جب سوموار کے روز قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان احتجاج کرتے ہوئے اجلاس کے ایجنڈے اور وقفۂ سوالات میں کیے گئے سوالات کی درجنوں کاپیوں کو پھاڑ رہے تھے تو یاد آیا کہ یہ احتجاج کم از کم میں نے پہلی دفعہ 23سال قبل اسی پریس گیلری میں دیکھا تھا اور بہت حیران ہوا تھا۔ میرے لیے یہ اُس وقت بھی حیران کن بات تھی اور 23سال بعد بھی‘ کہ ان دستاویزات یا کاپیوں کو پھاڑنا کس کلچر اور احتجاج کا حصہ ہے اور اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ 23سال قبل جنرل پرویز مشرف کا دور تھا‘ جب پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے ارکان یہ کام کرتے تھے‘ جو اَب پی ٹی آئی کے ارکان کر رہے تھے۔ مجال ہے ان 23برسوں میں کاپیاں پھاڑنے کا یہ سلسلہ کبھی رکا ہو۔ ہر اسمبلی میں کسی نہ کسی دن ہزاروں نہیں تو سینکڑوں صفحات پھاڑ کر ہوا میں اڑائے جاتے ہیں اور نعرے بازی کے بعد ارکان ایوان سے واک آئوٹ کر جاتے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد قومی اسمبلی سپیکر ڈائس کے آگے ان دستاویزات کے ٹکڑے ہر طرف پھیلے ہوتے ہیں اور مزے کی بات ہے کہ ان کاغذوں کے ٹکڑوں پر انہی ایم این ایز کے نام لکھے ہوتے ہیں۔ یہ کاغذات اس دن کے ایجنڈے کے حوالے سے ہوتے ہیں یا پھر وقفۂ سوالات میں جو سوالات پوچھے جاتے ہیں‘ ان کا جواب اس دن ہائوس میں پیش کیا جاتا ہے۔ اراکین اپنے ناموں کو خود ہی اپنے پیروں تلے کچل رہے ہوتے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد وہاں پھیلائے گئے گند کو صاف کرنے کیلئے ہائوس کے ملازمین‘ جنہوں نے جناح کیپ پہنی ہوتی ہے‘ فرش پر سے ایک ایک کاغذ کے ٹکڑے کو اکٹھا کر رہے ہوتے ہیں۔
ان ایم این ایز کا خیال ہوتا ہے کہ وہ بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں۔ میں نے پارلیمنٹ کی رپورٹنگ 2002ء میں شروع کی تھی اور تب سے مسلسل یہ مناظر دیکھنے کو ملتے رہے ہیں۔ اب تو لگتا ہے کہ پورا ایوان اور میڈیا اور عوام بھی اس بات کے عادی ہو گئے ہیں کہ ان لوگوں نے دستاویزات کو پھاڑنا ہے اور پھاڑ کر باہر نکل جانا ہے۔ پیچھے جناح کیپ پہنے صفائی والا عملہ وہ کاغذ چنتا رہے گا اور اجلاس بھی جاری رہے گا۔ شاید یہ کام 2002ء سے بھی بہت پہلے سے اسمبلی میں ہوتا آ رہا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی پارٹیوں کی حکومتوں میں اس سے زیادہ خوفناک مناظر دیکھنے کو ملتے تھے۔ ایوان میں وہ مہا بھارت لڑی گئی جو آج پی ٹی آئی اور حکمران جماعت کے مابین جاری ہے۔ ان پارٹیوں کی طرف سے ایک دوسرے کو گالی گلوچ کی گئی۔ وہ جسمانی طور پر بھی ایک دوسرے پر حملے کرتے تھے۔ یہ گالی گلوچ‘ لڑائی اور مار کٹائی کا سلسلہ دہائیوں سے چلا آ رہا ہے۔ اگر یاد ہو تو مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کو ہنگامے کے دوران مار ہی ڈالا گیا تھا۔ یہ کام دنیا کی دیگر پارلیمانوں میں بھی ہوتا ہے کہ وہاں بھی ارکان یا اپوزیشن ہنگامے کرتے ہیں اور اسے جمہوریت کا حسن سمجھا جاتا ہے۔ شاید جمہوریت کے آغاز کے پیچھے ایک وجہ یہ ہو کہ ہر معاشرے میں مختلف اقسام اور مختلف فکر کے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ سڑکوں پر ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے جھگڑنے کے بجائے اپنے اپنے نمائندے پارلیمنٹ بھیج دیں تاکہ وہ سب ان کی سوچ یا مفادات کا تحفظ کریں اور لڑیں۔ اس لیے میں سمجھتاہوں کہ تیسری دنیا کے ممالک کی پارلیمنٹ میں لڑائی جھگڑے یا پھڈے ہونا جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ لیکن بہت سے لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ دنگا فساد یا جھگڑا کس حد تک جائز ہے اور کہاں سے یہ ملک اور معاشرے کو نقصان دینا شروع کر دیتا ہے۔
