ڈاکٹر عدنان خاں کو انکار آسان نہ تھا۔ اِن سے ہماری شناسائی کا آغاز سرور پیلس جدہ میں ہوا، شریف فیملی کی جلاوطنی کے دوران فیملی فزیشن کے طور پر ڈاکٹر عدنان بھی وہاں تھے۔ جواں سال عدنان نے 1999میں شریف میڈیکل سٹی ہسپتال جوائن کیا تھا کہ 12اکتوبر کی شام ، ملٹری ٹیک اوور کے ساتھ یہ ہسپتال بھی قبضے میں چلا گیاجو میاں محمد شریف (مرحوم ) کے شریف میڈیکل سٹی اینڈ ایجوکیشن کمپلیکس کے عظیم الشان منصوبے کا حصہ تھا۔بڑے میاں صاحب کیا وژنری تھے! عظیم الشان منصوبوں کے خواب دیکھتے، صرف خواب ہی نہ دیکھتے، انہیں شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے دِن رات ایک کردیتے۔ انہوں نے محنت، دیانت اور امانت کو شعار کیا۔ معاشرے کے بے وسیلہ افراد کے لیے دردِ دل کی دولت بھی قدرت نے انہیں وافر مقدار میں عطا کی تھی۔ اتفاق ہسپتال کے بعد، شریف میڈیکل سٹی اینڈ ایجوکیشن کمپلیکس بھی اسی احسا س کا نتیجہ تھا۔ اس کے مختلف منصوبوں پر کام کاآغاز ہورہا تھا کہ 12اکتوبر ہوگیا۔ ڈکٹیٹر کا کہنا تھا، وہ نوازشریف کو سیاسی و نفسیاتی طور پر مفلوج کرنے کے علاوہ مالی لحاظ سے بھی برباد کردے گا(ایڈیٹروں کے ساتھ ایک میٹنگ میں اِسے نواز شریف کو اپنا دُشمن نمبر ون قرار دینے میں بھی کوئی عار نہ تھی۔) شریف ٹرسٹ کوئی کاروباری اِدارہ نہ تھا‘ اس کے باوجود عتاب سے نہ بچ سکا۔ ماڈل ٹاؤن والے گھر(180H) پر قبضہ کرکے اسے اولڈ ایج ہوم میں تبدیل کردیا گیا۔ جلاوطنی سے واپسی پر ، یہ دوبارہ شریف فیملی کی ملکیت میں چلا گیا۔ 2012میں اسے تعمیرِ نو کے ساتھ مسلم لیگ ہاؤس میں تبدیل کردیا گیا۔ 2013ء کی الیکشن مہم یہیں سے چلی۔ اب کبھی کبھار یہاں کوئی میٹنگ ہوجاتی ہے۔
12اکتوبر کے بعد جاتی عمرہ کے گردوپیش خوف وہراس کی فضا اور شریف میڈیکل سٹی پر قبضے کے باعث کئی ڈاکٹر خود چھوڑ کر چلے گئے، جو رہنا چاہتے تھے، ان پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا۔ معالج نہ رہے تو مریض بھی چلے گئے۔ یادآیا، ہم چھٹیوں پر جدہ سے لاہور آئے تھے ، ملاقات کے لیے عطأالحق قاسمی صاحب کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ وہ شریف میڈیکل سٹی ہسپتال میں ہیں۔انہیں گردے کے شدید عارضے نے آلیا تھا۔ کینسر کے خدشے کے باعث اِسے نکال دیا گیا( وہ ایک گردے کے ساتھ بھی ماشاء اللہ اسی طرح فعال و سرگرم ہیں)۔ ہسپتال کے گیٹ پر ''تفتیش ‘‘ کے جملہ مراحل سے گزرنے کے بعد، ہم اندر پہنچے تو چار سو ویرانیوں کے ڈیرے تھے۔ وارڈ خالی تھے۔ ایک پرائیویٹ کمرے میں ہم نے قاسمی صاحب کو پالیا جو اس ہسپتال میں واحد مریض تھے۔
