یہ محض ایک تجویز تھی‘ کوئی فیصلہ نہ تھا اور اس پر عملدرآمد بھی رضا کارانہ‘ کہ اس حوالے سے کوئی پابندی نہ تھی۔ لیکن میڈیا میں وہ ہاہا کار مچی کہ خدا کی پناہ۔ جیسے آسمان ٹوٹ پڑا ہو۔ بچیوں کو حجاب کی طرف راغب کرنے کے لیے تجویز تھی کہ ان میں سے جس کی حاضریاں 65فیصد سے کم ہوں گی‘ اسے 5فیصد اضافی حاضریوں کی سہولت دیدی جائے گی۔ پنجاب کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر سید رضا علی گیلانی کی زیر صدارت ڈویژنل ڈائریکٹرز کے اجلاس میں‘ صوبے میں اعلیٰ تعلیم کے معیار میں بہتری کے لیے کئی اور فیصلے بھی کئے گئے۔ مثلاً کرائے کی عمارتوں میں قائم تعلیمی اداروں کے لیے موزوں جگہ کی تلاش‘ معیاری فرنیچر کی فراہمی‘ سائنس و کمپیوٹر لیبارٹریوں کا قیام‘ جدید کتابوں پر مشتمل لائبریریوں کے ساتھ ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کا اہتمام‘ صاف پانی کے لیے فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب‘ سٹاف کے مکمل ریکارڈ کو اپ ٹو ڈیٹ کرنے کے ساتھ ڈیپوٹیشن پر گئے سٹاف کی واپسی‘ کالجوں کی ویب سائٹس پر طالب علموں کو ون ونڈو آپریشن کی سہولت کے ساتھ جنوبی پنجاب کی تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ۔ اس کے علاوہ طلبہ و طالبات کی کردار سازی کے لیے صبح کی اسمبلی‘ جس میں کتابِ ہدایت سے کوئی آیت‘ سیرت رسولؐ کے کسی پہلو کابیان‘ کوئی حدیث‘ تاریخ اسلام سے کوئی ایمان افروز واقعہ‘ عزائم کو سینوں میں بیدار کرنے والا کوئی تذکرہ۔
بچیوں کے لیے حجاب کی تجویز نے ہمارے روشن خیال طبقات میں طوفان سا اٹھا دیا تھا۔ حالانکہ حجاب سے مراد ہماری نانی‘ دادی کے دور والا شٹل کاک برقعہ نہیں۔ اس سے مراد دوپٹہ یا سکارف تھا‘ اور اس کے ساتھ مناسب تراش خراش والا لباس۔ مکرر عرض ہے کہ اس میں بھی کوئی جبر نہ تھا‘ یہ رضا کارانہ تھا۔(اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ دن بھی آنا تھا کہ اسلام کے ایک واضح حکم پر‘ یہ معذرت خواہانہ لب و لہجہ‘ گویا حجاب کی تجویز‘ کوئی گالی ہو۔ جبکہ ہمارے پڑوس میں سیکولر ملک سے اس قسم کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں کہ نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے اخلاقی جرائم کے سدباب کے لیے ''پنچایت‘‘ نے فیصلہ کیا کہ والدین میٹرک تک زیر تعلیم بچیوں کو موبائل فون نہیں دیں گے‘ کالج کی سطح تک بچیاں جینز اور شرٹ جیسا تنگ لباس نہیں پہنیں گی۔
حجاب کی تجویز پر پہلا ردعمل آصفہ بھٹو کا تھا۔ تب وہ بہت چھوٹی تھیں لیکن اپنی ممّا کے البم دیکھیں تو انہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے سر پر دوپٹہ اور ہاتھ میں تسبیح نظر آئے گی۔ ان کے غیر ملکی مہمانوں کو یہ بھی بتا دیا جاتا کہ وہ کسی مرد سے ہاتھ نہیں ملائیں گی۔ اپنے ہاں کا معاشرتی جبر کہہ لیں یا سیاسی مجبوری کہ وزارتِ عظمیٰ سے محرومی کے بعد بھی‘ کسی بھی سیاسی اجلاس‘ کسی بھی جلسۂ عام میں‘ وہ دوپٹے کے بغیر نہ ہوتیں۔ یہ سر سے ڈھلک جاتا تو اسے دوبارہ اوڑھنے میں تاخیر نہ کرتیں۔
سندھ اسمبلی میں پگارا صاحب کی مسلم لیگ کی رکن مہتاب اکبر راشدی نے یہ دلچسپ نکتہ اٹھایا‘ ''حجاب صرف لڑکیوں کے لیے کیوں؟ لڑکوں کو بھی ٹوپیاں پہنائیں‘‘ ہمیں اس پر حیرت اس لیے نہیں ہوئی کہ ''بے حجابی‘‘ کے حوالے سے ان کی کمٹ منٹ بہت قدیم ہے‘ جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ مہتاب چنّا تھیں‘ پاکستان ٹیلی ویژن کی مقبول ترین خاتون اینکر ۔ ''اسلامی ڈکٹیٹر‘‘ نے خاتون اینکرز/نیوز کاسٹرز کے لیے سر پر دوپٹہ لازم قرار دے دیا تو مہتاب نے اس ''منافقت‘‘ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور گھر بیٹھ گئیں۔ دلچسپ بات یہ کہ ''اسلامی مارشل لاء‘‘ کے جبر میں‘ اپنی معاشرتی حدود اور اخلاقی قیود میں تیار کردہ ڈراموں نے اپنے ہاں ہی نہیں‘پڑوس میں بھی مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے۔
''روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ کے دعویدار ڈکٹیٹر کے دور میں معاشرے کو جدت کے رنگ میں رنگنے کے لیے جو اقدامات کئے گئے‘ ان میں خواتین کی سرِعام میراتھن ریس بھی تھی۔ اللہ جنت نصیب کرے‘ قاضی حسین احمد مرحوم اس کے سخت ترین ناقدین میں تھے۔ ایک ٹی وی ٹاکرے میں چودھری شجاعت حسین سے مڈبھیڑ ہو گئی‘ قاضی صاحب نے کسی بحث میں پڑنے کے بجائے سیدھا سا سوال کر دیا‘ '' چودھری صاحب! کیا آپ اپنے گھر کی خواتین کو بھی میراتھن ریس میں لانا پسند کریں گے‘‘؟ چودھری صاحب کے پاس کوئی جواب نہ تھا چنانچہ چپ ہو رہے ہیں۔ اپنی اخلاقی و خاندانی روایات کے حوالے سے حساس‘ گجرات کے بڑے چودھری صاحب کی طرف سے اپنے ''باس‘‘ کے روشن خیال ایجنڈے کی وکالت سیاسی مجبوری تھی‘ اپنے خاندان کو انہوں نے اس سے دور ہی رکھا۔
اور قارئین ! اب کچھ مناظر امریکہ کے یہ نائن الیون کے بعد کی بات ہے۔17سالہ ایناس‘ بالٹی مور ایئر پورٹ پر عجیب کیفیت سے دوچار تھی‘ بے بسی‘ بے کسی اور خجالت کی کیفیت۔ ورجینیا میں اپنے والدین کے ساتھ مقیم ایناس‘ اسلامک سعودی اکیڈمی الیگزنڈریہ میں زیر تعلیم تھی۔ وہ حجاب کا باقاعدہ اہتمام کرنے لگی کہ یہ اس کے اسلامی عقیدے کا اہم جزو تھا۔ وہ اپنے والد اور دو بھائیوں کے ساتھ سان فرانسسکو جا رہی تھی۔ ایئر پورٹ پر سکیورٹی سکریننگ کے جملہ مراحل سے وہ بخیرو خوبی گزر گئی‘ کوئی چیز مشکوک نہیں پائی گئی تھی لیکن اچانک سکیورٹی سٹاف کے ایک مرد رکن نے اسے سکارف اتارنے کا حکم دیا۔ اس دوران خود کار ہتھیاروں سے مسلح گارڈز نے اسے گھیرے میں لے لیا تھا۔ کچھ پس و پیش کے بعد وہ سکارف اتارنے پر مجبور ہو گئی۔ وہ چیخ رہی تھی‘ ''تم مجھے اجنبی لوگوں اور غیر مردوں کے سامنے سکارف اتارنے اور بال کھولنے پر مجبور کر رہے ہو‘ یہ نہایت ذلت آمیز حرکت ہے‘‘۔ ایناس کے لیے رسوائی کا یہ احساس اس وقت اور بھی گہرا ہو گیا جب اس نے دیکھا کہ سر سے پائوں تک ملبوس ایک کرسچین راہبہ اس کے پاس سے گزر گئی اور سکیورٹی والوں نے اس سے کوئی تعرض نہ کیا۔
ایک اور کہانی‘ یہ پاکستانی خاتون انیلہ سیال کی کہانی تھی۔ اس کی بہن نیو یارک میں رہتی تھی اور وہ خود سینٹ لوئس میسوری میں۔
22سالہ انیلہ بہن کے ساتھ کچھ روز گزارنے کے بعد اب نیو یارک سے واپس سینٹ لوئس آ رہی تھی۔ بہن کو کینیڈی ایئر پورٹ پر خدا حافظ کہنے کے بعد وہ ٹرمینل کی طرف بڑھنے لگی۔ وہ پیچھے مڑ کر بہن کو دیکھتی جاتی جو دونوں ہاتھ ہلا کر اسے الوداع کہہ رہی تھی۔ اس نے آخری بار ہاتھ ہلائے اور بہن کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ چیکنگ کی باری آئی تو اس نے دیگر سامان کے علاوہ اپنی چابیاں‘ پرس‘ موبائل فون اور جیکٹ بھی سکینر میں سے گزاری اور خود سکیورٹی کے دروازے میں سے گزری۔ میٹل ڈیٹیکٹر خاموش رہا گویا اس کے پاس کوئی قابلِ اعتراض چیز نہیں تھی۔ وہ باہر آ کر بیلٹ سے اپنا سامان اٹھا رہی تھی کہ سکیورٹی سٹاف کی ایک خاتون آئی اور سکارف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا‘ ''اسے اتارو‘‘...'' نہیں! میں نہیں اتار سکتی‘‘ ... ''تمہیں اتارنا ہو گا‘‘۔ اب تمام لوگ ادھر متوجہ ہو گئے تھے۔ اس کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا‘ ایک جا رہا تھا۔ آخر کار اس نے سکارف کی پنیں نکالیں اور اسے کندھوں تک اتار لیا۔ ہال میں سینکڑوں خواتین و حضرات یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ وہ یوں محسوس کر رہی تھی جیسے اسے بے عزت کیا جا رہاہے ۔سکارف کے نیچے اپنے بالوں کو یک جا رکھنے کے لیے اس نے ایک ٹوپی نما کپڑے سے انہیں باندھا ہوا تھا۔ سکیورٹی والی خاتون کہنے لگی‘ ''اسے بھی اتارو‘‘۔ اس نے اسے بھی اتار دیا اور خود بھی ٹوٹ پھوٹ گئی۔ وہ زارو قطار رو رہی تھی کہ آخر اس کا قصور کیا تھا جو اسے یوں رسوا کیا گیا اور وہ بھی غیر مردوں کے سامنے۔ اس نے سوچا‘ اگر اس کی جگہ کوئی کرسچین راہبہ اسی طرح کے لباس میں ہوتی تو کیا اس سے بھی یہی سلوک روا رکھا جاتا؟ کیا یہی وہ آزادیاں تھیں جن کے لیے اس کے والدین اپنا ملک چھوڑ کر امریکہ میں آئے تھے؟ آنسوئوں کی جھڑی تھی کہ تھمنے کا نام نہ لیتی تھی۔تب22سالہ انیلہ اب 38سال کی ہو چکی‘ اس پختہ عمر میں شاید وہ پہلے سی جذباتی نہ رہی ہو۔ اسے خبر ہو کہ امریکہ میں رسوائی پر اسے جو اپنا آبائی وطن یاد آیا تھا‘ اس کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر قانون نے حجاب کی بات کرنے پر اپنے ہی ساتھی وزیر کو شٹ اپ کہہ دیا‘ ''وزیر موصوف گدّی نشین ہیں‘ وہ حجاب کرانا چاہتے ہیں تو اپنی مریدنیوںکو کرائیں‘‘۔