مجھے یاد ہے 2004ء میں ہم صحافیوں کا ایک گروپ نئی دہلی گیا تھا تو میزبان ہمیں انڈین پارلیمنٹ کا اجلاس دکھانے بھی لے گئے۔ وہاں اس وقت لوک سبھا میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے مابین پھڈا چل رہا تھا اور بہت شور شرابا تھا۔ سپیکر نے کئی دفعہ کوشش کی کہ شور شرابہ اور ہنگامہ رک جائے اور ہائوس میں آرڈر قائم ہو جائے مگر جب کافی دیر تک شور شرابہ نہ رکا تو سپیکر صاحب اچانک اپنی کرسی پر کھڑے ہو گئے اور اپنے ہاتھ میں پکڑے عصا کو فرش پر دو تین دفعہ زور سے مارا‘ جس کے بعد پورے ہائوس میں خاموشی چھا گئی اور سب ارکان‘ جو کچھ دیر پہلے سنبھالے نہیں سنبھل رہے تھے‘ یکدم خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔ میں نے حیران ہو کر ایک بھارتی صحافی سے پوچھا‘ جو وہاں پارلیمنٹ کی کوریج کیلئے موجود تھا‘ کہ یہ کیا ہوا ہے۔ اس نے بتایا کہ یہ بھارتی پارلیمنٹ کی روایت ہے کہ اگر ہائوس میں زیادہ شور شرابہ یا ہنگامہ ہو جائے اور لوک سبھا کے سپیکر کو لگے کہ بات اب بڑھ گئی ہے اور ہائوس کے اندر حالات بہت خراب ہوگئے ہیں تو پھر سپیکر اپنی چیئر پر کھڑا ہو کر فرش پر زور سے ڈنڈا مارتا ہے۔ اس طرح پورے ہائوس کیلئے لازم ہو جاتا ہے کہ اب وہ خاموش ہو جائے‘ یہ سپیکر چیئر کا احترام ہے۔ میں اس کلچر یا جمہوری روایت سے بہت متاثر ہوا کہ اگر بات بہت بڑھ گئی ہے تو سپیکر جب کھڑا ہوگا تو پھر سب ممبران کو بیٹھنا ہوگا۔ لیکن ہمارے ہاں کبھی سپیکر کی کرسی کو وہ عزت نہ مل سکی کہ سب ارکان اس کی بات مانتے اور ہائوس کو آرڈر میں چلاتے۔
اُس دن ایک بڑی عجیب بات ہوئی۔ سابق سپیکر اسد قیصر نے سپیکر ایاز صادق سے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کی اجازت چاہی اور اپنی سیٹ پر کھڑے ہوگئے لیکن سپیکر نے انکار کر دیا کہ نقطۂ اعتراض پر بعد میں بات ہوگی‘ پہلے وقفۂ سوالات ختم ہو جائے۔ اس پر اسد قیصر نے کہا کہ نہیں‘ مجھے ابھی بات کرنی ہے۔ اس پر سپیکر ایاز صادق نے ایک اچھی بات کہی کہ آپ خود یہاں ساڑھے تین سال سپیکر رہے ہیں‘ آپ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے کہ جب وقفۂ سوالات چل رہا ہو تو اس وقت پوائنٹ آف آرڈر پر ممبران کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اگر اجازت دی گئی تو پھر حکومتی ارکان بھی جواب دینا شروع ہو جائیں گے اور یوں ہال میں دوبارہ ہنگامہ شروع ہو جائے گا اور ایجنڈا پیچھے رہ جائے گا۔ لیکن اسد قیصر اپنی ضد پر قائم رہے اور کچھ دیر بعد سب ارکان نے مل کر ہنگامہ شروع کر دیا۔ اپنی نشستوں پر موجود وقفۂ سوالات کی بھاری بھرکم اردو اور انگریزی کی کاپیاں پھاڑیں‘ انہیں وہیں ہوا میں اڑایا اور نعرے بازی کرنے کے بعد ہال سے باہر نکل گئے۔ ان کاپیوں کو جنہیں پھاڑا گیا‘ ان پر کافی پیسہ لگتا ہے۔ اندازہ کریں کہ اس ہائوس میں روزانہ تقریباً ایک ہزار کاپیاں اردو اور انگریزی میں چھاپی جاتی ہیں جو میڈیا اور ارکانِ پارلیمنٹ میں بانٹی جاتی ہیں تاکہ ارکان یہ پڑھ کر وزیروں سے سوال اور ان کا احتساب کر سکیں۔ لیکن اپنے سوالات کے ذریعے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے بجائے اپوزیشن والے سب دستاویزات پھاڑنے کے بعد انہیں ہوا میں اچھال کر نعرے لگاتے ہوئے فخریہ انداز سے ایوان سے باہر نکل جاتے ہیں۔ ڈیڑھ سال سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ لگ بھگ ایک ہزار کاپیوں کے ہزاروں صفحات کو عوام سے وصول کیے گئے ٹیکسوں کے پیسوں سے روزانہ چھاپا جاتا ہے‘ کیا ان کا یہی استعمال رہ گیا ہے؟ آپ ضرور احتجاج کریں لیکن یہ کون سا طریقہ ہے کہ لاکھوں روپوں سے تیار ہونے والی دستاویزات‘ جن پر آپ کے نام کے ساتھ سوالات اور ان کے جوابات لکھے ہوتے ہیں‘ وہ پھاڑ کر پورے ہال میں پھیلا دیں جسے بعد میں جناح کیپ پہنے اسمبلی کا سٹاف فرش سے چن رہا ہوتا ہے۔
ویسے کسی دن یہ دوست احتجاج کے نام پر اپنی سات لاکھ تنخواہ کے چیک لا کر بھی اسی ہال میں پھاڑ کر انہیں ہوا میں اچھال دیں اور پھر نعرے مارتے باہر نکل جائیں تاکہ پتا چلے کہ وہ عمران خان کی رہائی کیلئے احتجاج میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ کیا خیال ہے کہ پھر کب یہ اپنی تنخواہوں اور الائونسز کے چیک پھاڑیں گے؟