وہ جو کہتے ہیں ، ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘ جواں سال عدنان ، شریف میڈیکل سٹی میں چند ماہ کے دوران ہی اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کے باعث بڑے میاں صاحب کی نظروں میں سما گئے تھے۔ شریف فیملی جلاوطن ہوئی تو عدنان کو جدے سے بلاوا آگیا۔ پاکستان چھوڑنا اور جلاوطنوں سے وابستگی اختیار کرنا آسان نہ تھا لیکن عدنان نے یہ مشکل فیصلہ آسانی سے کرلیا۔ جلاوطنی سے قبل ہی بڑے میاں صاحب عارضۂ قلب کا شکار ہوچکے تھے۔ 12اکتوبر کے بعد، روزافزوں مصائب کا وہ بڑے حوصلے اور ہمت سے مقابلہ کر رہے تھے کہ ایک شب احساس ہوا، دل سرکشی پر اُتر آیا ہے۔ نوازشریف ، شہباز شریف ، عباس شریف سمیت گھر کے سبھی مرد جیل میں تھے۔ بیگم کلثوم نواز نے شہر کے مشہور ترین ماہر امراضِ قلب کو فون کیا جس پر میاں صاحب کے بڑے احسانات رہے تھے لیکن اس نے آنے سے معذرت کرلی، ڈکٹیٹر کے خوف نے اِسے آلیا تھا۔
جدے سے یاد آیا۔ بڑے میاں صاحب کے اعضا اضمحلال کا شکار ہورہے تھے، وہ وہیل چیئر پر آگئے تھے لیکن اس کیفیت میں بھی فارغ بیٹھنا ان کے لیے محال تھا۔ اُنہوں نے یہاں بھی سٹیل مل قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ( وسائل کی فراہمی کی کہانی حسین نواز گزشتہ دِنوں ایک ٹی وی انٹرویو میں بیان کرچکے)اس کے لیے مکہ مکرمہ کے نواح میں حدیبیہ کا انتخاب ہوا۔ بلڈنگ کی تعمیر اور مشینوں کی تنصیب کی نگرانی بڑے میاں صاحب خود کر رہے تھے ، وہ ٹھیک صبح نو بجے جدہ سے روانہ ہوتے۔ کیپٹن صفدر اور حسین بھی ہمراہ ہوتے۔ ایک بار انہیں تیار ہونے میں دیر ہوگئی،میاں صاحب پانچ، سات منٹ انتظار کے بعد روانہ ہوگئے۔ وقت جیسی قیمتی دولت کا ضیاع انہیں گوارا نہ تھا۔قدرے تاخیر کے ساتھ صفدر اور حسین بھی پہنچ گئے لیکن بڑے میاں صاحب کی خاموش ناراضی نے انہیں آئندہ کے لیے محتاط کردیا تھا۔
2004ء میں رمضان المبارک کی 15ویں شب بڑے میاں صاحب کوبُلاوا آگیا۔ دِل کا شدید دورہ جاں لیواثابت ہوا تھا۔ شریف
فیملی کا کوئی فرد میّت کے ساتھ پاکستان نہ آسکا۔ یہ امانت پاکستان پہنچانے کی ذمہ داری فیملی نے ڈاکٹر عدنان اور بریگیڈیئر جاوید اقبال (وزیراعظم کے سابق ملٹری سیکرٹری ) کے سپرد کی۔ (بریگیڈیئر کی کہانی اپنی جگہ دلچسپ ہے۔ 12اکتوبر کی شام کورکمانڈر جنرل محمود وزیراعظم کی گرفتاری کے لیے پرائم منسٹر ہاؤس پہنچے تھے۔ کہا جاتا ہے، زیرحراست وزیراعظم کے ساتھ توہین آمیز سلوک پر بریگیڈیئر سے رہا نہ گیا۔ کور کمانڈر کو مخاطب کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا، جناب جنرل! یہ مناسب نہیں ۔ یہ انڈیا کے نہیں، پاکستان کے منتخب وزیراعظم ہیں۔ اب سرونگ بریگیڈیئر کو اس گستاخی کی سزا بھگتنا تھی۔ اپنے سویلین باس کے ساتھ اسے بھی گرفتار کر لیا گیا۔ طویل حراست کے بعد اس کی رہائی اس عالم میں عمل میں آئی کہ وہ فوجی رینک سمیت ریٹائرمنٹ کی جملہ سہولتوں سے محروم ہوچکا تھا۔ رہائی کے بعد وہ بھی سرور پیلس چلا آیا)۔
جلا وطنی کے خاتمے پر میاں صاحب کی وطن واپسی کے ساتھ عدنان بھی وطن لوٹ آئے جہاں بڑے میاں صاحب (مرحوم) کے خواب تکمیل کے منتظر تھے۔ بڑے میاں صاحب کے انتقال کے بعد اب نوازشریف، اس ٹرسٹ کے چیئرپرسن ہیں۔ تینوں بھائیوں، نوازشریف ، شہبازشریف اور عباس شریف(مرحوم) کے خاندانوںکے ساتھ اُن کی اکلوتی بہن کی فیملی بھی اس ٹرسٹ کی ممبر ہے۔46سالہ ڈاکٹر عدنان شریف میڈیکل سٹی کے ان منصوبوں کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔
یہ شریف میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے سالانہ مباحثوں کی تقریب تھی۔ ڈاکٹر عدنان کا اصرار، ہمارے انکار پر غالب آگیا اور ہمیں مہمانِ خصوصی کی ذمہ داری قبول کرنا پڑی۔ الیکٹرانک میڈیا کے نوجوان کمپیئر علی حیدر اور مشعل بخاری بھی مہمانانِ خاص تھے۔ دو اڑھائی سال بعد ہمیں ادھر آنے کا موقع ملا تھا، جہاں بڑے میاں صاحب کے خواب تکمیل پارہے ہیں۔ شریف میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ، شریف پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ ، شریف میڈیکل ریسرچ سنٹر، شریف انسٹی ٹیوٹ آف الائیڈ ہیلتھ سائنسز ، شریف کالج آف نرسنگ اور ساڑھے چار سو بیڈ کا شریف میڈیکل سٹی ہسپتال ۔ میڈیکل کے 600طلباوطالبات کے لیے ہاسٹل کی سہولت بھی موجود ہے۔
ہسپتال کے 50فیصد بیڈ، 100فیصد فری مریضوں کے لیے مختص ہیں۔اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کے معائنے کی پرچی فیس صرف50روپے ہے۔ یہاں فری ڈائلیسز سنٹر بھی ہے اور اس کے لیے شہر کے مختلف مقامات پر فری پک اینڈ ڈراپ سروس کا انتظام بھی۔ ہزاروں مریض گردوں اور آنکھوں کے کورنیا کی ٹرانسپلانٹیشن سے مستفید ہوچکے ۔ 88ایکڑ پر مشتمل اس ایجوکیشن سٹی میں انجینئرنگ کالج اور پرائمری سے اے لیول تک سکول بھی موجود ہیں جہاں تقریباً ایک ہزار طلباوطالبات زیرتعلیم ہیں۔ مستحق طلباوطالبات کے لیے فیس معافی کی سہولت بھی ہے اور اس کے لیے سیکریسی کا مکمل اہتمام کہ مستحق بچے احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں۔
اور اہم ترین بات یہ کہ شریف ٹرسٹ کے وابستگان مالی وسائل کا خود بندوبست کرتے ہیں ۔ اس کے لیے قربانی کی کھالوں اور زکوٰۃ وصدقات کے لیے اپیل کی جاتی ہے نہ اندرون و بیرون ملک ڈونیشن کمپین کا اہتمام ہوتا ہے اور دلچسپ ترین بات یہ کہ خلق ِ خدا کی خدمت کے اس کارِ خیر کو انتخابی مہم کا حصہ بنا کرکوئی ''سیاسی معاوضہ ‘‘ بھی طلب نہیں کیا جاتا۔