"RTC" (space) message & send to 7575

تاریخ کے کٹہرے میں…!

عمران اسماعیل بھی یہ اعتراف کئے بغیر نہ رہے کہ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا‘ خان کی زیرِ صدارت کور کمیٹی کے اجلاس میں جس پر گرما گرم بحث ہوئی۔ تین گھنٹے کی اس میٹنگ میں ''ہائوس‘‘ منقسم تھا۔ اندرونی ذرائع کے مطابق اسد عمر سمیت عوامی نمائندگی کے حامل (الیکٹڈ حضرات)کی اکثریت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی پُرجوش حامی تھی جبکہ نان الیکٹڈ حضرات بائیکاٹ کی حمایت کر رہے تھے‘ خان کی اپنی رائے بھی یہی تھی۔ ایک دو مواقع پر تو اس نے تحکمانہ انداز میں اس پر اصرار بھی کیا۔ بعض ذرائع کے مطابق جنابِ چیئرمین بالآخر ''ویٹو‘‘ کا حق بروئے کار لائے‘ اگرچہ عمران اسماعیل اس سے اختلاف کرتے ہیں ‘ان کے بقول فیصلہ ''شو آف ہینڈز‘‘ کے ذریعے ہوا۔ اکثریت نے بائیکاٹ کے حق میں رائے دیدی تھی۔ یہ بلاشبہ مشکل فیصلہ تھا کہ نہ صرف کور کمیٹی میں اصحاب الرائے ارکان کی بڑی تعداد آخر وقت تک اس پر مطمئن نہ تھی‘ بلکہ پارٹی میں نچلی سطح پر بھی کارکنوں کو مطمئن کرنا مشکل ہو گا۔ الیکٹرانک میڈیا میں بڑی تعداد خان سے ہمدردی ہی نہیں‘ حکومت (اور خصوصاً وزیر اعظم نواز شریف) کے خلاف معاندانہ اور جارحانہ جذبات بھی رکھتی ہے‘ جس کے اظہار میں اسے کوئی تامل نہیں ہوتا۔لیکن اس کے لیے بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کی حمایت مشکل ہو گی۔ پیپلز پارٹی فرینڈلی اپوزیشن سہی‘ لیکن کے پی کے میں خان کی حلیف جماعت اسلامی بھی اس فیصلے سے متفق نہیں۔
خان کا کہنا ہے‘ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کا مطلب نواز شریف کو وزیر اعظم تسلیم کرنا ہو گا۔ قمر زمان کائرہ کے بقول صرف دو روز قبل نواز شریف کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں تحریکِ انصاف موجود تھی (خان نے اس روز نتھیا گلی میں دوستوں کے ساتھ سیرو تفریح اور سیلفیاں بنانا زیادہ ضروری سمجھا ۔وزیر اعظم ہائوس کے اس اجلاس میں تحریک انصاف کی نمائندگی کے لیے شاہ محمود قرشی اور شیریں مزاری صاحبہ تشریف لائیں۔)
لیاقت بلوچ نے الگ نکتہ اٹھایا‘ '' پارلیمانی پارٹیوں کی میٹنگ وزیر اعظم نے بلائی تھی‘ اس میں تو تحریک انصاف شریک ہوئی‘ لیکن پارلیمنٹ کا جو مشترکہ اجلاس خوداپوزیشن نے بلایا ‘اس میں شرکت سے انکاری ہو گئی‘‘۔ اسی دوران نیشنل سکیورٹی کے حوالے سے منعقدہ سیاسی و عسکری قیادت کے اجلاس میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بھی شریک ہوئے‘ جو تین روز قبل رائے ونڈ کے جلسے میں موجودہ جمہوریت پر لعنت بھیجتے ہوئے‘ اس کی جگہ مارشل لاء کو قبول کرنے اور وزیر اعظم کا جنازہ اٹھانے کا اعلان کر چکے تھے۔
خان کی سیاست تضادات( اور ''یوٹرنز‘‘) کی سیاست رہی ہے۔ تفصیل میں جانے کا محل نہیں‘ 2014ء کی دھرنا بغاوت کے دوران خان کے اعلانات ہی کو یاد کرلیں۔ تب ان کا کہنا تھا‘ وہ وزیر اعظم کا استعفٰے لیے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ انہوں نے مختلف سرکاری ٹیکس... بجلی‘ گیس اور پانی کے بل ادا نہ کرنے کی اپیل کی‘ بیرون ملک سے رقوم بنکوں کے بجائے ہنڈی سے بھجوانے پر زور دیا۔
خان کا ''سیاسی کزن‘‘70روز بعد یہ کہہ کر ڈی چوک سے رخصت ہو گیا تھاکہ اللہ تعالیٰ کو ابھی نواز شریف حکومت کا خاتمہ منظور نہیں‘ لیکن خان نے دھرنا جاری رکھا(یہ دلچسپ دھرنا تھا‘ جو شام کو شروع ہوتا‘ ورائٹی پروگرام اور خان کے پُرجوش خطاب کے ساتھ نصف شب تک جاری رہتا اور اگلی شام دوبارہ آنے کے لیے گھر کی راہ لیتا۔) خان کے حقیقی کزن(اور سابق ''اتالیق‘‘) حفیظ اللہ نیازی کے بقول خان اپنے ہی اعلانات کا اسیر ہو کر رہ گیا تھا۔ اس صورتِ حال سے نکلنے کے لیے اس کے پاس کوئی ''ایگزٹ پلان‘‘ نہ تھا۔ بالآخر آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحہ نے خان کو بوریا بستر لپیٹنے کا جواز فراہم کر دیا۔ تب خان نے سیاسی مہم جوئی کے لیے دھاندلی کو جواز بنایا تھا‘ اب اس کے ہاتھ میں ''پاناما‘‘ کا عَلَم ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ نواز شریف خود کو احتساب کے لیے پیش کرے یا مستعفی ہو جائے۔ ادھر سپریم کورٹ اور الیکشن کمشن میں پاناما کے حوالے سے پٹیشنز پر کارروائی کا آغاز ہو چکا۔ اس کے بعد نواز شریف خود کو احتساب کے لیے کہاں پیش کرے؟ کیا بنی گالہ میں جا کر‘ سینے پر ہاتھ باندھ کر‘ خان کے حضور حاضر ہو جائے۔ لیکن نواز شریف ایک بار تو بنی گالہ میں حاضر ی دے چکے‘12مارچ 2014ء کی شام‘ جب وزیر اعظم نواز شریف خود خان کی دعوت پر بنی گالہ فارم ہائوس گئے تھے۔ عموماً کفایت سے کام لینے والے خان نے اس روز معزز مہمان کے لیے خاصے تکلفات کا اہتمام کیا تھا۔ انہوں نے دروازے پر آ کر‘ پختون روایات کے مطابق بڑے ادب و احترام سے مہمان کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے اپنی کور کمیٹی کے اہم ارکان کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔ ملاقات کا ماحول بے تکلفانہ تھا۔ نواز شریف اپنے ملازمین کو بھی عموماً جمع کے صیغے میں مخاطب کرتے ہیںلیکن اپنے میزبان کے ساتھ وہ ''تو‘‘ اور ''تم‘‘ کے ساتھ مخاطب تھے۔جیسے جم خانہ میں کرکٹ کے دنوں کی بے تکلفی لوٹ آئی ہو۔خان نے پشاوری چپل پہن رکھی تھی۔ نواز شریف نے ہنستے ہوئے پوچھا‘ یہ طالبان نے تحفے میں دی؟ پھرچند ہی ہفتوں بعد خان تلوار سونت کر میدان میں آ گیا۔
اب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ ہے‘جو اس لیے مشکل ہے کہ یہ اجلاس ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب پاکستان ایک بار پھر تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ یہ کشمیر کے تازہ انتفاضہ (اور اس پر بھارت کے وحشیانہ مظالم) اور اِدھر لائن آف کنٹرول اور پاک‘ بھارت سرحد پر کشیدگی اور مودی کے جارحانہ عزائم پر اہلِ پاکستان کے جذبوں اور ولولوں کے اظہار کا معاملہ ہے۔ لیکن خان نے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ واقعی ایک مشکل فیصلہ ہے‘ خان نے خود کو تاریخ کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔ اور تاریخ کا فیصلہ موٹے موٹے الفاظ میں دیوار پر لکھا جا چکا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں