پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے سینئر ججوں کو نظر انداز کر کے‘ سنیارٹی میں چوتھے نمبر کے جج کو چیف جسٹس آف پاکستان بنا دیا اور جناب سید سجاد علی شاہ نے اپنے لیے یہ منصب قبول بھی کر لیا تھا۔ وزیر اعظم صاحبہ کی ناراضی قائم مقام چیف جسٹس سعد سعود جان سے تھی۔ انہوں نے ان کی جگہ جناب جسٹس عبدالقدیر کو چیف جسٹس بننے کی پیشکش کی۔ ان کے انکار پر یہ پیشکش جسٹس اجمل میاں کے لیے تھی۔ انہوں نے بھی سنیارٹی کے اصول کے خلاف یہ منصب قبول کرنے سے معذرت کر لی، لیکن جناب سجاد علی شاہ کو اپنے تین سینئرز کے کندھوں کو پھلانگتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے منصب پر جا بیٹھنے میں کوئی حجاب نہ تھا۔ (تہجد گزار صدر لغاری کو بھی اس بے اصولی کی توثیق میں کوئی عار نہ تھی)ان دنوں جناب ایس ایم ظفر نے ایک انٹرویو میں ہمیں دو دلچسپ واقعات بتائے: 1965ء میں جب وہ فیلڈ مارشل ایوب خاں کی حکومت میں وفاقی وزیر قانون تھے‘ نئے چیف جسٹس کے تقرر کے لیے جناب اے آر کارنیلیس کے تقرر کا معاملہ آیا تو بعض حلقوں کی طرف سے اعتراض وارد ہوا کہ ایک غیر مسلم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قاضی القفاۃ کے منصب پر کس طرح فائز ہو سکتا ہے‘ وزارتِ قانون نے صدر کے نام اپنی سمری میں اس ''دلیل‘‘ کو اس بنا پر مسترد کر دیا کہ سنیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی کوئی پسندیدہ بات نہیں ہو گی‘ اور یہ بھی کہ ایک جج کو چاہے وہ چیف جسٹس ہی ہو‘ فیصلے ملکی آئین و قانون ہی کے مطابق کرنا ہوتے ہیں۔ ایوب خاں نے اسے قبول کرتے ہوئے جناب کارنیلیس کو چیف جسٹس بنا دیا۔ ظفر صاحب نے یہاں جناب کارنیلیس کی عظمتِ کردار کی ایک اور بات بھی بتائی‘ ان کی ریٹائرمنٹ پر جناب ایس اے رحمن کو اس منصب پر فائز ہونا تھا۔ جناب کارنیلیس اپنی مدت پوری کرتے تو ان کے جانشین کو صرف چند ماہ ملتے چنانچہ وہ یہ لکھ کر تین ماہ پہلے ہی رخصت پر چلے گئے کہ اس طرح ان کے بعد سینئر جج کو چیف جسٹس کے عہدے پر کچھ زیادہ عرصہ مل جائے گا۔ جناب وہاب الخیری (مرحوم) کے الجہاد ٹرسٹ کی پٹیشن پر چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی زیر قیادت سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کے لیے سنیارٹی کا اصول طے کر دیا(مارچ1996ء کا ججز کیس) لیکن شاہ صاحب نے خود کو اس اصول سے مستثنیٰ کر لیا تھا۔
چیف جسٹس کی ضد اور انا نے ملک کی سب سے بڑی عدالت کو وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کے مقابل لا کھڑا کیا تھا(ظاہر ہے‘ اس میں جناب فاروق لغاری کے ایوانِ صدر کی پشت پناہی بھی انہیں حاصل تھی) سپریم کورٹ کے ججوں کے لیے اپنے چیف کی یہ روش باعثِ تشویش تھی‘ جس نے ملک کے آئینی نظام کو سخت خطرے سے دوچار کر دیا تھا۔ انہوں نے اس پر صلاح مشورے کے لیے فل کورٹ میٹنگ کے لیے ریکوزیشن دے دی۔ جناب چیف جسٹس نے فل کورٹ میٹنگ بلا کر اپنے ''برادر ججوں‘‘ کو اعتماد میں لینے‘ ان کی سننے اور اپنی سنانے کی بجائے نہ صرف یہ ریکوزیشن مسترد کر دی بلکہ ان سب کو اسلام آباد کی پرنسپل سیٹ سے ہٹا کر لاہور‘ پشاور‘ کوئٹہ اورکراچی پہنچا دیا۔ جناب چیف جسٹس کی طرف سے یہ اپنے ادارے کی داخلی یکجہتی پر ضرب کاری تھی۔ تب حالات نیا رخ اختیار کرنے لگے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس ارشاد حسن خاں‘ جسٹس ناصر اسلم زاہد اور جسٹس خلیل الرحمن پر مشتمل کوئٹہ بنچ نے جناب سجاد علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تقرری کے خلاف آئینی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے‘ چیف جسٹس کے طور پر ان کی تقرری کا نوٹیفکیشن معطل اور انہیں بطور جج بھی اپنے فرائض کی ادائیگی سے روک دیا۔ سجادعلی شاہ نے یہ فیصلہ غیر قانونی قرار دیتے ہوئے رجسٹرار کوئٹہ بنچ کو ہدایت کر دی کہ کوئٹہ بنچ کے ججوں کے سامنے کوئی مقدمہ پیش نہ کیا جائے۔ کوئٹہ بنچ نے اس حکم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے‘ کالعدم قرار دیدیا اورسجاد علی شاہ کی تقرری کے خلاف سماعت جاری رکھی۔ وفاقی حکومت نے کوئٹہ بنچ کے فیصلے کی روشنی میں سینئر موسٹ جج اجمل میاں کو قائم مقام چیف جسٹس بنانے کی سمری ایوانِ صدر ارسال کر
دی‘ جسے صدر نے دستخط کیے بغیر واپس بھجوا دیا۔ ادھر چودھری فضل حسین ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ کراچی بنچ میں درخواست دائر کر دی کہ وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کیس میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ خود فریق ہیں اس لیے وہ اس کی سماعت کا اختیار نہیں رکھتے۔ جسٹس اجمل میاں نے حکم دیا کہ یہ معاملہ فل بنچ کے سامنے لایا جائے۔ادھر جسٹس سعید الزماں صدیقی اور جسٹس فضل الٰہی خاں پر مشتمل سپریم کورٹ کے پشاور بنچ نے اخوند بہرہ ور کی درخواست کی سماعت کے بعد6صفحات پر مشتمل فیصلہ سنا دیا کہ کوئٹہ بنچ کے حکم کی روشنی میں سجاد علی شاہ اب اپنے عدالتی اور انتظامی امور انجام نہیں دے سکیں گے اور یہ بھی کہ چیف جسٹس خود فریق ہیں‘ وہ کوئٹہ بنچ کا فیصلہ کس طرح معطل کر سکتے ہیں؟انہی دنوں سپریم کورٹ میں ہنگامے کا افسوسناک واقعہ بھی پیش آیا‘ جب (متنازعہ) چیف جسٹس وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کر رہے تھے۔ اس واقعہ کے بعد سجاد علی شاہ نے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کے نام خط میں اپنے تحفظ کے لیے فوجی دستہ بھجوانے کا لکھا‘ آرمی چیف نے یہ خط وزارتِ دفاع کو ارسال کر دیا(کہ جی ایچ کیو وزارتِ دفاع کے ماتحت ادارہ ہے) عدلیہ کو اس بحران سے نکالنے کے لیے وکلاء برادری بھی سرگرم ہو ئی۔ سپریم کورٹ بار نے ججوں سے ملاقات میں تجویز پیش کی کہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ حکومت(اور وزیر اعظم) کے خلاف مقدمات کی سماعت خود نہ کریں یا رخصت پر چلے جائیں۔ سجاد علی شاہ نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا‘ تصفیے کی کوششیں ناکام ہو گئیں اور بحران سنگین تر ہو گیا۔
اسی دوران سجاد علی شاہ نے آئین میں تیرھویں ترمیم کے خلاف درخواست کی سماعت بھی شروع کر دی تھی۔ ضیاء الحق دور کی 8ویں ترمیم کے صدارتی اختیارات ختم کرنے والی یہ ترمیم بھی میاں صاحب کے دوسرے دور میں اتفاق رائے سے منظور ہوئی تھی۔ سجاد علی شاہ تباہی کے راستے پر گامزن تھے۔2دسمبر کی صبح وہ گھر سے فیصلہ لکھ کر لائے‘ جسے کمرۂ عدالت میں پڑھ کر سنا دیا۔ اسمبلی توڑنے کا صدارتی اختیار بحال کر دیا گیا تھا۔ ساتھ والے کمرۂ عدالت میں جسٹس سعید الزماں صدیقی کی سربراہی میں دس ججوں پر مشتمل فل کورٹ آئینی درخواستوں کی سماعت کر رہا تھا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل میاں طارق بھاگم بھاگ وہاں پہنچے اور اٹارنی جنرل کو جسٹس سجاد علی شاہ کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کو اطلاع دی جس نے سجاد علی شاہ کا فیصلہ معطل کر دیا۔اس سوال پر کہ اس ''مہلت‘‘ کے دوران آپ نے وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کی برطرفی کا اختیار استعمال کیوں نہ کیا؟ لغاری صاحب کا جواب تھا کہ انہیں بریگیڈIIIکا تعاون حاصل نہ تھا‘ فوج کی حمایت کے بغیر وہ یہ ''کارِخیر‘‘ کیسے انجام دے سکتے تھے؟کھیل ایوانِ صدر اور سجاد علی شاہ کے ہاتھوں سے نکل گیا تھا۔ فاروق لغاری مستعفی ہو گئے۔ سجاد علی شاہ کے لیے بھی روانگی کے سوا کوئی چارۂ کار نہ رہا۔ چیئرمین سینٹ وسیم سجاد نے قائم مقام صدر مملکت کا منصب سنبھال لیا۔ اگلے روز سینئر موسٹ جج جناب اجمل میاں نے قائم مقام جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ اس سارے عرصے میں انہوں نے خود کو اس بحران سے الگ رکھا تھا۔
جناب سعید الزماں صدیقی کے لیے آزمائش کی ایک اور گھڑی آن پہنچی۔ اب وہ چیف جسٹس تھے اور منتخب وزیر اعظم کی برطرفی کی (12اکتوبر1999ء کی) فوجی کارروائی کے خلاف پٹیشنز کو سماعت کے لیے انہوں نے منظور کر لیا تھا۔ تب ڈکٹیٹر کو اندیشوں نے آ لیا۔ اپنے تحفظ کے لیے اس نے پی سی او لانے کا فیصلہ کیا‘ چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی اور پانچ ججوں‘ جسٹس ناصر اسلم زاہد‘ جسٹس خلیل الرحمن‘ جسٹس وجیہہ الدین‘ جسٹس مامون قاضی اور جسٹس کمال منصور عالم نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے 2‘سندھ ہائی کورٹ کے 3اور سرحد ہائی کورٹ کے 2ججوں نے بھی آئین کی بالادستی کی اسی راہ کا انتخاب کیا۔
ڈکٹیٹر کے پی سی او سے انکار کی روایت کا آغاز چیف جسٹس انوار الحق نے کیا تھا۔ وہ سپریم کورٹ کے ان چار ججوں میں تھے جنہوں نے بھٹو کی پھانسی کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل مسترد کر دی تھی۔ ضیاء الحق نے 1981ء کے اوائل میں پی سی او نافذ کیا تو چیف جسٹس ڈٹ گئے اور اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ دلچسپ بات یہ کہ بھٹو کی اپیل میں جسٹس دراب پٹیل کی رائے چیف جسٹس سے مختلف تھی۔ بھٹو کی پھانسی کے فیصلے سے اختلاف کرنے والے جسٹس حلیم پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر چیف جسٹس بن گئے۔ جنرل ضیاء الحق کے باقی ماندہ ساڑھے سات سال کے علاوہ بے نظیر صاحبہ کے پہلے دور میں بھی وہی چیف جسٹس تھے۔ پی سی او کے تحت حلف سے انکار کی اسی روایت پر 3نومبر 2007کو چیف جسٹس افتخار چودھری اور ان کے رفقا نے بھی عمل کیا ۔ اب ملک بھر میں اعلیٰ عدلیہ کے 60جج تھے ‘ جنہوں نے ڈکٹیٹر کے سامنے سرنگوں ہونے سے انکار کر دیا تھا‘ لیکن اس بار معاملہ یوں مختلف تھا کہ انہوں نے پی سی او کے تحت نئے ججوں کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ ان کا اصرار تھا کہ اصل جج وہی ہیں‘ اس کے لیے وہ طویل نظر بندی کے عذاب سے بھی گزرے اور بالآخر نواز شریف کی زیر قیادت ایک عظیم الشان لانگ مارچ کے نتیجے میں واپس آ گئے۔(ختم )