پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پر لکھے گئے گزشتہ کالم میں امریکی سنٹرل کمانڈ کے (سابق) سربراہ جنرل انتھونی زینی اور پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کے تعلقات کا ذکر بھی آیا تھا۔ اس بار جنرل پرویز مشرف اور جنرل زینی کے ذاتی تعلقات کا ذکر ہو جائے۔ جب اسلام آباد اور واشنگٹن میں سیاسی اور سفارتی تعلقات سرد مہری کا شکار تھے‘ جنرل زینی کی کتاب ''Battle Ready‘‘ کے مطابق وہ پاکستان کے نئے آرمی چیف جنرل مشرف سے ملاقات کے لئے پاکستان آئے‘ اور دونوں میں بڑی تیزی اور آسانی سے قربت پیدا ہو گئی۔ زینی نے مشرف کو ذہین، مخلص اور پرُکشش شخصیت پایا۔ ان ملاقاتوں میں پاکستانی آرمی چیف نے پاکستان میں سول حکومتوں کے دور میں بڑھتی ہوئی کرپشن کا بھی ذکر کیا۔ انہیں ملک میں طاقت ور اسلامی لہروں کا بھی علم تھا‘ اور اس خطرے کا احساس بھی‘ جو اِن طاقتوں کی وجہ سے پاکستان کو 21ویں صدی میں درپیش تھا۔ زینی لکھتے ہیں: ''ایٹمی دھماکوں کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری کے باوجود یہ زبردست ملاقات تھی‘ جس میں طے پایا کہ ہم قریبی رابطہ رکھیں گے۔ اس کے لئے ہم نے اپنے گھروں کے ٹیلی فون نمبروں کا تبادلہ بھی کیا۔ ہماری یہ دوستی آگے چل کر دونوں ملکوں کے لئے نہایت مفید اور قابل قدر ثابت ہوئی‘‘۔
12 اکتوبر 1999ء کی فوجی کارروائی کے حوالے سے زینی کی ہمدردیاں مشرف کے ساتھ تھیں۔ ان کے بقول: ''سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان کشیدگی انتہا کو پہنچ رہی تھی۔ ایسے میں وزیر اعظم نے مشرف کو برطرف کرکے اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی مار لی۔ آرمی انقلاب لے آئی اور وزیر اعظم کو گرفتار کر لیا۔ واشنگٹن اس پر خوش نہیں تھا؛ چنانچہ مجھے جنرل مشرف کے ساتھ اپنے رابطے ختم کرنے کا حکم دیا گیا۔ میں نے اس پر عمل کیا اگرچہ میرے خیال میں یہ احمقانہ حکم تھا‘‘۔ جنرل زینی لکھتے ہیں: ''میں وزیر دفاع ولیم کوہن کے ساتھ امریکہ اور مصر کی مشترکہ جنگی مشقیں (برائٹ سٹار) دیکھ رہا تھا کہ میرے سیٹلائٹ فون پر مشرف کی کال آئی۔ میں نے کوہن سے پوچھا، مجھے کیا کرنا چاہیے؟ اس نے جواب دیا، کال لے لو لیکن کوئی وعدہ مت کرنا۔ مشرف اسے دو دوستوں کے درمیان پرسنل کال قرار دے رہا تھا‘ اور مجھے ان حالات سے آگاہ کرنا چاہتا تھا جو 12 اکتوبر کی فوجی کارروائی کا باعث بنے۔ وہ کہہ رہا تھا: ''ہمارے ہاں جمہوریت کا نام تو تھا لیکن یہ فی الواقع موجود نہ تھی۔ میں جعلی جمہوریت کی جگہ حقیقی جمہوریت چاہتا ہوں‘ چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے... مجھے اس کی پروا نہیں کہ دوسرے لوگ کیا سوچتے ہیں، میرے لئے اہم چیز یہ ہے کہ آپ میری نیت اور ارادوں سے آگاہ رہیں‘‘۔ میں نے وزیر دفاع کوہن کو اس گفتگو کی تفصیل بتائی‘ اور اس رائے کا اظہار کیا کہ امریکہ کے لئے پاکستان سے رابطہ رکھنا جتنا اہم اس وقت ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ کوہن میری بات سمجھ رہے تھے لیکن وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ واشنگٹن اس پر آمادہ نہ ہو گا‘‘۔
جنرل زینی ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں: ''اُردن کی انٹیلی جنس نے امریکی سیاحوں کے قتل کی سازش پکڑی۔ سازشی افراد کا تعلق اُسامہ بن لادن سے تھا۔ تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ اس سازش کے لیڈر پاکستان میں ہیں۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور نیشنل سکیورٹی سے مجھے کال موصول ہوئیں کہ مشرف سے رابطہ کرو اور اس میں مدد کے لئے کہو۔ میری کال پر مشرف نے نہ صرف ان دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا‘ بلکہ ان کی کمپیوٹر ڈسکیں بھی ہمیں دے دیں۔ اس نے ہم پر کچھ اور احسانات بھی کیے۔ میں نے واشنگٹن سے کہا، اب آپ بھی مشرف کے لئے کچھ کریں، کم از کم اس سے رابطے ہی بحال کر لیں لیکن وہاں سے جواب ملا... ''نہیں‘‘۔ میں نے مشرف کو فون کیا کہ واشنگٹن کے اس رویّے سے مجھے کتنی مایوسی ہوئی ہے‘ مجھے معلوم ہے کہ آپ کی حکومت کے بعض حلقوں اور پاکستانی عوام میں امریکہ کے ساتھ تعاون پسندیدہ نہیں۔ ایسے میں آپ نے ہمارے لئے جو کچھ کیا، یہ کتنی ہمت اور جرأت کا کام ہے؛ چنانچہ میرے لئے یہ دہری ندامت کی بات ہے کہ میں اس کے صلے میں آپ کو کچھ بھی نہیں دے سکتا۔ اس پر مشرف کا جواب تھا، میں نے جو کچھ کیا، اس کے جواب میں آپ سے کوئی چیز چاہتا ہوں، نہ اس کی توقع کرتا ہوں۔ میں نے یہ اس لئے کیا کہ یہ ایک صحیح کام تھا‘‘۔
یہ نائن الیون سے پہلے کلنٹن کا واشنگٹن تھا۔ اور اب کچھ ذکر نائن الیون کے بعد کا، اور یہ بش جونیئر کا واشنگٹن تھا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مینجنگ ایڈیٹر باب وڈورڈ ان دنوں کے بہت سے واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ ان کی کتاب Bush at War
سے ایک منظر... وائٹ ہائوس کے سچوایشن ہال میں صدر بش کی زیرِ صدارت نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس جاری تھا۔ وزیر خارجہ کولن پاول کے پاس نہایت اہم خبر تھی۔ وفورِ مسرت سے ان کے پائوں زمین پر نہ لگ رہے تھے۔ وہ ہال میں داخل ہوئے۔ ان کے لئے اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ پاکستان سے سب کچھ منوا لیں گے؟ اتنی آسانی کے ساتھ؟ اور پاکستان یہ سب کچھ کچھ مان جائے گا، کسی حیلے، کسی بہانے، کسی شرط، اور کسی ترمیم کے بغیر؟ صدر بش اور سکیورٹی کونسل کے ارکان کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں، وزیر خارجہ کیا جواب لایا تھا؟ پاول نے کہنا شروع کیا، میں آپ کو وہ بتانا چاہتا ہوں جو میں نے پاکستان کو بتایا ہے۔ اب اس نے وہ 7 نکات پڑھنا شروع کئے جو اس نے وزیر دفاع رمسفیلڈ کے ساتھ مل کر تیار کئے تھے۔ پاکستان سے 7 نکاتی مطالبہ... (1) پاکستان طالبان کو ہر قسم کے اسلحہ اور ساز و سامان کی فراہمی روک دے، اسامہ کی ہر قسم کی امداد ختم اور اپنی سرحد سے القاعدہ کے آپریشن بلا تاخیر بند کر دے۔ (2) امریکہ کو پاکستان کی فضائی حدود اور زمینی رابطوں کے بلا روک ٹوک استعمال کا حق دے۔ (3) امریکہ کو یہ حق بھی دیا جائے کہ وہ حسب ضرورت پاکستان کے تمام بحری اور فضائی اڈوں اور سرحدوں کو استعمال کر سکے۔ (4) پاکستان امریکہ کو ہر قسم کی انٹیلی جنس انفارمیشن اور نقل و حرکت کے متعلق معلومات مہیا کرے۔ (5) پاکستان نائن الیون کے حملوں کی مذمت کرے، دہشت گردوں سے تعاون کے تمام
راستے بند کر دے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کا سدِباب کرے۔ (6) طالبان کو پٹرول سمیت ہر قسم کے ایندھن کی فراہمی بلا تاخیر بند کر دی جائے، پاکستان سے طالبان کے کسی بھی سپورٹر کو افغانستان جانے کی اجازت نہ دی جائے، القاعدہ کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے میں امریکہ کی مدد کی جائے۔ (7) طالبان سے سفارتی تعلقات منقطع کر لئے جائیں۔
ان مطالبات پر پاکستان کے ڈکٹیٹر کا ردِ عمل کیا تھا؟ پاول نے اپنے سامعین کے تجسس کا لطف لینے کی بجائے اپنی بات جاری رکھی۔ اپنے کارنامے کا فخریہ اظہار اس کے لئے زیادہ لطف آمیز، فرحت بخش اور مسرت آگیں تھا، ''معزز اراکینِ کونسل! صدر مشرف نے یہ سارے مطالبات مان لئے ہیں...‘‘
امریکہ نے نائن الیون کی آڑ میں ''دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا منصوبہ بنایا‘ تو اس کا پہلا ہدف افغانستان تھا۔ اس کے لئے اسے پاکستان کا تعاون درکار تھا جس کے بغیر اس ہدف کا حصول کہیں زیادہ مشکل اور زیادہ مہنگا پڑتا، لیکن جمہوری پاکستان کے لئے یہ کام کہیں زیادہ مشکل ہوتا۔ اب یہ مطلق العنان ڈکٹیٹر کا پاکستان تھا‘ جسے اپنے اقتدار کے لئے قومی مفادات کا سودا کرنے میں کوئی عار نہ تھی‘ اور اس کے لئے وہ کسی کو جواب دہ نہیں تھا۔
امریکیوں کا خیال تھا کہ پاکستان ان سات مطالبات میں سے تین چار کو تسلیم کر لے گا، دو تین کو مسترد کر دے گا‘ اور ایک آدھ پر غور کرنے کی بات کرے گا‘ لیکن ڈکٹیٹر نے ساتوں مطالبات تسلیم کر لئے تھے۔ سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں کسی کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ صدر بش نے حیرت اور مسرت سے معمور لہجے میں اپنے وزیر خارجہ سے کہا، گویا تم نے جو چاہا، پا لیا۔