لندن دو برس بعد آنا ہوا ہے۔ 2023 ء میں آیا تھا تو امیگریشن افسر نے حیران ہو کر پوچھا کہ آپ کے پاس ویزہ تھا لیکن آپ طویل عرصہ بعد آئے ہیں۔ (اس سے پہلے 2016 ء میں آیا تھا)۔ اب بھی امیگریشن والے افسر نے کہا‘ دو سال بعد؟ شاید اس کا مطلب تھا کہ لندن کا ویزہ ہونے کے باوجود بھی دو سال بعد کیوں؟
خیر جب سے لندن آیا ہوں زیادہ تر وقت صفدر عباس ترمذی کے ساتھ گھر پر ہی گزرا ہے یا پھر لندن کی شاموں میں بک سٹورز پر نئی نئی شاندار کتابیں تلاش کرتے۔ پھر لندن کا موسم آج کل کچھ ٹھنڈا ہورہا ہے لہٰذا صفدر بھائی کے ساتھ طویل واک کرنے کا بھی اپنا مزہ ہے۔ لندن آکر ریلیکس ہونے سے زیادہ میں ڈپریس اور اداس ہوا ہوں۔ شاید اب لندن آنے سے وہ خوشی نہیں ہوتی جو ہونی چاہیے تھی۔ کبھی لندن بھی اسلام آباد کی طرح اپنا لگتا تھا۔ جب 2006 ء میں پہلی دفعہ یہاں آیا تھا تو اس وقت کی دنیا ہی کچھ اور تھی۔ مجھے دی نیوز نے اسلام آباد سے رپورٹنگ کیلئے لندن ٹرانسفر کر دیا تھا۔ اُس وقت بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے رحمن ملک کے ایجوائے روڈ پر واقع فلیٹ میں نیا نیا چارٹر آف ڈیموکریسی سائن کیا تھا۔ اس چارٹر کی وجہ سے لندن سے اسلام آباد تک بڑا جوش و جذبہ پایا جاتا تھا اور سیاسی سرگرمیاں بڑھ گئی تھیں۔ اس وجہ سے اسلام آباد سے ہمارے محترم استاد ضیا الدین صاحب‘ جو ڈان اخبار کے بیورو چیف تھے‘ کو بھی لندن رپورٹنگ کیلئے بھیجا گیا۔ ساتھ میں ڈان ٹی وی نے ارشد شریف کوبھی بھیجا۔ یوں لندن میں ہروقت گہماگہمی رہتی تھی۔ ارشد اور میرا پرانا تعلق تھا بلکہ ارشد کچھ عرصہ میرے ساتھ بھی رہا اور ہم دونوں نے اکٹھے لندن میں رپورٹنگ کی۔ تقریبا ًروزانہ ہمارا آکسفورڈ سٹریٹ جانا ہوتا تھا جہاں ڈیوک سٹریٹ میں نواز شریف کا دفتر تھا‘ جہاں جدہ سے لندن آنے کے بعد وہ گیارہ بجے کے بعد روز آتے اور پاکستان سے آئے اپنی جماعت کے رہنمائوں سے ملتے تھے جبکہ بینظیر بھٹو کبھی کبھار دبئی سے لندن آتی تھیں تو رحمن ملک کے فلیٹ پر رونق بڑھ جاتی تھی۔
میرا اور ارشد شریف کا زیادہ وقت پرویز رشید کے ساتھ گزرتا تھا۔ پرویز رشید خود سیاسی ورکر رہے ہیں لہٰذا ان کی پاکستانی سیاست پر بہت گرفت تھی اور ہم دونوں نے ان سے سیاست اور سیاستدانوں کے بارے بہت کچھ جانا اور سمجھا۔ لندن کی سڑکوں پر ارشد شریف‘ پرویز رشید اور میں میلوں پیدل چلے اور سیاسی گپیں ماریں۔ پھر ہمارے دوست سینیٹر انور بیگ بھی اکثر لندن آتے۔ ارشد اور میرے ساتھ اُن کا بڑا ذاتی تعلق تھا اور اپنے بچوں کی طرح ہم سے پیار کرتے۔ ان کیساتھ بھی لندن کی سڑکوں اور کیفے پر بڑا وقت گزرا۔ انور بیگ بھی ایک خوبصورت محفل تھے۔ ایک دلچسپ اور خوبصورت انسان۔ جتنے تعلقات میں نے ان کے دیکھے‘ شاید ہی کسی کے ہوں گے۔ یہیں ڈیوک سٹریٹ میں اکثر پاکستانی سیاستدانوں کو دیکھا اور پرکھا۔ یہیں ایک دن عمران خان کو بھی دیکھا جو2007ء میں لندن آئے ہوئے تھے۔ وہ نواز شریف سے ملنے آئے اور انہیں زور دے کر کہا کہ آپ پاکستان واپس آئیں اور دونوں مل کر مشرف کے خلاف تحریک چلاتے ہیں۔ عمران خان نے نواز شریف کے وطن واپس آنے کی بھی حمایت کی۔ اس پریس کانفرنس میں جو عمران خان نے نواز شریف کے ساتھ بیٹھ کر کی تھی‘ میں بھی دیگر صحافیوں کے ساتھ موجود تھا۔ میں یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہوا کہ کیسے مفادات انسانوں کی اَنا پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ یہی نواز شریف وزیراعظم تھے تو انہوں نے جمائما خان اور ان کی والدہ مسز گولڈ سمتھ پر مقدمے بنائے اور جمائما پاکستان چھوڑگئیں۔ اس سے پہلے جب عمران خان نے سیاست میں قدم رکھا تو ان کے خلاف (ن) لیگ کا میڈیا سیل دنیا بھر کے سکینڈلز نکال لایا اور جمائما سے شادی پر بھی مہم شروع کی گئی۔ عمران خان نے اپنی کتاب میں جمائما سے شادی کی ناکامی کا کسی حد تک نواز شریف کی پارٹی کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔اس لیے جب پرویز مشرف نے مارشل لا لگا کر نواز شریف کو قید کیا تو عمران خان ان چند ابتدائی لیڈروں میں سے ایک تھے جنہوں نے فورا ًان کا ساتھ دیا۔ مشرف کے ریفرنڈم میں ان کیلئے مہم چلائی ‘ شوکت خانم ہسپتال بلا کر اُن سے کروڑوں کا چندہ لیا۔ عمران خان کے اندر اچانک امید جاگ اٹھی تھی کہ مشرف انہیں الیکشن کے بعد وزیراعظم بنائیں گے۔ جنرل مشرف بھی اب سیاستدان بن چکے تھے۔ انہیں علم تھا کہ اپنے نیچے زیادہ Ambitious اور مشہور لوگوں کو عہدے نہیں دیے جاتے کیونکہ وہ پر پرزے نکال لیتے ہیں‘ جیسے جنرل ضیا نے بھٹو سے خود کو آرمی چیف لگوانے کے بعد نکالے یا پھر جونیجو نے نکال لیے تھے۔ اس لیے مشرف کو جمالی‘ شوکت عزیز اور چوہدری شجاعت سُوٹ کیے ‘عمران خان نہیں۔ عمران خان اس بات پر مشرف سے ناراض ہوئے کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا تھا۔ لہٰذا وہ مشرف کے خلاف ہوگئے اور اب وہ لندن میں نواز شریف کو دعوت دے رہے تھے کہ وہ پاکستان واپس آئیں اور اکٹھے مل کر مشرف کے خلاف جمہوریت کیلئے جدوجہد کرتے ہیں۔ وہی بات کہ موسم بدل گئے تھے۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف اپنی ذاتی اور سیاسی بقا کیلئے اکٹھے ہوسکتے تھے تو عمران خان اور نواز شریف کیوں نہیں۔ مجھے یاد ہے نواز شریف سے ملاقات کے بعد عمران خان دفتر کی سیڑھیاں اُتر رہے تھے تو مجھ پر نظر پڑی اور کہا ‘تم یہاں لندن کیا کررہے ہو‘ تمہاری ضرورت تو پاکستان میں ہے۔ وہاں جنرل مشرف کے خلاف جدوجہد تیز ہورہی ہے اور تمہارے جیسے صحافیوں کی وہاں ضرورت ہے۔ پہلے بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے مفادات جنرل مشرف کی وجہ سے ایک ہوگئے تھے تو اب عمران خان کے مفادات بھی نواز شریف سے جُڑ گئے تھے۔ ذاتی دشمنیاں اقتدار کی وجہ سے پیچھے چلی گئیں اور یہ سب کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے اور میرا دھیرے دھیرے ان سب لوگوں کی باتوں اور دعوئوں پر سے یقین ختم ہونا شروع ہوا۔ مجھے سب کچھ جعلی لگا کہ ایک دن بینظیر بھٹو پاکستان میں مشرف کی طرف سے نواز شریف کی حکومت توڑ کر انہیں گرفتار کرنے کے بعد اب جنرل سے بات چیت کی خواہاں ہیں تو اب اسی جنرل سے جڑی توقعات پوری نہ ہونے پر پہلے جدہ تو اب لندن اسی نواز شریف سے ملنے پہنچی ہوئی تھیں جس نے آصف زرداری اور ان پر مقدمے بنائے اور بینظیر کو پاکستان چھوڑنا پڑا۔ یہی حال عمران خان کا تھا جو نواز شریف کے خلاف نعرے مار کر سیاست میں آئے تھے اور وہ اس وقت لندن میں اسی نواز شریف کو قائل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے کہ آپ پاکستان واپس آئیں۔ آج برسوں بعد ڈیوک سٹریٹ کے قریب سے گزرنے کا اتفاق ہوا۔ مڑ کر دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ وقت کتنی تیزی سے بدل گیا۔ 2007ء میں یہاں کتنا رش ہوتا تھا۔ امیدیں تھیں کہ یہ سب جنرل مشرف کے بعد بدل جائیں گے۔ کیا بدلہ؟ اس دوران نواز شریف پھر وزیراعظم بنے اور پھر مفرور ہو کر لندن واپس آئے‘ بینظیر بھٹو قتل ہوئیں‘ ہمارا یار ارشد شریف قتل ہوا جس کا صدمہ کبھی دل سے نہیں جائے گا‘ ضیاالدین چل بسے‘ انور بیگ رخصت ہوئے۔ پہلے مجھے ڈاکٹر ظفر الطاف‘ ارشد شریف اور انور بیگ کے دنیا سے جانے کے بعد اسلام آباد اداس اور ویران لگتا تھا‘ اب لندن کی یہ رات بھی ان دوستوں کے بغیر اداس اور تنہا لگی۔