جنابِ خان کا تازہ فرمان ہے ''نواز شریف نے خود کو احتساب کے لیے پیش نہ کیا تو محرم کے بعد اسے حکومت نہیں کرنے دیں گے‘ اب کوئی اور جلسہ نہیں ہو گا‘ اس کے بعد اسلام آباد پہنچیں گے اور اسے بند کر دیں گے‘‘۔ کیا خان کو واقعی علم نہیں کہ خود اس کی دی ہوئی درخواستوں پر احتساب کا عمل شروع ہو چکا ۔ ؟
پانامہ کے حوالے سے نواز شریف کے خلاف پٹیشنز پر سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اعتراضات ختم ہو چکے اور عدالت عظمیٰ نے ان کی کھلی سماعت کا اعلان کر دیا ہے۔ ادھر الیکشن کمشن میں بھی کارروائی کا آغاز ہو چکا ۔یہاں نواز شریف کے علاوہ خود عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف بھی ریفرنس ہیں۔ الیکشن کمشن نے شوکت خانم اور پارٹی فنڈز میں خورد برد کے حوالے سے درخواست کو بھی خان کے خلاف ریفرنس سے نتھی کر دیا ہے جس میں خود اس کی اپنی آف شور کمپنی اور بنی گالہ کے 300کنال کے فارم ہائوس کا معاملہ اٹھایا گیا ہے۔
پانامہ لیکس میں نواز شریف کے بچوں کا نام بھی آیا تو اردو محاورے کے مطابق بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ 2013ء کی دھاندلی کے الزامات خود جوڈیشل کمشن کا فیصلہ آنے کے بعد اپنی موت آپ مر گئے تھے۔ اب پانامہ لیکس نے اس کی احتجاجی سیاست کو نیا ایشو دیدیا تھا۔ شاعر نے کہا تھا ؎
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
خان کے حوالے سے آپ پہلے مصر عے میں محبت کی جگہ'' احتجاجی سیاست ‘‘لگا لیں(شاعر سے معذرت کہ اس سے وزن گر جائے گا) خان کا کہنا تھا۔ آف شور کمپنیاں ناجائز دولت کو کھپانے اور ٹیکس بچانے کے لیے بنائی جاتی ہیں ۔دو تین دن بعد خود اس کی آف شور کمپنی کی خبر آ گئی۔ اب اس کا کہنا تھا' لندن میں یہ میری حق حلال کی کمائی تھی‘ میں فلیٹ خریدنا چاہتا تھا جہاں اس کاروبار پر بھاری ٹیکس ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے میں نے آف شور کمپنی بنا لی۔1982ء میں قائم ہونے والی یہ کمپنی 2014ء تک قائم رہی لیکن الیکشن کمشن میں خان کے اثاثوں کے گوشواروں میں اس کا ذکر تک نہ تھا ۔بنی گالہ کے 300کنال کے فارم ہائوس کے معاملات بھی مشکوک تھے کہ خود جمائما کے بقول یہ خان ہی کی ملکیت تھا۔ لیکن ''بے نامی‘‘ کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے اسے جمائما کے نام کر دیا گیا‘ بعد میں جسے اس نے خان کو'' گفٹ ‘‘کر دیا۔
بات کسی اور طرف نکل گئی۔ ہم کہہ یہ رہے تھے کہ الیکشن کمشن میں نواز شریف کے خلاف ریفرنس پر کارروائی شروع ہو چکی اور ادھر خان دھمکیوں پر اتر آیا ہے۔ کمشن نے آئندہ سماعت کے لیے 10اکتوبر کی تاریخ دی ہے اور خان کا کہنا ہے کہ کمشن نے نئی تاریخ دی تو وہ بھی اپنی طرف سے تاریخ دیدے گا۔ بعض ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ خان کے خلاف ریفرنس کمزور نہیں ...واللہ اعلم بالصواب۔
رائیونڈ ایڈونچر بخیرو خوبی اختتام کو پہنچا ۔خان نے ابتدا میں نواز شریف کے جاتی امراء محلات کے گھیرائو کا اعلان کیا تھا۔ اس کے خلاف پہلی آواز خود بڑے چودھری صاحب کی تھی۔ پھر دیگر جماعتوں کا بھی یہی موقف بن گیا ۔آخر میں خان کے ''سیاسی کزن‘‘نے بھی یہ کہتے ہوئے اس ایڈونچر سے اعلان لاتعلقی کر دیا کہ وہ بدترین سیاسی مخالف کے گھر کے باہر بھی مظاہرے کو اخلاقاً درست نہیں سمجھتے بلکہ انہوں نے تو اس طرف جانے والے راستے پر احتجاج کو بھی ناروا قرار دیدیا تھا حالانکہ وہ 3ستمبر کی شب راولپنڈی کے جلسے میں اپنے کارکنوں سے جاتی امرا کے باہر احتجاج کا'' مینڈیٹ‘‘ حاصل کر چکے تھے۔ اب کسی بھی وجہ سے علامہ صاحب کو اخلاقی تقاضے یاد آ گئے تھے تو (سرکاری ترجمانوں کی طرف سے) انہیں چڑانے کی بجائے‘ اس کا خیر مقدم ہی کیا جانا چاہیے تھا۔
بالآخر خان نے جاتی امرا سے دستبرداری اور اس سے پانچ کلو میٹر اِدھر اڈہ پلاٹ کو اپنی تگ و تاز کا مرکز بنانے کا اعلان کر دیا ۔ہندوستان کے جارحانہ رویے اور جنگ جیسے ماحول کے بعد یہ توقع بے جا نہ تھی کہ خان اس پروگرام کو ملتوی کر دے گا لیکن وہ اپنی دھن کا پکا نکلا۔ البتہ اب اس نے ''مودی کے یار‘‘ کے ساتھ خود مودی کو بھی سخت ترین پیغام دینے کا اعلان کر دیا تھا۔
کچھ عرصے سے خان کی ریلیاں اور جلسے جلوس رش نہیں لے رہے تھے۔ بڑے دھوم دھڑکّے کے ساتھ 3ستمبر کا لاہور میں شاہدرہ سے چیئرنگ کراس تک مظاہرہ بھی رنگ نہیں جما سکا تھا اور اب 30ستمبر کا چیلنج درپیش تھا جس کے لیے خان نے پورے ملک سے تحریک انصاف کی فورس کو لاہور پہنچنے کا حکم دیدیا تھا۔ اِدھر لاہور کو متحرک کرنے کے لیے تین چار روز پہلے ہی یہاں ڈیرہ ڈال لیا ۔29ستمبر کی شام اس نے شہر کا دورہ کیا اور لاہوریوں کا خون گرمانے کے لیے درجن بھر سے زائد مقامات پر پُرجوش خطاب بھی کیا۔
30ستمبر کی شام اڈہ پلاٹ پر کتنے لوگ تھے؟ یہ بحث بے معنی ہے کہ ایسے جلسے جلوس اب پیسے کا کھیل بن گئے ہیں۔ ملک بھر سے لوگوں کو لانے کے لیے پیسہ چاہیے۔ (لاہور دیکھنے اور مفت میں دیکھنے کا شوق کسے نہیں ہو گا) دس گیارہ لاکھ کا کپتان کا دعویٰ تو مضحکہ خیز تھا‘ لیکن رانا ثناء اللہ نے بھی دس پندرہ ہزار کہہ کر کنجوسی کا مظاہرہ کیا۔ اسے پچیس تیس یا چالیس پچاس ہزار... بھی کہہ لیں لیکن اس میں خود لاہور والوں کی شرکت کتنی تھی؟ سچ بات یہ ہے کہ شہر میں اس کی کوئی دھمک ہمیں تو محسوس نہیں ہوئی۔ لاہور کے باہر سے اپنے اپنے لوگوں کو لانے کی ذمہ داری وہاں کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی تھی۔ آئندہ انتخابات میں ٹکٹ کے امیدواروں کو بھی اپنی طاقت کے مظاہرے کا کہہ دیا گیا تھا۔ ظاہر ہے اس کے لیے اخراجات بھی انہوں نے اپنے پلے سے ادا کرنا تھے۔ ادھر لاہور میں یہ بارگراں خان کی دو ''اے ٹی ایم‘‘ مشینوں پر تھا۔ سلیم صافی کے بقول ‘ساڑھے تین کروڑ جہانگیر ترین اور ڈیڑھ کروڑ علیم خاں نے دیئے ۔چودھری سرور صرف پچاس لاکھ روپے ہی نکال پائے۔
خان کی ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر میں مودی پر کتنا وقت صرف ہوا‘ یہ پانچ سات منٹ سے زیادہ کیا ہو گا؟ اس میں بھی تأثر یہ تھا کہ مودی اپنے پاکستان مخالف بیانات اور جارحانہ اقدامات کے حوالے سے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے دبائو میں ہے البتہ وزیر اعظم پاکستان کی یو این جنرل اسمبلی میں حالیہ تقریر کے حوالے سے جنابِ خان اور مودی کسی حد تک ''ایک ہی صفحے‘‘پر نظر آئے۔ خان کے بقول‘'' نواز شریف نے جنرل اسمبلی کی تقریر میں کشمیر پر بڑی زبردست باتیں کیں۔ میں اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔ مجھے لگ رہا تھاکہ یہ تقریر اس کے دل سے نہیں نکل رہی ‘وہ مجبوری میں کر رہا تھا۔ ادھر مودی بھی یہی کہہ رہا ہے کہ نواز شریف وہ تقریر نہیں کرنا چاہتا تھا ۔اس سے زبردستی کرائی گئی اور راحیل شریف نے کرائی۔ مودی تو یہی کہے گا کہ کشمیر پر پاکستان کا مقدمہ یہاں کے 20کروڑ عوام کے منتخب وزیر اعظم کا مقدمہ نہیں بلکہ فوج ہے جو اسے مجبور کر رہی ہے یہ نواز شریف کے نہیں ‘پاک فوج اور اس کے سپہ سالار کے خلاف ''مقدمہ‘‘ ہے جو مودی بنانا چاہتا ہے۔ حیرت ہے کپتان سمیت پاکستان کے بعض ریٹائرڈ عسکری اور میڈیائی دانشور بھی اسی سے ملتی جلتی بات کہتے ہیں‘ ''مسئلہ کشمیر ‘ پاک بھارت معاملات اور افغانستان سے تعلقات سمیت تمام اہم اور حساس مسائل پر‘ فوج ہے جو منتخب سول حکومت کو ڈکٹیٹ کرتی ہے لیکن کیا یہ پاک فوج کے لیے کوئی اچھا سرٹیفکیٹ ہے؟
یہاں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی پُرجوش تقریر کا ذکر بھی ضروری ہے ۔دھان پان سا آدمی کس طرح آپے سے باہر ہوا جا رہا تھا جسے یہ کہنے میں کوئی باک نہ تھا کہ موجودہ کرپٹ اور ڈاکو حکومت سے نجات کے لیے اسے گندی حکومت بھی قبول ہو گی ‘اس کے لیے اسے مارشل لاء کو قبول کرنے میں بھی کوئی عار نہ تھی۔ امپائر کی انگلی والی کپتان کی بات تو پرانی ہو چکی ‘ابھی اڑھائی ماہ قبل ترکی میں (عوام کی مزاحمت کے نتیجے میں ) ناکام بغاوت پر اس کا تبصرہ تھا‘ پاکستان میں فوج آئی تو عوام مٹھائیاں بانٹیں گے۔ اب اس کا وزیر اعلیٰ کسی لاگ لپیٹ کے بغیر مارشل لاء کو آواز دے رہا تھا ۔اس پر خان کی خاموشی کو کیا نام دیا جائے؟