سامعین و حاضرین سامنے ہوں‘ تب اس کی گرمیٔ گفتار دیکھنے اور سننے کے لائق ہوتی ہے۔ بات سے بات نکالنا کوئی اس سے سیکھے۔ دوسوں میں سے کوئی ہم سابے تکلف بسیارگوئی کا احساس دلائے تو ''آئندہ را احتیاط‘‘ کی یقین دہانی کراتے ہوئے‘ ہنس کے ٹال دیتا ہے۔
لیکن اُس شام چند الفاظ بولنا بھی اس کے لیے محال ہو گیا تھا۔ نمازِ جنازہ کے بعد‘ میّت کے ورثاء میں سے کوئی ایک‘ شرکائے جنازہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اعلان کرتا ہے:''مرحوم سے کسی نے کچھ لینا ہو‘ اس کی طرف کوئی قرض واجب الادا ہو‘ تو بتا دے(چاہے تو اللہ کے لیے معاف کردے۔)'' صدیق الفاروق نے خود کو سنبھالا اور کہنا شروع کیا:''حضرات!کسی نے علی الفاروق سے...‘‘ اس کے بعد سسکیاں تھیں‘ بات ادھوری رہ گئی تھی۔ جوان بیٹے کا جنازہ ‘ اس کا لاشہ اٹھانا آسان تو نہیں ہوتا۔ بڑے مضبوط حوصلے اور فولادی اعصاب والے بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ گزشتہ شب ایک ٹی وی چینل پر محرم کی مجلس برپا تھی۔ ذاکر بتا رہا تھا حضرت حُر میدانِ کربلا میں لشکر یزید کو چھوڑ کر امامؓ کے ساتھ آ ملے تو اپنے صاحبزادے علی بن حُر کو صفِ دشمناںکی طرف روانہ کیا ۔بے پناہ جرأت اورشجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ آخر دشمنوں کی زد میں آ گیا۔ حُر نے بیٹے کو گرتے دیکھا تو اس کی طرف بھاگے لیکن امامؓ ان سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے کہ جوان بیٹے کا لاشہ اٹھانے میں حُر کی مدد کریں۔ جوان بیٹے کا لاشہ اٹھانا آسان تو نہیں ہوتا۔
صدیق الفاروق کی فیملی بنی گالہ میں (کرائے کے مکان) میں رہائش پذیر ہے عمران خان کے 300کنال کے فارم ہائوس کے حوالے سے بنی گالہ کے متعلق دھیان جدید سہولتوں سے آراستہ کسی ہائوسنگ سکیم کی طرف جاتا ہے۔ خان کا محل دُور پہاڑی پر واقع ہے۔ بنی گالہ ایک گائوں ہے۔ تنگ اور آڑی ترچھی سڑکیں‘ کسی ٹائون پلاننگ کا نام و نشان تک نہیں۔ البتہ بیشتر مکان‘ مکینوں کی خوش حالی کا پتا دیتے ہیں۔ عمران خان کے فارم ہائوس کی طرف جانے والی سڑک بھی خستہ حال ہوتی تھی۔12مارچ2014ء کو وزیر اعظم نواز شریف‘ خان کی دعوت پر یہاں آئے‘ جس کے بعد اس سڑک کی بھی سنی گئی‘ اب یہ موٹر وے کو بھی شرماتی ہے۔
صدیق الفاروق اکتوبر2014ء میں متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین بن کرلاہور شفٹ ہوئے ‘یہاں نہر کنارے زمان پارک میں (عمران کے آبائی گھر سے پیدل مسافت پر) 8کنال کا ایک بنگلہ چیئرمین صاحب کے لیے موجود تھا ۔اتنا بڑا گھر اس کی ضرورت سے بہت زیادہ تھا کہ اس نے اپنی فیملی کو یہاں منتقل نہیں کرنا تھا۔ اس نے سوچا کیوں نہ اس بنگلے کو کرائے پر اٹھا کربورڈ کے لیے تین‘ چار لاکھ روپے ماہانہ آمدنی کااہتمام کر دیا جائے ‘اس کے لیے دس بارہ مرلے کا معقول سا گھر کافی ہو گا۔ لیکن یہ چیئرمین کے لیے Designated Houseتھا جسے کرائے پر نہیں دیاجا سکتا ۔اب یہ بنگلہ اپنے وسیع و عریض لان کے ساتھ ہندو اور سکھ یاتریوں کی خاطر تواضع اوران کے لیے برپا کئے جانے والے عشائیوں کے کام بھی آتا ہے۔
صدیق الفاروق کے 28سالہ صاحبزادے علی الفاروق نے یہاں ایک کمرہ اپنے لیے لے لیا تھا ۔وہ لاہور میں ملازمت کرتا تھا اور اس کی اہلیہ دو بچیوں کے ساتھ بنی گالہ میں باقی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔
آج کے نوجوانوں کی طرح باڈی بلڈنگ کے شوقین علی نے بھی جم جوائن کر لیا تھا۔ یہ نوجوان فوڈ سپلیمنٹس بھی لیتے ہیں جن میں سٹیرائڈ بھی ہوتا ہے۔ ان کا استعمال بہت احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ اچھے سنٹرز میں ٹرینر اور نیوٹریشن اس کی باقاعدہ مقدار اوردورانیہ متعین کرتے ہیں لیکن دیگر شعبوں کی طرح یہاں بھی اکثر و بیشتر اللہ توکل چلتا ہے۔28سالہ علی الفاروق بھی اسی بے احتیاطی اور لاپروائی کا شکار ہو گیا تھا ۔وہ خلاف معمول دیرتک اپنے بیڈ روم سے باہر نہ آیا‘ دروازہ توڑکردیکھا تو وہ بے حس و حرکت پڑا تھا۔ ہسپتال میں ڈاکٹر نے بتایا‘ وہ سوتے میں کسی لمحے آخرت کے سفر پر روانہ ہو گیا تھا۔
شامی صاحب اورعمر کے ساتھ میں نے بھی بنی گالہ کا قصد کیا کہ غمزدہ صدیق الفاروق کے ساتھ دوستانہ کم و بیش چار عشروں پر محیط ہے۔ وہ زندگی کے سب سے بڑے المیے سے دوچار تھا تو غم گساری کے لیے اس کی لاہور واپسی کا انتظارکرنے کی بجائے بنی گالہ جانا لازم ٹھہرا۔ چودھری نثار علی خان بھی تعزیت کے لیے آئے تھے ۔وہاں بھی وہی بات چل نکلی۔ آخر باڈی بلڈنگ کے ان مراکز کو قواعد و ضوابط کا پابند کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس کی بھی کیا ضمانت کہ یہ فوڈ سپلیمنٹس کتنے اصلی اور کتنے جعلی ہوتے ہیں۔ یہاں تو زندگی بچانے والی(لائف سیونگ) ادویات تک خالص دستیاب نہیں ہوتیں۔ علی الفاروق اس بے احتیاطی کا پہلا شکار نہیں تھا۔ اسلام آبادمیں بھی متعدد نوجوان اس سانحہ سے دوچار ہو چکے۔
راستے میں صدیق الفاروق کا ذکرہوتا رہا۔ اس کی بہادری ‘ اس کی ایمانداری اوراس کی وفا شعاری کا ذکر ۔میاں صاحب کے دوسرے دور میں وہ کچھ عرصہ ان کے پریس سیکرٹری رہے۔ پھر ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے چیئرمین ہو گئے اور اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا‘ رشوت اور کمیشن خوری کا نام و نشان مٹا دیا‘ بے گھر اور بے در لوگوں کے لیے اپنی چھت کا اہتمام آسان تر بنا دیا۔ کراچی کے بھتہ خور اپنے''حصے‘‘ کے لیے دھمکیوں پر اتر آئے لیکن یہاں ان کا واسطہ ایسے شخص سے تھا جو سر ہتھیلی پر رکھے ہوئے تھا ؎
جس کو ہو جان و دل عزیز
اس کی گلی میں جائے کیوں
12اکتوبر1999ء کے دوروز بعد اسے بھی گرفتار کر لیاگیا ۔میاں صاحب(اورحسین نواز) تومہینے بھر کی ''گمشدگی‘‘ کے بعد منظر عام پر آ گئے تھے‘ صدیق الفاروق کی گمشدگی کا عرصہ سات ماہ پر محیط تھا۔ ہماری فہمیدہ بھابی سپریم کورٹ تک جا پہنچیں تو سرکاری وکیل نے بتایا کہ فوجی قیادت صدیق الفاروق کی نقل و حرکت کو خطرہ سمجھتی تھی۔ انہیں گرفتار کر لیا گیا‘ جس کے بعد یاد ہی نہ رہا کہ اس نام کا کوئی بندہ بھی کہیں زیر حراست ہے۔ تب جسٹس شیخ ریاض احمد یہ کہے بغیر نہ رہے کہ اللہ کا شکر ہے‘ نظر بند زندہ سلامت ہے۔
متروکہ وقف املاک بورڈ میں بھی اصلاح احوال کے لیے اس کے جنون کا وہی عالم ہے۔ ننکانہ صاحب دنیا بھر کی سکھ برادری کے لیے مقدس ترین شہر ہے۔ یہاں متروکہ وقف املاک بورڈ کی ہزاروں ایکڑ اراضی پر ناجائز قبضہ ہے۔ سینکڑوں مکان تجاوزات کے زمرے میں آتے ہیں۔ صدیق الفاروق نے ننکانہ صاحب کی ٹائون پلاننگ اور یہاں انٹرنیشنل یونیورسٹی سمیت متعدد منصوبوں کا فیصلہ کیا۔ تجاوزات کے خاتمہ مہم میں وہ خود ننکانہ جا پہنچا تو یہاں اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔ مزاحمت کرنے والوں میں مقامی مسلم لیگی بھی تھے۔ اس کی گاڑی بھی حملے کی زد میں تھی۔ تب لائسنس یافتہ پستول کام آیا‘ جو صدیق الفاروق (اس کے بقول سوتے میں بھی) ساتھ رکھتا ہے۔
علی الفاروق کی جوان موت نے‘ یوں لگا اس کی کمر توڑ دی ہے۔ جو ان بچوں کی موت والدین کی کمر توڑہی دیتی ہے۔ کتنا مشکل ہوتا ہے‘ایسے میں غم زدہ والدین کو صبر کی تلقین کرنا...
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا!