دنیا گروپ کے چیئرمین میاں عامر محمود کا نئے صوبوں کے حوالے سے ریسرچ پیپر پڑھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ میں نے نئے صوبوں کی گفتگو پہلی دفعہ 1980ء کی دہائی میں بہاولپور میں سُنی تھی جہاں میں اپنے بھائی ڈاکٹر نعیم کلاسرا کے پاس رہنے جاتا تھا۔ نعیم بھائی کے پاس تونسہ‘ ڈیرہ غازی خان‘ ملتان‘ لیہ اور بہاولپور سے ہر طرح کے یار دوست آتے تھے جو نئے سرائیکی صوبے کی بات کرتے۔ بہاولپور ریاست بحالی کی گفتگو بھی سننے کو ملتی تھی کہ اسے وَن یونٹ ختم ہونے کے بعد بحال نہیں کیا گیا۔
جب 1993ء میں ملتان میں فرنٹیئر پوسٹ کے بیورو آفس میں ٹرینی رپورٹر کے طور پر کام کرنے لگا تو وہاں سرائیکی قوم پرست بیوروچیف مظہر عارف کے پاس آتے تھے۔ وہ وسیب کی محرومیوں کے بارے جو گفتگو کرتے اسے سن کر احساس ہوا کہ ہمارے علاقے کی پسماندگی کی وجہ وہ وسائل ہیں جو ان علاقوں پر لگنے کے بجائے چند دیگر شہروں پر لگ رہے ہیں۔ جہاں نئے صوبے کی آواز بلند ہوتی گئی تو وہیں اس کے مخالفین بھی ابھرے۔ اس وقت نئے صوبے کی بات کرنا ایک جرم سمجھا جاتا تھا۔ کالجوں کے پروفیسرز کو سزا کے طور پر دور دراز علاقوں میں بھیج دیا جاتا کہ وہ نئے صوبے کی بات کر کے ملکی سلامتی کے خلاف کام کر رہے تھے۔ بعض قوم پرست جماعتوں اور ان کے ورکرز پر بھارتی ایجنٹ کے لیبل بھی لگے۔ خفیہ ایجنسیاں بھی انہیں تنگ کرنا شروع ہو گئیں۔ اس کے باوجود یہ تحریک چلتی رہی اور اس وقت عروج پر پہنچی جب سرائیکی کے بڑے شاعر عاشق بزدار نے شہکار نظم لکھی ''اساں باغی تخت لاہور دے‘‘۔ یہ نظم ہی تحریک کی بنیاد بنی اور نوجوان نسل اس سے متاثر ہوئی۔ لیکن کچھ جذباتی سرائیکی قوم پرستوں نے اس تحریک کو غلط رنگ دیا اور وہاں رہنے والی پنجابی اور دیگر آبادکار قوموں کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ اس منفی حرکت کا یہ نقصان ہوا کہ وہ پنجابی اور اُردو سپیکنگ‘ جو نیا صوبہ چاہتے تھے کیونکہ وہ بھی اس علاقے کی پسماندگی کو بھگت رہے تھے‘ ڈر گئے۔ انہیں لگا کہ 1947ء کے بعد ایک اور ہجرت کرنا پڑے گی اور یوں وہ نئے صوبے کے مخالف ہو گئے اور پورا وسیب تقسیم ہوا۔
ہمارے لیہ کے مرحوم دوست رانا اعجاز محمود کی اکثر اپنے والد صاحب سے بحث رہتی تھی۔ رانا اعجاز نئے صوبے کا حامی تھا جبکہ ان کے راجپوت والد ہندوستان سے آگ کا دریا عبور کر کے آئے تھے اور اس خونی سفر میں وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھ چکے تھے لہٰذا وہ ابھی اس ٹراما سے نہیں سنبھلے تھے کہ انہیں لگا اب ایک اور آگ کا سمندر تیار ہو رہا ہے۔ رانا اعجاز انہیں سمجھاتا رہتا کہ ملک تقسیم نہیں ہو رہا‘ نہ ہجرت ہو رہی ہے‘ نہ کوئی خون خرابہ۔ اگر صوبہ بنا تو جو این ایف سی کا فنڈ ملے گا وہ ہمارے اپنے علاقوں میں خرچ ہو گا تو اس سے ہم سب کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ سڑک بنے‘ سکول بنے‘ کالج یا یونیورسٹی۔ سب نے سفر کرنا ہے‘ سب نے پڑھنا ہے۔ باپ بیٹا ساتھ ساتھ قبروں میں جا سوئے لیکن ایک دوسرے کو تاحیات قائل نہ کر سکے۔ میں ہر ماہ رانا اعجاز سے ملنے ان کے گھر جاتا تھا اور وہاں رانا اعجاز کے والد‘ جو مجھ سے پیار کرتے تھے‘ کہتے: ہاں بھئی کلاسرے کتھے تک پہنا اے تہاڈا صوبہ؟ رانا اعجاز مجھے آنکھ مار کر انہیں جواب دیتا: ابو جی بس کہج دناں دی گل اے۔ بڑے رانا صاحب پھر تپ جاتے اور خوب سناتے اور پھر راجپوتوں کے گھر میں پکے زبردست دال چاول کھائے جاتے۔ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دال چاول وہیں کھائے اور پھر ہمیشہ دال چاول کھانے ہی ان کے گھر گیا۔
خیر یہ ساری باتیں مجھے میاں عامر محمود صاحب کا ریسرچ پیپر پڑھتے ہوئے یاد آ گئیں۔ جتنی عرق ریزی کے ساتھ اس ریسرچ پیپر کو تیار کیا گیا ہے اس نے مجھے خوشگوار حیرت میں مبتلا کیا ہے۔ جیسے میں نے کہا‘ میں ان صوبوں کی بحث سے تیس سال سے زائد عرصے سے واقف ہوں۔ واقف کیا بلکہ اس کا حصہ رہا ہوں۔ اس پر لکھا اور بولا بھی ہے لیکن جو حقائق اس ریسرچ پیپر میں دیے گئے ہیں وہ میرے لیے بھی نئے ہیں۔ اگرچہ میں نے اسے انگریزی میں پڑھا ہے‘ میرا خیال ہے اسے اردو میں کتابچہ بنا کر چھاپنا چاہیے تاکہ عام بندے تک پہنچ سکے۔
ایک مزے کی بات بتاؤں‘ ہوسکتا ہے بہت سے پڑھنے والوں کو لگے گا کہ کیونکہ نئے صوبوں کی بحث شروع ہو گئی ہے لہٰذا دنیا گروپ کے چیئرمین یا کالم نگار اس مسئلے کو زیادہ اٹھا رہے ہیں۔ اس سوچ کا آنا بھی فطری ہے لیکن ایک حقیقت بتانے دیں کہ میں دنیا گروپ میں 2011ء سے کام کررہا ہوں۔ پہلے ٹی وی شو کرتا رہا اور اب 14برس سے مسلسل کالم لکھ رہا ہوں۔ ان برسوں میں میاں عامر محمود صاحب سے میری اَن گنت ملاقاتیں ہوئیں۔ کچھ ملاقاتیں آفیشل اور زیادہ نان آفیشل تھیں۔ وہ جب بھی اسلام آباد آتے ہیں شہر بھر کے اہم لوگوں‘ اینکرز اور صحافیوں کو اپنے فارم ہاؤس پر بلا کر ہر دفعہ محفل ضرور سجاتے ہیں۔ میجر عامر جیسے اہم اور سمجھدار لوگ اس میں شریک ہوتے ہیں اور رات گئے تک محفلیں جمتی ہیں۔ میاں عامر محمود ایک اعلیٰ پائے کے میزبان ہیں۔ ان محفلوں میں ہر قسمی موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے اور کھل کر ہوتی ہے۔ میاں عامر بڑے دھیان اور احترام کے ساتھ ہر بندے کی باتیں اور تبصرے سنتے ہیں اور کبھی کبھار اپنا نکتہ نظر بھی بڑے دھیمے اور احترام کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ کسی کو احساس نہیں ہونے دیتے کہ اس کی رائے ٹھیک نہیں تھی۔ مجھے ان برسوں میں ان محفلوں میں شریک ہونے کا موقع ملا ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میاں عامر محمود صاحب نے کبھی نئے صوبوں کے موضوع پر گفتگو نہ کی ہو۔ وہ ضرور اس ایشو پر بات کرتے رہے ہیں اور دلائل کا انبار لگا دیتے ہیں جیسا کہ ان کے ریسرچ پیپر سے واضح ہے کہ کتنی محنت کی گئی ہے۔ آپ جب اس کے آخر تک پہنچتے ہیں تو آپ قائل ہو چکے ہوتے ہیں کہ اس ملک کی گورننس بہتر کرنے کا سب سے بہتر حل نئے صوبوں ہی میں ہے۔
میں سوچتا رہا کہ پنجاب میں جب بھی نئے صوبوں کی بات کی جاتی تھی تو اکثر لوگ بھڑک اٹھتے تھے۔ اس طرح بلوچستان اور سندھ یا خیبرپختونخوا میں بھی نئے صوبوں کی بات کرنا گستاخی سے کم نہیں سمجھا جاتا بلکہ وہاں کی اکثریتی قومیں لڑنے مرنے پر تل جاتی ہیں۔ تو پھر میاں عامر محمود ایک کامیاب بزنس مین ہو کر بھی برسوں سے اس حساس مسئلے کو ڈسکس کرنے اور اس پر بحث کرنے سے کیوں نہیں گھبراتے؟ بزنس مین اکثر ایسے متنازع ایشوز میں نہیں پڑتے۔ پھر میاں عامر محمود کیوں اس ایشو کے بارے میں نہ صرف خود قائل ہیں بلکہ انہوں نے دوسروں کو بھی قائل کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے؟ مجھے ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ جب وہ مشرف دور میں لاہور جیسے اہم شہر کے ضلع ناظم بنے تو انہیں احساس ہوا ہو گا کہ اس ملک کی بہتری اور ترقی نظام کو نچلی سطح تک لانے میں ہے۔ اُس دور نے میاں عامر محمود کی ذہن سازی کی اور اس دن سے وہ نچلے لیول پر مالی اور انتظامی معاملات لانے کے پُرجوش حامی بن کر ابھرے اور کوئی دن نہیں جاتا جب وہ ہر ایک سے اس ایشو پر بات نہیں کرتے۔ مجھے پہلے کا علم نہیں ہے لیکن 2011ء کے بعد ان سے ہونے والی ملاقاتوں کا میں عینی شاہد ہوں کہ وہ نئے صوبوں کی بات ہمیشہ کرتے آئے ہیں۔لگتا ہے برسوں سے وہ جس سوچ پر کام کر رہے تھے وہ اب پھل دینے لگی ہے اور اب بڑے بڑے ایوانوں اور اہم جگہوں پر نئے صوبوں کی بحث شروع ہو چکی ہے۔ جو باتیں 1980ء کی دہائی میں ناممکن لگتی تھیں اب ممکن لگ رہی ہیں کہ نئے صوبوں کو میاں عامر محمود جیسے تگڑے وکیل مل گئے ہیں جو جذبات نہیں دلیل سے قائل کرتے ہیں۔ آپ میاں عامر محمود صاحب کے اس ریسرچ پیپر یا دلائل سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن آپ انہیں نظر انداز نہیں کر سکتے۔