"RTC" (space) message & send to 7575

دھرنا III، نئے کھیل کی وارم اپ ایکسر سائز ؟

قادری صاحب کا تازہ ترین دھرنابخیر و عافیت اختتام کو پہنچا۔ چھوٹے چودھری صاحب نے تین چار دن پہلے ہی بتا دیا تھا کہ افطاری کے وقت شروع ہونے والا دھرنا سحری کے وقت ختم ہو جائے گا ۔ وہ جو قادری صاحب اپنی ایک گھنٹے گیارہ منٹ کی تقریرکے آخر میں کارکنوں سے دھرنا جاری رکھنے کی ''اجازت‘‘طلب کر رہے تھے، اسے ''ڈرامہ‘‘قراردینا تو شاید گستاخی ہو ، البتہ سسپنس پیدا کرنے کی کوشش کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اپنے شیخ کی ہدایت پر پنجاب بھر سے جمع ہونے والے ان عقیدت مندوں نے ، جن میں خواتین اور بچے بھی خاصی تعداد میں تھے ، غیر معینہ مدت تک دھرنا جاری رکھنے کی ''اجازت‘‘دے دی تھی ۔ مختلف ایجنسیاں ان کی تعداد 10سے 15ہزار بتا رہی تھیں ۔ چیئرنگ کراس سے ریگل کی طرف، کچھ فاصلے پر شروع ہونے والی کرسیوں کی قطاریں پینوراما سنٹر تک تھیں۔ ان کے پیچھے کچھ تعداد کھڑے ہوئے لوگوں کی بھی تھی ۔ مبالغے کے عادی جناب قادری عوام کے اس ''سیلاب‘‘ کو داتا دربار تک بتا رہے تھے ۔ 
''عوام‘‘کی طرف سے غیر معینہ مدت تک دھرنے کی ''اتھارٹی ‘‘لے کر جناب ِ شیخ نے اسے سحری تک جاری رکھنے کا اعلان کیاتھا لیکن ان کے بقول یہ دھرنا ختم کرنے کا نہیں، اسے ''ملتوی‘‘کرنے کا اعلان تھا، 17جون (2014)کے شہداکے قصاص کا مطالبہ منوانے کے لیے وہ صرف ایک ہفتے کے نوٹس پر جسے دوبارہ بحال کر سکتے تھے۔
جنابِ شیخ نے اسلام آباد میں جنوری 2013ء کے چار روزہ دھرنے کوبھی ''ملتوی‘‘کرنے کا اعلان کیا تھا جو 15 اگست 2014ء کو بحال ہو کر72دن بعد دوبارہ ملتوی کر دیا گیا۔ گزشتہ شب لاہور کی مال روڈپر یہ صرف آٹھ گھنٹے کے لئے ''بحال‘‘ہو کر اگلے اعلان تک پھر ملتوی ہو گیا ۔ یہ الگ بات کہ میڈیا میں بعض تجزیہ نگاروں نے اسے قادری دھرناپارٹ iiiکا نام دے دیا تھا ۔ 
جنابِ شیخ کی دھرنا مہم جوئی .... 2008ء کے عام انتخابات کے بعد پاکستان میں منتخب ادارے اپنے پانچ سال پورے کر رہے تھے اور نئے انتخابات چند قدم کے فاصلے پر تھے ، انگریزی محاورے کے مطابق At an arm's length ،زرداری +گیلانی حکومت کی کارکردگی جیسی بھی رہی ، اس دوران آئے روز منظرِ عام پر آنے والے مالی اسکینڈلزبھی اپنی جگہ لیکن پارلیمنٹ کی کارگزاری اس لحاظ سے قابل ِ قدر تھی کہ اس نے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے حقیقی پارلیمانی نظام بحال کر دیا تھا ، 17ویں ترمیم کے صدارتی تجاوزات ختم کر دیے تھے ، صوبائی خودمختاری کے دیرینہ مطالبات بھی تسلیم ہو گئے تھے ۔ (صوبوں کو بعض ایسے اختیارات بھی دے دیئے گئے ، ہمارے پڑوس میں وفاقی پارلیمانی نظام میں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ) اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے تقررمیں انتظامیہ کا اثرو رسوخ ختم ہو گیا تھا ، اب یہ کام چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن اور حکومت و حزب ِ اختلاف پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کے سپرد تھا ۔ 20ویں ترمیم نے حزبِ اختلاف کے اتفاق ِ رائے سے آزاد وخودمختار الیکشن کمیشن اور وفاق اور صوبوںمیں غیر جانبدار حکومتوں کی زیرِ نگرانی صاف شفاف انتخابات کی آئینی ضمانت فراہم کر دی تھی۔ اب ملک میں آزاد عدلیہ بھی تھی، چوکس میڈیا اور مستعد و فعال سول سوسائٹی بھی ۔ ایسے میں جنابِ شیخ ''سیاست نہیں ، ریاست بچائو‘‘کے نعرے کے ساتھ کینیڈا سے پاکستان تشریف لے آئے ۔ ''گلے سڑے نظام کا خاتمہ اور نئے انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات‘‘ان کا ایجنڈا تھا ۔ انہیں یہ کہنے میں کوئی عار نہ تھی کہ الیکشن جب بھی ہوں اس ایجنڈے کے مطابق ہوں ۔ وہ اس کے لئے آئین کے آرٹیکل 254کا حوالہ دیتے اور اس سے الیکشن کے غیر معینہ التوا کی گنجائش نکال لاتے ۔ ان کے بعض پروپیگنڈسٹ یہ دور کی کوڑی بھی لائے کہ جنابِ شیخ اس ایجنڈے کو جی ایچ کیو کی تائید بھی حاصل ہے ۔ دسمبر کی یخ بستہ شب ان کی رہائش پر کونسل آف نیشنل افیئرز کے ساتھ نشست میں یہی سوال پوچھا گیا تو انھوں نے لندن سے آنے والی الطاف بھائی کی کالوں کا ذکر کیا ( جنہیں انھوں نے آف دی ریکارڈ کر دیا تھا ) لیکن اگلے روز سیٹھی صاحب نے اپنی ''چڑیا ‘‘کے حوالے سے اور جنابِ شامی نے اپنے ''ہد ہد‘‘کے بقول یہ راز فاش کر دیا کہ لندن سے آنے والی کالوں میںیہ سوال بہ التزام پوچھاجاتا کہ ''اُدھر ‘‘سے کوئی پیغام آیا ؟ کوئی اشارہ ملا ؟ اور ''اُدھر ‘‘والوں نے آئی ایس پی آر کے ذریعے اس کھیل سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا تھا ۔ یہ الگ بات کہ اعجاز الحق کے صاحبزادے کی دعوت ِولیمہ میں سرخ ٹوپی والے ''شیخ الجہاد ‘‘یہ سرگوشیاں کر رہے تھے کہ اس دھرنے کو پنڈی والوںکی سرپرستی حاصل ہے ( ان کے بقول ) جنہوں نے پانچ سال صبر کر کے دیکھ لیا، اب ملک کو بھی تو بچانا ہے۔ ادھر چیف جسٹس لاہور میں وکلاء کے ایک بڑے اجتماع میں کہہ رہے تھے ، کوئی ماورائے آئین اقدام نہیں ہو گا ۔ حکومت وہی کریں گے جو منتخب ہو کر آئیں گے ( ٹیکنوکریٹس کی اڑھائی تین سالہ حکومت نہیں ) اور پھر اسلام آبادمیں جنوری کے قہر آلود ماحول میں یہ چار روزہ دھرنا چودھری شجاعت حسین اور قمر زماں کائرہ سمیت ایک وفد سے ملاقات کے بعد ''ملتوی ‘‘کر دیا گیا۔ ڈکٹیٹر کا کہنا تھا کہ جنرل کیانی کی جگہ وہ ہوتا تو تبدیلی آچکی ہوتی ۔
اور پھر 2014ء .......اب جنابِ شیخ ''شہادت یا انقلاب‘‘ کے نعرے کے ساتھ آ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انقلاب کے لئے تین چار ہزار کارکنوں کی شہادت کوئی مہنگا سودا نہیں ہوگا ۔ ادھر ضربِ عضب کا آغاز ہو گیا ۔ قائدِ انقلاب کی پاکستان تشریف آوری سے صرف چھ روز قبل لاہور کی انتظامیہ کو جانے کیا سو جھی کہ 17جون کو نصف شب کے بعد منہاج القرآن اور جنابِ شیخ کے گھر کی سکیورٹی کے لئے لگائے گئے بیریئر ز کوہٹانے کے لئے پہنچ گئے ۔ ادھر شیخ کے گھر اور ادارے کے تقدس کے لئے کارکن اپنی جانوں پر کھیلنے اور مرنے مارنے کو تیار تھے ۔ اُدھر کینیڈا سے ٹویٹس آ رہی تھیں، میرے کارکن جانوں پر کھیل جائیں گے لیکن سر نہیں جھکائیں گے ۔ منہاج القرآن کی مسجد سے اسے کربلا کا نیا معرکہ قرار دیا جا رہا تھا ۔ اور پھر گیارہ ، ساڑھے گیا رہ بجے کے درمیان سانحہ ہو گیا ۔ نصف شب شروع ہونے والی کشمکش ، جس میں مذاکرات کے مراحل بھی آئے ، دن دہاڑے اس اچانک المیے میں کیسے تبدیل ہو گئی ؟ پہلی گولی کدھر سے آئی ؟ پولیس کو فائرنگ کا حکم کس نے دیا ؟ کیا پولیس 
والے Panicہو گئے تھے ؟ قادری صاحب نے عدالتی کمیشن کا بائیکاٹ کر دیا تھا ، انہوں نے ملک کی اہم ترین انٹیلی جنس ایجنسیوں پر مشتمل جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کوجائے وقوعہ کے معائنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا ۔ فرانزک ٹیم پہنچی تو اسے بھی روک دیا گیا۔ 22روز بعد جے آئی ٹی کو معائنے کی اجازت ملی تو منظر یہ تھا کہ دیواروں ، دروازوں اور کھڑکیوں کی مرمت ہو چکی تھی ( اور یوں اہم شواہد ضائع ہو گئے تھے ) اور پھر پندرہ اگست سے اسلام آباد میں شروع ہونے والا دھرنا (جس میں ان کا سیاسی کزن بھی شانہ بشانہ اور پہلو بہ پہلو موجود تھا ) اس دوران شہادت کی آرزو سے معمور تقریریں ، کفن پہننے اور پہنائے جانے کے مناظر ، قبریں کھودنے کا حکم ،پرائم منسٹر ہائوس ، سپریم کورٹ ، پارلیمنٹ ہائوس اور ایوانِ صدر کی دیواروں سے ٹکراتا احتجاج اور پی ٹی وی پر قبضہ.... اورپھر 72روز بعد انہوں نے یہ کہہ کر دھرنا ''ملتوی‘‘کر دیا کہ ابھی اللہ تعالیٰ کونواز شریف حکومت کا خاتمہ منظور نہیں ۔ ''امپائر‘‘ کی انگلی اٹھنے کی امید بر نہ آئی تھی۔ اس دوران ''امپائر‘‘نے ایک ملاقات میں ، جو وزیراعظم کی اجازت سے ہوئی ، دونوں پر واضح کر دیا تھا کہ وزیراعظم کے استعفے کے سوا باقی معاملات پر بات ہو سکتی ہے ۔
2013ء میں سیاست نہیں ، ریاست بچائو ،2014ء میں انقلاب یا شہادت اور اب17 جون کے شہداء کا قصاص۔ بعض باخبروں کے بقول جنابِ شیخ اب پھر کسی بڑے کھیل کا حصہ بننے آئے ہیں ، عمران خان عید کے بعد جس کے آغاز کی بات کر رہا ہے ۔ وہ گزشتہ شب آٹھ گھنٹے کی دھرنا کارروائی کو وارم اپ ایکسر سائزقرار دیتے ہیں ۔ سیاسی پنڈتوں کا کہناہے کہ اگست کے وسط تک حالات مشکل ہیں لیکن حکومت ان مشکلات میں سے نکل جائے گی۔ ''امپائر‘‘سے وابستہ امیدیں اس با ر بھی بر نہیں آئیں گی ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں