''کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا‘ تم کس قسم کی اسٹوریز لکھتے ہو؟...موت کی خبریں... میرے ذہن میں آیا۔ کشمیر میں ایک رپورٹر کی حیثیت میں گزشتہ کئی سال سے یہی کام کر رہا ہوں۔ موت کی خبریں لکھنے کا کام...صرف مقام‘ نام اور کردار بدل جاتے ہیں‘ لیکن کہانیاں وہی ہوتی ہیں‘ایک سی کہانیاں۔ آلام اور آنسوئوں سے لبریز...‘‘
ایک انگریزی اخبار میرے سامنے ہے اور میں کشمیر کے ایک معروف صحافی کی کہانی پڑھ رہا ہوں‘ اس کی اپنی کہانی‘ جو دراصل کشمیر کے سالہا سال کی کہانی ہے‘ مزمل ایک فعال اور سرگرم صحافی ہے‘ جس کا تعلق اس نسل سے ہے جو پُرامن سیاسی و جمہوری ذرائع سے مایوس ہو کر اپنی آزادی کے لیے ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو گئی۔
یہ کہانی لکھتے ہوئے مزمل کواپنے بچپن اور نوعمری کا کشمیر یاد آتا ہے۔ وہ کشمیر میں پیدا ہوا۔ یہاں سیبوں کے باغات اور سرسبز چراگاہوں میں پرورش پائی۔ اس کا بچپن صاف شفاف چشموں اور ندی نالوں کے کنارے حسین خواب دیکھتے گزرا۔ وہ اسکول جاتا‘ گھاس پھونس کی چٹائیوں پر بیٹھ کر سبق یاد کرتا اور پہاڑے رٹتا۔ چھٹی کے بعد گھر واپس آتے ہوئے وہ اپنے ہم جولیوں کے ساتھ ٹھنڈے پانیوں میں کود جاتا۔ وہ دیر تک نہاتے‘ غوطے لگاتے اور ایک دوسرے پر چھینٹے پھینکتے‘ ہنستے اور قہقہے لگاتے۔
ان کا گائوں سلسلہ ہائے کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ پہاڑوں پر بلند و بالا چراگاہوں کا رُخ کرتے‘ وہاں کھیلے کودتے اور خوب دھما چوکڑی مچاتے۔ پھر موسم سرما آ جاتا۔ بلا کی سردی میں گائوں کے سب بچے‘ لڑکے اور لڑکیاں‘ ایک بڑے خاندان میں تبدیل ہو جاتے۔ وہ ایک ہی کمرے میں جمع ہوتے اور گرم گرم کشمیری چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے رات گئے تک اپنے بزرگوں سے کہانیاں سنتے‘ مزے مزے کی کہانیاں۔
مزمل کو ان خوشگوار دنوںکی ایک ایک بات یاد ہے۔''کشمیر ایک Big Partyکی مانند تھا۔ زندگی کی رونقوں اور محبتوں سے معمور... اور آج یہاں ہر جگہ موت اور وحشت کا راج ہے۔‘‘پھر اسے 1988ء کا پہلا بم دھماکہ یاد آتا ہے۔ ابتدا میں لوگ اسے ایک معمولی سیاسی جھگڑے کا نتیجہ سمجھے‘ حالانکہ ہر صاحبِ نظر دیکھ رہا تھا کہ برسہا برس کی سیاسی بے چینی کے بعد برتن کھولنے لگا ہے۔ پھر اسی سال ستمبر میں نوجوان اعجاز ڈار پولیس کے ساتھ مسلح تصادم میں مارا گیا۔ ہندوستان کے زیر تسلط برسوں کی جعلی جمہوریت سے مایوس کشمیر نوجوانوں کے ایک گروپ نے آزادی کے خوابوں کی تعبیر کے لیے ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
اعجاز ڈار کی موت ایک طویل المناک دور کا آغاز تھا۔ شاید بعض لوگوں کو یاد نہ ہو کہ حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین نے اسی سال سری نگر سے اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا۔ وہ بھاری اکثریت سے جیت رہے تھے لیکن انہیں دھاندلی سے ہرا دیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ یہ نشست ہی نہ ہارے بلکہ اس ''پراسیس‘‘ پر بھی ان کا اعتماد ختم ہو گیا۔ ان کے پولنگ ایجنٹس اور سپورٹرز کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ رہائی کے بعد ان میں سے بیشتر نے ہتھیار اٹھا لیے۔ حقیقت یہ تھی کہ کشمیریوں کی بھاری اکثریت نے ہندوستان کے ساتھ وابستگی کبھی محسوس ہی نہ کی تھی۔ یہی احساسات و جذبات بالآخر ''علیحدگی کی مکمل تحریک‘‘ کی صورت اختیار کر گیے۔
مزمل جلیل لکھتا ہے،''میرا بھی اس میں شمولیت کو جی چاہتا۔ ہم میں سے اکثر ٹین ایجرز تھے جنہوں نے شاید ابھی تک اس کے نتائج و عواقب پر بھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا تھا۔ شاید ہمارے لاشعور میں بغاوت کا احساس تھا جو ہمیں ادھر لا رہا تھا۔ پھر جوں جوں وہ دن‘ ہفتے اور مہینے گزرتے گئے‘ انڈین سکیورٹی فورسز کو ان پہاڑی راستوں کا علم ہونے لگا‘ جو حریت پسند کشمیری نوجوانوں کی تربیت گاہوں تک جاتے تھے۔ پھر نوجوانوں کی لاشیں آنے لگیں تب وہ اسٹیڈیم جہاں ہم کرکٹ اور فٹ بال کھیلا کرتے تھے‘ شہیدوں کے قبرستانوں میں تبدیل ہونے لگے۔ وہ نوجوان جو کبھی یہاں کھیلا کرتے تھے‘ اب یہیں دفن کئے جانے لگے۔ ان میں سے بیشتر نے ابھی کلاشنکوف سے ایک گولی بھی نہیں چلائی تھی‘‘۔
ایک دن مزمل جلیل نے اپنے گائوں کے قریب شہیدوں کے قبرستان میں اپنے دوستوں کی اکیس21قبریں گنیں۔ اس کے سامنے مشتاق کا چہرہ ابھرا جس کے ساتھ اسکول کے دنوں سے اس کی شناسائی تھی۔ مشتاق کی ماں بیٹے کی جواں مرگ پر ذہنی توازن کھو بیٹھی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کے لہو میں رنگی ہوئی قمیص لیے گائوں میں گھومتی رہتی۔
ان میں مزمل کے ایک اور دوست جاوید کی قبر بھی تھی‘ والدین کا اکلوتا بہت ہی خوبصورت نوجوان‘ کشمیر کی آزادی کی خواہش جس کے رگ و پے میں لہو بن کر دوڑتی تھی۔ شہادت کے وقت وہ مزمل کے کپڑے پہنے ہوئے تھا... 23سال کا جوانِ رعنا‘ موت کے چھ گھنٹے بعد بھی تدفین کے وقت اس کے زخموں سے لہو رس رہا تھا۔مزمل وہ لمحہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا جب آخری دیدار کے لیے اس نے جاوید کے چہرے سے کفن سرکایا۔ یہ ایک زندہ نوجوان کا چہرہ لگتا تھا‘ مسکراہٹ‘ اطمینان اور آسودگی سے بھر پور... راحت کی وہ کیفیت جو منزل پر پہنچ کر نصیب ہوتی ہے۔ پندرہ دن بعد جاوید کی ہمشیرہ کی شادی تھی۔ بھائی کی موت اس کے دل کا روگ بن گئی اور اس نے اپنے بھائی کے پاس پہنچنے میں دیر نہ کی۔
''آج کشمیر میں شہیدوں کے 500سے زائد قبرستان ہیں۔ ہر قبر کے سرہانے ایک کتبے پر صاحبِ قبر کی کہانی بھی کندہ ہے۔ یہ میری نسل کی المناک کہانی ہے۔کتبوں کے اس کاروبار نے ان برسوں میں خوب فروغ پایا ہے۔‘‘
مزمل جلیل لکھتا ہے،''کشمیر کے روز و شب میں اس تبدیلی کا میں عینی شاہد ہوں۔ مجھے یاد ہے‘ کبھی آسمان سرخ ہوتا تو میری دادی اماں توبہ توبہ پکارنے لگتیں اور کہتیں‘ اس کا مطلب ہے کہ کہیں قتل ہو گیا ہے۔ اب یہاں اوسطاً بیس قتل روزانہ ہوتے ہیں اور آسمان سرخ نہیں ہوتا‘ سرخ آندھی نہیں اٹھتی۔ ایک وقت تھا کہ کشمیر میں کسی جرم کا تصور تک نہ تھا۔ یہ ایک ''کرائم فری اسٹیٹ‘‘ بھی۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں میرا پڑوسی ایک سینئر پولیس افسر بتاتا تھا کہ کشمیر میں سال بھر میں زیادہ سے زیادہ تین چار قتل ہوتے تھے۔ اب اگر ایک دن میں تین قتل ہو جائیں تو اسے امن و امان سمجھا جاتا ہے‘‘
مزمل خوش قسمت ہے کہ تشدد اور ہلاکتوں کی ارزانی کے ان موسموں میں محفوظ رہا لیکن اس کے اہلِ خانہ اور دیگر رشتے دار اتنے خوش بخت نہیں تھے...وہ بتاتا ہے...''میرے چھوٹے بھائی کو1994ء میں ''ملی ٹینسی‘‘ کے شبے میں گرفتار کر لیا گیا اور ہم ایک ماہ بعد اسے تلاش کر پائے۔ ہم گھر والوں نے وادیٔ کشمیر کے مختلف علاقوں کو آپس میں بانٹ لیا۔ ہم ہر صبح نکلتے اور اپنے اپنے علاقے میں سکیورٹی فورسز کے کیمپوں میں اسے تلاش کرتے۔ میری والدہ نے ساری زندگی پولیس اسٹیشن نہیں دیکھا تھا لیکن آخر اس نے میرے بھائی کو تلاش کر لیا... اب وہ سری نگر کے نواح میں ہر ملٹری کیمپ سے آگاہ تھیں... ایک ماہ کی تفتیش کے بعد بالآخر میرا بھائی بے گناہ قرار پایا لیکن اس دوران اس پر تشدد کے ایسے ایسے حربے آزمائے گئے کہ وہ اگلے دو ماہ تک بستر پر پڑا رہا۔ برسوں گزرنے کے بعد بھی‘ وہ ایک مہینہ اس کے لیے ڈرائونے خوابوں کی مانند تھا کسی سپاہی کو دیکھتے ہی وہ کانپنے لگتا‘ رات کو دروازے پر دستک ہوتی تو اس کا دل ڈوبنے لگتا‘‘
لیکن کشمیر میں یہ محض مزمل کے بھائی کی کہانی نہیں۔
اس کی ایک کزن کا خاوند شام کو مسجد سے نکلتے ہوئے''کراس فائر‘‘ کی زد میں آ گیا۔ اس کی جان بچ سکتی تھی اگر اسے بروقت ہسپتال پہنچا دیا جاتا لیکن سکیورٹی فورسز نے اس کے اہل خانہ کو گھر سے باہر نکلنے اور اسے ہسپتال لے جانے کی اجازت نہ دی۔ وہ باہر سڑک پر تڑپتا اور مدد کے لیے پکارتا رہا۔ اس کی والدہ‘بیوی اور چھوٹا بھائی کچھ بھی نہ کر سکے۔ سوائے اپنی بے بسی کا تماشہ دیکھنے کے... اس کی موت کے چار مہینے بعد اس کے ہاں ایک بچے کی ولادت ہوئی‘ جسے شکمِ مادر ہی میں یتیمی نے آلیا تھا۔
