7 اکتوبر 1998ء کی شب، ایک سرکردہ صحافی کے صاحبزادے کے ولیمہ کی تقریب تھی۔ مدعوین میں شہر کے سیاسی عمائدین بھی بڑی تعداد میں تھے۔ سیاسی و صحافتی حلقوں میں آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کی نیشنل سکیورٹی کونسل کی تجویز پر ایک طوفان سا برپا تھا۔ یہ تجویز انہوں نے دو روز قبل نیول کالج لاہور میں ایک سیمینار سے خطاب میں پیش کی تھی۔ دلچسپ بات یہ کہ یہ بات اُن کی لکھی ہوئی تقریر کا حصہ نہیں تھی۔ تقریب کے بعد سوال جواب کا سیشن شروع ہوا تو ایک سوال ملک کو درپیش مسائل کے حوالے سے بھی تھا۔ نوازشریف کی دوسری وزارتِ عظمیٰ کا آغاز اس عالم میں ہوا کہ ملک ڈیفالٹ کے سنگین خطرے سے دوچار تھا۔ ہنی مون پیریڈ ختم ہوا ہی تھا کہ عدلیہ کے بحران نے آلیا۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو جناب لغاری کے ایوانِ صدر کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ چار پانچ مہینوں پر محیط یہ سنگین بحران 2 دسمبر کو جناب ِ صدر اور مسٹر چیف جسٹس کے استعفوں کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔ معیشت کی اُلجھی ہوئی زلفیں سنوارنے کا عمل دوبارہ شروع ہوا کہ اسی دوران ایٹمی دھماکوں کے بعد عالمی اقتصادی پابندیاں قومی معیشت پر نئے دباؤ کا باعث بن گئیں۔ آرمی چیف نے اصلاحِ احوال کے لیے نیشنل سکیورٹی کونسل کا نسخہ تجویز کیا اور اس کے ساتھ ہی اپوزیشن نے ایک طوفان سا اُٹھا دیاتھا۔ وہ اِسے فوج کی طرف سے سول حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار قرار دے رہی تھی۔ نواب زادہ صاحب گنگنا رہے تھے ع
جی کا جانا ٹھہر رہا ہے، صبح گیا کہ شام گیا
ہر گزرتے لمحے کے ساتھ عدم استحکام کا تاثر گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ ولیمے میں بھی اہلِ سیاست وصحافت میں یہی چیز موضوعِ بحث تھی۔ وزیراعظم نے شادی بیاہ کی تقریبات میں شرکت کو اپنے لیے حرام قرار د ے رکھا تھا (وہ اب بھی اسی پر عمل پیرا ہیں۔) بارات یا ولیمے میں عدم شرکت کی تلافی یوں کرتے ہیں کہ شادی والے گھر پہنچ کر بزرگوں کو مبارک باد اور دلہا دلہن کو سلامی دے آتے ہیں۔ اُس روز بھی اُنہوں نے یہی کیا تھا۔ وزیراعظم کی آمد خفیہ نہ رہی تھی۔ میڈیا والے وہاں پہنچ گئے تھے لیکن وزیراعظم علیک سلیک کر کے آگے بڑھ گئے۔ اِن میں سے بعض حضرات ولیمے کی تقریب میں بھی موجود تھے۔ ''وہاں میاں صاحب کی باڈی لینگوئج کیسی تھی‘‘؟ ''ہمیشہ کی طرح مطمئن اور پُراعتماد‘‘۔ ''لیکن مطمئن اور پُراعتماد تو وہ 18 اپریل 93 ء کی اُس شام بھی تھے جب ایوان ِ صدرمیں سازش آخری مرحلے میں تھی۔ صدر غلام اسحاق خان وزیراعظم کی برطرفی کا فیصلہ کر چکے تھے اور کسی بھی لمحے صدارتی فرمان متوقع تھا۔ ادھر پرائم منسٹر ہاؤس میں لمحے لمحے کی رپورٹ موصول ہو رہی تھی لیکن پرائم منسٹر کے چہرے پر کوئی خوف، کوئی پریشانی یا پشیمانی نہیں تھی۔ گزشتہ شب قوم سے اپنے خطاب میں وہ ڈکٹیشن نہ لینے، اسمبلی نہ توڑنے اور استعفے نہ دینے کا واشگاف اعلان کر چکے تھے۔ پرائم منسٹر کی محفل میں موجود ایک صاحب نے سوال کیا، برطرفی کے بعدآپ کا آئندہ اقدام کیا ہوگا‘‘؟۔ ''میں عوام میں جاؤں گا‘‘۔ ''لیکن کیا وہ آپ کو اس کا موقع دیں گے‘‘؟ ''میں کسی بھی کارروائی کا سامنا کرنے کو تیار ہوں، یہاں سے سیدھا اڈیالہ جیل جانے کے لیے بھی، جس کے لیے میں نے اپنا بیگ بھی تیار کر رکھا ہے‘‘۔
ولیمے میں نامی گرامی میجر عامر بھی موجود تھے۔ جنرل کرامت کے دھماکہ خیز بیان کی بات ہوئی تو اُن کا کہنا تھا، فوج میں ہمیں جس Element of surprise کی تربیت دی جاتی ہے، جنرل صاحب نے اسے ضائع کر دیا ہے‘‘۔ ''آپ اس تنازع کا انجام کیا دیکھتے ہیں‘‘؟ ''وہی جو اس سے قبل غلام اسحاق خاں، فاروق لغاری اور سجاد علی شاہ کے ساتھ تنازعات کا ہوا۔ ان سب میں بالآخر میاں صاحب ہی فاتح ٹھہرے تھے‘‘۔ آرمی چیف کے اس بیان کے بعد نوازشریف حکومت کے مستقبل کے حوالے سے ہر کسی کا اپنا تبصرہ اور تجزیہ تھا کہ اسی دوران پی ٹی وی کے خبر نامے نے تقریب میں سنسنی سی دوڑا دی۔ جنرل جہانگیر کرامت''ریٹائرمنٹ ‘ ‘ پر چلے گئے تھے اور جنرل مشرف نے ان کے جانشین کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں (سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان کی تاریخ کا ایک اور بدترین لمحہ۔) وزیراعظم نے جنرل کرامت کو طلب کیا۔ انہیں احساس دلایا کہ ان کی ''تجویز‘‘ نے ملک میں عدم استحکام کا تاثر پیدا کر دیا ہے۔ جنرل کرامت نے ''ریٹائرمنٹ ‘‘کا باوقار راستہ اختیار کیا۔ پروفیشنل آرمی چیف رُخصت ہوا، سیاست سے جسے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی، جسے میڈیا میں اپنی پروجیکشن کا بھی کوئی شوق نہیں تھا، چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور صدر فاروق لغار ی کے پیدا کردہ بحران میں جس نے اپنا وزن منتخب وزیراعظم کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ اب اس کا استعفیٰ، پاکستان کی سیاسی و فوجی تاریخ کی ایک منفرد مثال بن گیا تھا۔ وزیراطلاعات سید مشاہد حسین اِسے وطنِ عزیز میں NOC کی سیاست کے خاتمے سے تعبیر کر رہے تھے۔ ''وہ دِن گئے جب'' باہر‘‘ یا ''اندر‘‘سے پوچھ کر سیاست کی جاتی تھی‘‘۔
وزیراعظم نوازشریف اپنی پہلی وزارتِ عظمیٰ کے دوران بھی سویلین بالادستی پر اصرار کا مظاہرہ کرچکے تھے۔ وہ نومبر1990ء میں وزیراعظم بنے تو خلیج کا بحران انہیں ورثے میں ملا۔ تب آرمی چیف جنرل اسلم بیگ، پاکستان کے سرکاری مؤقف کے برعکس کویت پر ناجائز قبضے کے مرتکب عراقی صدر صدام حسین کی حمایت کر رہے تھے اور یہ چیزپاکستان کے علاقائی و عالمی مفادات کے لیے بھی سخت ضرر رساں تھی۔ تب 8ویں ترمیم کے تحت فوجی سربراہوں کے تقرر کا اختیار صدر کے پاس تھا۔ نوازشریف، جن کی وزارتِ عظمیٰ کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دِن ہوئے تھے، ایوانِ صدر پہنچے اور صدر سے کہا کہ وہ آرمی چیف کو منع کریں۔ اُن کا دوٹوک مؤقف تھا کہ عوام نے حکمرانی اور فیصلہ سازی کا اختیار آرمی چیف یا کسی اور کو نہیں، مجھے اور میری منتخب حکومت کو دیا ہے۔ اِسے قبول نہ کیا گیا تو میں یہاں نوکری کرنے کی بجائے واپس گھر چلے جانے کو ترجیح دوں گا۔ ایوانِ صدر اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ ایک نیا لب و لہجہ تھا، ایک انوکھا تجربہ۔ آرمی چیف اپنی حدود میں چلے گئے تھے۔
فروری1997ء میں وہ دوبارہ برسرِ اقتدار آگئے۔ اس بار انہیں دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ اُنہوں نے اصل ''ہدف‘‘ ہمیشہ نظر میں رکھا تھا، منتخب حکومت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا ''ہدف‘‘ ضیأالحق دورکی 8 ویں ترمیم جس پر ایک لٹکتی ہوئی تلوار تھی۔ اب اپنی دوتہائی اکثریت کے ساتھ وہ خود بھی اسے ختم کرنے کی پوزیشن میں تھے لیکن انہوں نے قومی اتفاقِ رائے کا راستہ اختیار کیا۔ قائدِ حزبِ اختلاف محترمہ بے نظیر بھٹو اور پارلیمنٹ میں موجود دیگر جماعتوں کی قیادت کو اعتماد میں لیا اور 13ویں ترمیم اس اتفاقِ رائے کے ساتھ منظور ہوئی کہ ''NO‘‘ کی ایک آواز بھی نہیں تھی۔ 1973ء کے آئین سے 1985ء کی تجاوزات ختم کردی گئی تھیں۔ پارلیمانی نظام اپنی حقیقی روح کے ساتھ دوبارہ موجود تھا۔ 12اکتوبر 99ء کے بعد قوم پر چوتھا ڈکٹیٹر مسلط تھا۔ اب (فوجی وردی اتارنے کے وعدۂ فردا کے عوض، بعد میں ڈکٹیٹر اس سے بھی منحرف ہوگیا)17 ویں ترمیم کے ذریعے''صدر‘‘ کو اتنے بے پناہ اختیارات دے دیئے گئے تھے کہ کسی پارلیمانی نظام میں جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب صدر کی حیثیت ''وفاق کی علامت‘‘ کی نہیں بلکہ وزیراعظم کے ''باس‘‘ کی تھی (وزیراعظم جمالی کو تو صدر کو سرعام''باس‘‘ کہنے میں بھی کوئی عار نہ ہوتی۔) اسٹیبلشمنٹ کے دیرینہ خواب کی تکمیل ہوگئی تھی۔ جدہ میں 10فروری 2005ء کی ملاقات میں میاں صاحب نے محترمہ سے یہی بات کہی تھی، 17ویں ترمیم کے صدارتی اختیارات کے بعد وزیراعظم کے لیے ''نوکری‘‘ کے سواکیا رہ گیا ہے۔
فروری 2008ء کے عام انتخابات (اور ڈکٹیٹر کی رُخصتی ) کے بعد 18ویں ترمیم نے (حد سے بڑھی ہوئی) صوبائی خود مختاری کے علاوہ وزیراعظم کے اصل اختیارات بھی دوبارہ بحال کردیئے تھے۔ اب آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری اور قتل جیسے سنگین مقدمات میں ملوث سابق ڈکٹیٹر کی بیرونِ ملک روانگی نے سول ملٹری ریلیشن شپ کے حوالے سے پرانی بحث کو دوبارہ تازہ کردیا ہے۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سیاستدانوں کی نظر آئندہ الیکشن پر ہوتی ہے۔ میاں صاحب اور اُن کے رفقا کی نظر بھی آئندہ الیکشن پر ہے۔ وہ چاہتے ہیں انہیں معیشت کی بحالی اور توانائی کے بحران کے خاتمے سمیت اپنے منصوبوں کی تکمیل کی مہلت مل جائے۔
پس حرف:۔ ابھی ایک دوست کا فون آیا، وہ عابد علی عابد (مرحوم) کا ایک شعر سنارہا تھا۔ دوسرا مصرع ع
برسرِکار وہی پیرِ مغاں ہے کہ جو تھا