بونیر سمیت خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں بارشوں اور سیلاب سے جو تباہی ہوئی ہے‘ اس نے پورے ملک کو افسردہ کر دیا ہے۔ پوری قوم کو جشن آزادی منانے کے بعد‘ اگلی صبح دل دہلادینے والی خبریں پڑھنے‘ سننے اور دیکھنے کو ملیں کہ خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر اور دیگر علاقوں میں کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے خوفناک بارش اور لینڈ سلائیڈنگ ہوئی‘ جو سیلاب کی صورت اختیار کر کے گاؤں کے گاؤں اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔ حالیہ بارشوں‘ لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب کی وجہ سے خیبرپختونخوامیں تین سوسے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جانی نقصان کا سُن کر بہت افسوس ہوا۔ یہ کلاؤڈ برسٹ رات کے وقت ہوا‘ جب لوگ سو رہے تھے۔ ان کے سنبھلنے سے پہلے ہی پانی کا ریلا انہیں بہا لے گیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ جانی نقصان اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے کیونکہ ابھی پتھروں کے نیچے سے جاں بحق افراد کو نکالنے کا کام جاری ہے‘ جوں جوں پتھر ہٹتے جائیں گے‘ جاں بحق افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب صرف کلاؤڈ برسٹ کا کیا دھرا ہے کہ اس صورت میں تو عوام‘ حکومت یا ریاستی ادارے سبھی بے بس ہیں یا ہم نے خود اپنی بربادی کا بندوبست کیا ہے؟ قدرت کا اپنا ایک نظام ہے جس سے انسان لڑ نہیں سکتا۔ قدرت اپنا کام پورا کرتی ہے۔ اس جواز میں کافی وزن ہے کہ یہ قدرت کا کھیل ہے اور ہم اس میں بے بس ہیں لیکن کیا اس سانحے کو صرف اللہ کی مرضی کہہ کر سب کچھ بھول جانا چاہیے اور کسی نئے سانحے کا انتظار کرنا چاہیے؟ صورتحال پر ذرا غور کریں تو ہمیں احساس ہو گا کہ قدرت کے اصولوں کے علاوہ ہم انسانوں نے بھی ان حادثات میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اگرچہ یہ موقع ان باتوں کا نہیں ہے کہ اپنی غلطیاں گنوائی جائیں جبکہ بتایا جا رہا ہے کہ اب بھی کئی لوگ اور گھر پتھروں کے نیچے دبے ہوئے ہیں‘ جو بارش کا پانی سیلاب کی شکل میں اپنے ساتھ لایا اور گھروں کو تباہ کرکے نکل گیا۔ لیکن اگر آج اس موضوع پر بات نہیں کی جائے گی اور دو چار روز بعد جب زندگی کچھ نارمل ہو جائے گی تو لوگ اس موضوع پر لکھے کالم کو بورنگ قرار دے کر آگے گزر جائیں گے۔ لوگوں کو اب چسکا لگ چکا ہے کہ صرف سیاست کی بات کی جائے اور ان کی پسندیدہ لٹیروں کو ہیرو‘ مہاتما‘ ایشین ٹائیگر‘ مرد حُر یا نیلسن منڈیلا بنا کر پیش کیا جائے۔ اس سے کم پر لوگ کالم پڑھنے کو تیار نہیں ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جیسے عوام کو اس قسم کے سنجیدہ موضوعات میں کوئی دلچسپی نہیں اسی طرح سیاستدانوں اور بیوروکریسی کو بھی کوئی شوق نہیں ہے۔ اگر کالم نگار یا سماجی ورکرز ان مسائل پر لکھیں اور بولیں تو بھی کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ انہی صفحات پر خالد مسعود خان اور محمد اظہار الحق صاحب نے اَن گنت کالم سماجی موضوعات پر لکھے‘ تو اس سے کیا فرق پڑا؟ لیکن ہمیں بغیر مایوس ہوئے ان مسائل پر لکھتے رہنا چاہیے چاہے‘ یہ الگ بات کہ عوام یا حکمرانوں پرکوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں۔ خالد مسعود خان نے ملتان پر کتنا لکھا‘ لیکن ملتان پہلے سے زیادہ خراب ہوا ہے‘ محمد اظہارالحق نے اسلام آباد اور راولپنڈی پر کتنے نوحے پڑھے پھر بھی وہی کام جاری ہے۔ مان لیا لکھاری ان باتوں سے حوصلہ چھوڑ دیتا ہے کہ اگر عوام اور حکمران اس میں خوش ہیں کہ شہر برباد ہوں‘ بستیاں اجڑ جائیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ پھر ہم یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لیتے ہیں کہ ہمارا کام صرف اذان دینا ہے نہ کہ نمازیوں کو پکڑ کر نماز بھی پڑھانی ہے۔
میں آج جس موضوع پر کالم لکھ رہا ہوں یقین کریں کہ اس پر کئی دفعہ انہی لوگوں سے گالیاں کھائی ہیں جن کے مفاد میں لکھا تھا۔ وڈیوز شیئر کیں تو بھی گالیاں حصے میں آئیں کہ ہمیں کیوں کہا کہ خدا کا خوف کریں اور خود بربادی کو دعوت نہ دیں۔ چند مہربانوں نے سراہا بھی لیکن اکثریت نے مذاق اڑایا اور کہا کہ تم اسلام آباد چھوڑ کر واپس اپنے گاؤں چلے جاؤ۔ آپ اگر موٹر سائیکل والوں کے ٹریفک سگنل توڑنے اور حادثات کا سبب بننے پر بات کریں تو بھی سب کہیں گے کہ اس میں کیا برائی ہے‘ تم ہی شہر چھوڑ دو۔ اگر آپ درخت کاٹنے کے خلاف پروگرام کریں تو بھی لوگ آپ کا مذاق اڑائیں گے کہ یہ بھی کوئی موضوع ہے جس پر ٹی وی شو کیا جا رہا ہے یا کالم لکھا جا رہا ہے یا سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی جا رہی ہے۔ اگر جان کی امان پاؤں تو ایسی باتیں زیادہ تر ہمارے خیبر پختونخوا کے بھائیوں کی طرف سے سننے کو ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب میرے جیسے کچھ لوگ خیبر پختونخوا میں درختوں کی بے رحمانہ کٹائی اور ٹمبر مافیا کے خلاف لکھتے‘ بولتے یا کوئی وڈیو شیئر کرتے ہیں تو اکثریت کا ردِعمل منفی ہوتا ہے۔ اکثر جواب دیتے ہیں کہ لکڑی بیچنا ان کی روزی روٹی ہے‘ لہٰذا جنگل کے جنگل اجاڑ دیے گئے ہیں۔ وہ جنگل اور درخت جو بارش‘ سیلاب‘ لینڈ سلائیڈنگ اور کلاؤڈ برسٹ سے آنے والے خطرات کے خلاف پہلی ڈیفنس لائن ہیں ‘جنہیں وہ خود اکھاڑ دیتے ہیں۔ جیسے اگلے روز قومی اسمبلی میں بتایا گیا کہ سندھ کے بعض علاقوں میں لوگ ریلوے پٹری اکھاڑ کر لے جاتے ہیں اور بیچتے ہیں۔ اب وہ بھی کہیں گے کہ یہ ہماری روزی روٹی ہے۔ ان علاقوں میں درختوں کی جس پیمانے پر کٹائی ہوئی ہے‘ بتایا جا رہا ہے اس سے ان علاقوں کا درجہ حرارت اوپر چلا گیا ہے جو کلاؤڈ برسٹ اور گلیشیرز پگھلنے جیسے واقعات کا سبب بن رہا ہے۔ یہ کلاؤڈ برسٹ جس مخصوص علاقے میں ہوتا ہے وہاں تباہی مچا دیتا ہے۔ جیسے ہم انگریزی فلموں میں دیکھتے ہیں کہ آسمان سے کوئی بلائیں اتر کر شہر کو اپنے حصار میں لے لیتی ہیں اور ہر طرف تاریکی چھا جاتی ہے اور خوفناک پانی سونامی کی شکل میں شہروں میں بڑی بڑی عمارتوں کو گراتا‘ تباہی مچاتا چلا جاتا ہے۔ کلاؤڈ برسٹ بھی ایسے ہی خوفناک بادلوں کی شکل میں کسی مخصوص علاقے کے اوپربرستا ہے اور ہر طرف پانی پانی ہو جاتا ہے۔ جب پہاڑوں کے اوپر بارش برستی ہے تو وہ سیلاب بن کر پتھر اپنے ساتھ لے کر قریبی آبادیوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ اگر ان پہاڑوں پر درخت ہوں گے تو جہاں وہ درجہ حرارت کو اوپر نہیں جانیں دیں گے وہیں پتھروں کو روکیں گے۔ لیکن جب سارے درخت ہی آپ نے خود کاٹ ڈالے ہیں کہ یہ ہماری روزی روٹی ہے تو پھر کسی سے کیا گلہ کریں۔
قدرت اور انسان کی لڑائی بہت پرانی ہے۔ کبھی قدرت تو کبھی انسان جیتا یا ہارا۔ اس وقت سوات سمیت دیگر شمالی علاقوں میں سیاحت بڑھنے سے اب دریاؤں اور ندی نالوں کے اوپر یا ان کے اندر دکانیں یا ہوٹل بنا لیے گئے ہیں تاکہ زیادہ کمائی ہو سکے۔ سوات میں جس طرح ہوٹلوں کی غیرقانونی منظوریاں دی گئیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ بڑے بڑے سیاستدان‘ بیوروکریٹس اور ٹھیکیدار مل کر یہ خطرناک کھیل کھیلتے آئے ہیں اور اب تک کھیل رہے ہیں‘ جس میں عام لوگوں کی جانیں جاتی ہیں۔ اگرچہ اس تباہی پر دل دکھ سے بھرا ہوا ہے لیکن منیر نیازی کی یہ نظم بھی یاد آ رہی ہے کہ کُجھ شہر دے لوک وی ظالم سن‘ کُجھ سانوں مرن دا شوق وی سی۔
آپ پوچھیں گے کہ کالم کے عنوان میں اسلام آباد کا کیا تُک بنتا ہے۔ جو کام خیبرپختونخوا میں برسوں سے ہو رہا تھا‘ وہ اب اسلام آباد میں بھی شروع ہو چکا ہے۔ یہاں بھی مارگلہ پہاڑوں پر سینکڑوں گھر بن چکے ہیں‘ ہر طرف درختوں کی اندھا دھند کٹائی اور تباہی ہورہی ہے۔ یہاں کا درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے اور خدانخواستہ کسی دن کلاؤڈ برسٹ کی خبریں یہاں سے بھی سننے کو ملیں گی۔ اسے قدرت کا انتقام سمجھیں یا اپنی حماقت کہ سب کچھ تباہ کر رہے ہیں۔ جن درختوں نے ہمیں بچانا ہے انہیں ہی اندھا دھند کاٹ رہے ہیں۔