مزمل جلیل کی کہانی جاری ہے‘''1992ء تک یہ حالت ہو گئی تھی کہ شمالی کشمیر میں ہمارے گردو پیش کے دیہات میں شاید ہی کوئی نوجوان نظر آتا ہو۔ کئی نوجوان تحریک آزادی میں شامل ہو گئے تھے‘ کچھ اس دنیا سے کوچ کر گئے اور کچھ زیر ِزمین چلے گئے‘ چند ایسے بھی تھے جنہوں نے حکومت کے حامی ملیشیا میں شمولیت کو باعثِ عافیت جانا‘‘۔
اپنی صحافیانہ زندگی کے حوالے سے مزمل کا کہنا ہے:''کشمیر یونیورسٹی سری نگر سے صحافت کی ڈگری کے بعد انڈین ایکسپریس کے رپورٹر کی حیثیت سے میری پہلی اسائنمنٹ ایک پولیس اسٹیشن جا کر اسٹوری تیاری کرنے کی تھی۔ کچھ فوٹو گرافر بھی میرے ساتھ تھے جو ان لاشوں کی تصاویر بنانے لگے جنہیں چھ‘چھ گولیاں لگی تھی۔ ان کی حالت ناقابلِ دید اور ناقابلِ بیان تھی۔ ان کے کپڑے خشک ہو جانے والے لہو سے اکڑے ہوئے تھے اور چہرے ناقابلِ شناخت ہو گئے تھے۔ اس شام یہ لہولہان لاشیں اور ان کی تصاویر میرے اعصاب پر مسلط رہیں۔ مجھے پینے کا پانی بھی خون لگتا۔ میں بلا مبالغہ کئی روز تک سو نہ سکا۔ مجھے خواب میں بھی یہی لاشیں نظر آتیں‘‘۔
چند ماہ بعد وہ ایک اور جگہ پہنچا‘ جہاں قتلِ عام کے بعد نوحہ و ماتم میں مصروف عورتوں اور مردوں کا ہجوم تھا۔ اور لاشیں یوں بکھری ہوئی تھیں جیسے غیر محتاط بچوں کے ہاتھوں ٹوٹے ہوئے کھلونوں کے ''اعضا‘‘ بکھرے ہوتے ہیں۔ یہ منظر اس کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ اس کا حلق سوکھنے اور ٹانگیں بوجھل ہونے لگیں۔ اس کا جی چاہا کہ اپنی نوٹ بک پھینک کر انہی غم زدوں‘ ان نوحہ گروں میں شامل ہو جائے لیکن کیمروں کے شٹرز کی آواز نے اسے چونکا دیا‘ اسے یاد آیا کہ وہ یہاں اپنے اخبار کے لیے اسٹوری بنانے آیا ہے۔
مزمل کہتا ہے،''اب برسہا برس سے شہادتوں کی‘ ہلاکتوں کی خبریں لکھنا میرا معمول بن گیا ہے۔ رفتہ رفتہ میرے احساسات و جذبات بھی بدل گئے ہیں۔ اب یہ اموات‘ یہ ہلاکتیں‘ یہ شہادتیں‘ میرے لیے محض''اسٹوریز‘‘ اور ''بائی لائنز‘‘ بن کر رہ گئی ہیں۔ میں اپنے''ملک‘‘ میں ڈے ٹو ڈے تشدد کی رپورٹنگ کے ایڈونچر میں عام انسانی احساسات سے بھی محروم ہو گیا ہوں۔ اب اپنوں کی موت بھی مجھ پر کوئی اثر نہیں کرتی‘‘ ۔
سالہا سال سے روز و شب کے یکساں مناظر نے مزمل جلیل کو ''بے حس‘‘ بنا دیا ہے لیکن ساری دنیا‘ مہذب مغرب اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے اور تنظیمیں بھی کشمیر کے اس عظیم المیے پر کیوں بے حس ہو گئے ہیں؟ہلاکتوں کی خبریں لکھ لکھ کر مزمل جلیل کے آنسو خشک ہو گئے ہیںلیکن اس کی کہانی۔ کشمیر کہانی... پڑھتے ہوئے میری آنکھیں بھیگ گئی ہیں۔