیں پارلیمانی سیکرٹری کے عہدے سے شروع کرایا جاتا ہے تاکہ گورننس سیکھ سکیں۔ سیاست اور گورننس سیکھنا ایک طویل عمل ہے‘ خصوصاً جب آپ ووٹ لے کر آتے ہیں تو آپ کا اصل سیاسی سفر پارلیمنٹ کے اندر شروع ہوتا ہے۔ لیکن 2018ء کے بعد پارلیمنٹ کے اندر سیکھنے کا کام بند ہو چکا ہے۔ اب وہاں گالی گلوچ ہوتی ہے‘ ہاتھا پائی ہوتی ہے‘ ایک دوسرے کو تھپڑ مارے جاتے ہیں‘ ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگتے ہیں۔ لیکن اب والی زرتاج گل وہ زرتاج گل نہیں جنہیں میں 2018ء میں پہلی دفعہ پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں ملا تھا۔ ان سات برسوں میں وہ پہلے سے بہت میچور ہو گئی ہیں۔ میں انہیں کمیٹی کے اجلاسوں میں سنتا رہتا ہوں۔ اب ان کی باتوں میں وزن ہوتا ہے۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ وہ اپنی پارٹی کے مرد ایم این ایز سے‘ جو اُن کمیٹیوں کے رکن ہیں‘ بہتر سمجھ بوجھ کے ساتھ گفتگو کرتی ہیں۔ انہوں نے وزارتِ داخلہ کمیٹی کے آخری اجلاس میں بہت زبردست گفتگو کی اور سی ڈی اے چیئرمین محمد علی رندھاوا اور وزارتِ داخلہ کے دیگر اعلیٰ حکام کو اپنی ذہانت بھری گفتگو سے چپ کرا دیا۔ ان کی خامیاں ایک ایک کر کے گنوائیں‘ جن کا اُن کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
اب آپ کہیں گے اس کا ان مقدمات اور سزاؤں سے کیا لینا دینا؟ انہیں سزا پارلیمنٹ کے اندر اچھی کارکردگی کی وجہ سے نہیں ملی بلکہ فیصل آباد میں ہنگاموں کی وجہ سے ملی ۔مگر یہ تو اس دن وہاں موجود ہی نہ تھے۔ فیصلے کے مطابق یہ سب لوگ زمان پارک لاہور اور چکری میں واقع ایک ہوٹل میں اکٹھے ہوئے اور عمران خان کے ساتھ مل کر انہوں نے نو مئی کا منصوبہ بنایا جو بعد میں فیصل آباد اور دیگر شہروں کے کارکنوں اور مقامی لیڈرشپ کو پہنچایا گیا کہ آپ نے عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں عسکری تنصیبات اور دفاتر پر حملے کرنے ہیں۔ اس کیس میں بہت سے جھول ہیں۔ پولیس کی وہی پرانی کارروائی ڈالی گئی ہے جو وہ حکمرانوں کے مخالفیں کے خلاف ڈالتی آئی ہے‘ لیکن حکومتی حلقے ماننے کو تیار نہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب اداروں پر حملوں میں ملوث ہیں اور نوجوان نسل کو انہوں نے تباہ کر دیا ہے۔ اس ملک کی سیاست میں پہلی دفعہ خان نے تشدد کو فروغ دیا اور بڑے بڑے خاندانوں کے افراد بھی اس کے رنگ میں رنگ کر سیاست اور تشدد میں فرق نہ کرسکے۔ اب پی ٹی آئی اور اس کے درجنوں لیڈروں‘سینکڑوں ورکرز کو دس دس سال سے لے کر تین سال تک سزا دلوانے میں کس کا ہاتھ ہے۔ کون قصور وار ہے؟ آپ چاہیں تو مقتدرہ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا دیں کہ خان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور ان کے حقِ حکمرانی پر ڈاکا مارا گیا ہے یا پھر آپ عمران خان کو منیر نیازی کی پنجابی نظم سنا دیں کہ کُج شہر دے لوک وی ظالم سَن‘ کُج سانوں مرن دا شوق وی سی۔ یا پھر اویس نورانی صاحب جو احمد شاہ نورانی صاحب کے فرزند ہیں‘ کا یہ ٹویٹ پڑھ لیں کہ عمران خان نے جیل میں بیٹھ کر لمبی گیم کھیلی اور پوری پارٹی کو جیل ہی بلوا لیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں