"RTC" (space) message & send to 7575

سراج الحق کا’’ کرپشن فری پاکستان‘‘

سراج الحق صاحب کی ''کرپشن فری پاکستان‘‘ مہم نے ہمارے بعض دوستوں کو اندیشہ ہائے دور دراز سے دوچار کردیا‘ وہ جو کہتے ہیں، دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے یا سانپ کا کاٹا رَسّی سے بھی ڈرتا ہے۔ ماضی میں بہت سے پسِ پردہ کھیل، بظاہر بڑے مقدس عنوانات کے ساتھ کھیلے جاتے رہے، جماعتِ اسلامی بھی دانستہ یا نادانستہ جن کا حصہ بنتی رہی۔ تو کیا اب'' کرپشن فری پاکستان ‘‘مہم بھی کسی نئے کھیل کاآغاز ہے؟ لیکن سراج الحق صاحب کی زیرقیادت جماعتِ اسلامی نے ابھی ڈیڑھ سال قبل، نہ صرف دھرنا بغاوت کا حصہ بننے سے انکار کردیا (حالانکہ وہ خیبر پختونخوا میں کپتان کی اتحادی تھی)بلکہ سسٹم کے تسلسل کے لیے سراج الحق صاحب کی زیرقیادت ''جرگہ ‘‘ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس بحران میں پارلیمنٹ کے اندر بھی جماعتِ اسلامی دیگر جمہوری قوتوں کے شانہ بشانہ تھی۔ جماعت کا یہ کردار اس کے جمہوری کریڈنشل کو بہتر بنانے کا باعث بنا‘ تو اب وہ کسی پس پردہ کھیل کا حصہ کیوں بنے گی؟ منصورہ کے دارالضیافتہ میں اُس شام ڈنر پر سراج الحق یہی وضاحت کررہے تھے کہ ان کی اس مہم کا ہدف کرپشن ہے، ملک میں جاری جمہوری نظام نہیں (یہ جیسا تیسا بھی ہے۔)
امیر جماعت کے بقول کرپشن کے خلاف یہ مہم ہمہ گیر اور ہمہ پہلو ہے۔ ہر نوع کی کرپشن اس کا ہدف ہے۔ اس میں مالی کرپشن بھی ہے، انتخابی کرپشن اور اخلاقی کرپشن بھی۔ کم تولنے اور ملاوٹ شدہ اشیاء فروخت کرنے والا دکاندار بھی کرپشن کا مرتکب ہوتا ہے اور دفتر دیر سے آنے والا کام چور کلرک بھی اپنی جگہ کرپٹ ہے۔'' کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ آپ اس کارِ خیر کو اتنا زیادہ پھیلادینے کی بجائے ایک دو اہداف تک محدود رکھتے مثلاً بڑے بڑے قرضے ہضم کرنے والے صنعت کاراور سرکاری سودوں میں بھاری کمیشن وصول کرنے والے بددیانت سیاستدان اور سرکاری افسراس مہم کا ہدف ہوتے یا الیکشن میں کی جانے والی کرپشن آپ کا ٹارگٹ ہوتی؟‘‘ 
''کرپشن زندگی کے ہر شعبے میں بہت گہری سرایت کرچکی ہے۔ یہ ہرجگہ اور ہر سطح پر ہے اور سوسائٹی کے سبھی طبقے، سبھی افراد کسی نہ کسی طور اس سے متاثر ہوتے ہیں؛ چنانچہ ہم نے اِن سب کے لیے ''دلچسپی کا سامان‘‘، مہیا کردیا ہے، دستر خوان پر سبھی ڈشیں سجادی ہیں‘‘ سراج الحق کا استدلال تھا۔
ادھر جماعت کے داخلی حلقے کا کہنا ہے کہ اِسے اینٹی گورنمنٹ کمپین نہ سمجھا جائے۔ زرداری صاحب کے گزشتہ دور میں بھی جماعت کا یہی مؤقف تھا کہ اسے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے اور یہی مؤقف موجودہ حکومت کے حوالے سے بھی ہے۔ اگست2014ء کی دھرنا بغاوت کے دوران پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جماعت اسلامی کا کردار اس کے اسی مؤقف کی عملی تصویر تھا، تو اب جب کہ موجودہ حکومت اپنی نصف سے زائد مدت مکمل کرچکی، جماعت اس کے خلاف کسی غیر جمہوری کھیل کا حصہ کیوں بنے گی؟ اور پھر یہ بھی کہ اب پس پردہ ڈوریاں ہلانے والے ہاتھ بھی موجود نہیں۔ سبھی نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا ہے۔ 
جماعت کے داخلی ذرائع کے مطابق جماعت کے اندر گزشتہ آٹھ، نو سال کی رائیگانی کا احساس بڑی شدت سے موجود ہے۔ 2008ء میں الیکشن کے بائیکاٹ سے جماعت پانچ سال تک پارلیمانی سیاست سے باہر ہوگئی اور جماعت کے اچھے خاصے مضبوط انتخابی حلقے بھی اس کے ہاتھ سے نکل گئے کہ خلا باقی نہیں رہتا۔ پھر تحریک ِ انصاف کے ساتھ اتحاد سے یہ تاثر گہرا ہوا کہ جماعت کی اپنی کوئی حیثیت نہیں، پہلے مسلم لیگ اس کا سہارا بنتی تھی، پھر متحدہ مجلسِ عمل نے اس کے لیے گنجائش پیداکی اور اب تحریکِ انصاف کی بیساکھی اس کے کام آرہی ہے اور ادھر تحریکِ انصاف والوں کی بے لحاظی کا یہ عالم تھا کہ کپتان کو جماعت کے کسی فیصلے ، کسی حکمتِ عملی پر سرِ عام سرزنش کرنے میں بھی عار نہ ہوتی کہ سراج الحق بتائیں وہ کس کے ساتھ ہیں، اسٹیٹس کو کے ساتھ یا تبدیلی کے ساتھ؟ پی ٹی آئی کی سینئر قیادت اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری بھی جماعت پر ڈال دیتی۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات ہوں یا پنجاب کا بلدیاتی معرکہ، عمران اسماعیل سے لے کر محمود الرشید تک یہ کہتے سنائی دیتے کہ پی ٹی آئی کے ورکر اور ووٹر نے جماعت کے ساتھ اتحاد کو پسند نہیں کیا۔ 
بعض ستم ظریف، جناب سید منور حسن کی پانچ سالہ امارت (2009-2014) کو بھی عرصۂ زیاں میں شمار کرتے ہیں۔ ان کے بقول، جناب منور اس دوران جماعت کو مطلوبہ رفتار کے ساتھ
متحرک نہ کرسکے۔ ہمارے خیال میں یہ تبصرہ منور صاحب کے ساتھ زیادتی ہے۔ ان پر یہ بوجھ اس عمر میں ڈالا گیاجو اِن گراں بار ذمہ داریوں کے آغاز کی نہیں ، سبکدوشی کی عمر ہوتی ہے۔ یہاں انہیں ایک اور مسئلہ بھی درپیش تھا۔ قاضی صاحب بیس بائیس سالہ امارت سے سبکدوش ہوچکے تھے لیکن اپنے پیش رو میاں طفیل محمد کے برعکس قومی سیاست میں وہ اب بھی سرگرم تھے اور یوں سابق امیر ہونے کے باوجود سیاسی منظر پر اِن کا امیج نمایاں ہوتا اور''موجودہ امیر‘‘ دبے دبے سے نظر آتے۔ خیر، منور صاحب کے پانچ سالہ عرصۂ امارت کے سودوزیاں کا گوشوارہ ایک الگ موضوع ہے ۔ پھر جماعت کی تاریخ میں یہ نئی مثال بھی قائم ہوئی کہ امارت کے انتخاب میں موجودہ(existing) امیر دوبارہ منتخب نہ ہوسکے(''شکست‘‘ کا لفظ شاید مناسب نہ ہو۔) جماعت کی تاریخ میں یہ ''وقوعہ ‘‘ بھی پہلی بار ہوا کہ پانچ ہزار کے لگ بھگ ارکان جماعت کے بیلٹ پیپر ناظم انتخاب کو موصول ہی نہ ہوئے( تقریباً 30ہزار ارکان کو بیلٹ پیپر جاری ہوئے تھے۔)جناب سراج الحق کی تقریب حلف برداری میں منور صاحب یہ کہے بغیر نہ رہے کہ اس تشویشناک صورتِ حال کا نوٹس لیا جائے۔
عشائیہ میں جناب سراج الحق مین ٹیبل سے ہماری ٹیبل پر چلے آئے‘ یہاں حبیب اکرم، رضوان رضی، راشد حجازی اور بلال غوری ہم نشین تھے۔ جناب سراج الحق کرپشن فری مہم کی تفصیلات بیان کر چکے تو ہم نے عرض کیا، آپ خیبر پختونخوا حکومت کا حصہ ہیں، جہاں خود اس حکومت کے قائم کردہ احتساب کمیشن کے سربراہ جنرل (ر) حامد نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا کہ آزادانہ احتساب کی راہ میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں کہ کرپشن کا کھرا سی ایم ہاؤس تک جاتا ہے۔ پھرا س بات کو بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب جناب شیرپاؤ کی جماعت پر کرپشن کے سنگین الزامات کے ساتھ اس کے وزراء کو کابینہ سے نکال باہر کیا گیااور پھر اسی جماعت کو ، پہلے سے اہم تر وزارتوں کے ساتھ دوبارہ اسی کابینہ کا حصہ بنالیا گیا۔ اب آپ کرپشن فری مہم اسی صوبے سے شروع کرنے جارہے ہیں تو کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ جماعت حکومت سے سبکدوش ہو کر، اس بوجھ کو اُتار کر نئی اُڑان کا آغاز کرے ع 
تو اے مرغِ حرم اُڑنے سے پہلے پَر فشاں ہوجا
یہاں جناب سراج الحق صاحب کا اپنا استدلال تھا، اِن کے خیال میں حکومت کا حصہ رہنے اور کرپشن کے خلاف مہم چلانے میں کوئی تضاد نہیں۔جماعتی حلقوں کے خیال میں یہ مہم دراصل 2018ء کے عام انتخابات کی تیاری ہے جس کا مقصد ایک طرف رابطۂ عوام ہے، تو دوسری طرف کارکنوں کا لہو گرم رکھنے کے ساتھ جماعت کے اپنے تشخص، اپنی شناخت کی بحالی ہے۔ 
پسِ تحریر: یہ ہمارے خواجہ سعد رفیق نے اتوار کی سہ پہر لاہور میں ایک تقریب سے خطاب میں کیا کہہ دیا، ''سیاسی پارٹیوں میں خاندانوں کا غلبہ ہے‘‘۔ یہ ان کا اور ان کی جماعت کا معاملہ ہے، لیکن جماعتوں میں داخلی آمریت کا ذکر کرتے ہوئے اُنہوں نے جناب جاوید ہاشمی اور شیخ رشید کو یکساں کیسے قرار دے دیا کہ'' یہ دونوں نڈر ہیں اور قیادت کے سامنے بات کرنے کی ہمت رکھتے ہیں‘‘۔ قومی سیاست میں دونوں کے کردار کا موازنہ ایک الگ موضوع ہے ، فی الحال تو ہم خواجہ صاحب کے اس ''انکشاف ‘‘پر اِناللہ ہی کہہ سکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں