اہلِ سیاست (اور اربابِ صحافت بھی) بھول گئے لیکن پاک فضائیہ نے اپنے ہیرو کو‘ اپنے معمارِ اول کو یاد رکھا۔ اخبارات کے اندرونی صفحات پر سنگل کالم خبر چھپی‘ پاک فضائیہ کی رسالپور اکیڈمی کو ایئر مارشل (ر) اصغر خاں کا نام دیدیا گیا۔ تو کیوں نہ آج ہم اپنے اس ہیرو کو یاد کریں جس نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو جبر کے بدترین ماحول میں جرأت اور استقامت کا استعارہ بن گیا اور قوم نے اسے یوں آنکھوں پر بٹھایا کہ مقبولیت کے آخری درجے تک پہنچا دیا۔
اس نے انگریز کے دور میں رائل ایئر فورس میں پائلٹ کی حیثیت سے کیریئر کا آغاز کیا۔ پیر پگارا (موجودہ پیر صاحب کے جلیل القدر دادا) کے قافلۂ حریت پر بمباری کا حکم ملا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ اسے کورٹ مارشل کی وارننگ دی گئی... ''لیکن کس جرم میں؟... میں ایئر فورس کے کس ضابطے کی رو سے نہتے انسانوں پر بمباری کا پابند ہوں ‘‘؟
قیام پاکستان کے بعد اسے پاک فضائیہ کا معمار بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ اسی کی تیار کردہ فضائیہ تھی جس نے ستمبر 1965ء کی پاک ‘ ہند جنگ کے دوسرے ہی روز دشمن کی عددی برتری کو ملیا میٹ کرتے ہوئے فضائوں میں اپنی بالادستی قائم کر لی تھی۔
جنرل ایوب خاں نے مارشل لاء نافذ کیا تو اس میں ایئر مارشل کا کوئی کردار نہ تھا کہ اپنے ہاں یہ فیصلہ بری فوج کے چند طالع آزما ہی کرتے رہے لیکن اپنی کارکردگی‘ اپنی اصول پسندی اپنی شخصی وجاہت اور پیشہ ورانہ دیانت کے باعث وہ ایوب خاں کے چہیتوں میں شمار ہوتے تھے۔ ایئر فورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں قومی ایئر لائن کی ذمہ داری سونپی گئی تو یہاں بھی انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ اہلیت اور قائدانہ صلاحیت کا لوہا منوایا۔''حکم ‘‘ سے زیادہ ان کی مسکراہٹ دلوں کو مسخر کرتی چلی جاتی۔ وہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں میں بھی اتنے ہی مقبول تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ‘ جتنے مغربی پاکستان میں مقبول تھے۔
ایوب خاں کی آمریت کے خلاف تحریک کا آغاز ہو رہا تھا جب اصغر خاں نے آزاد سیاست دان کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے کئی پرانے سیاستدانوں کو پیچھے چھوڑ گئے۔ تب وہ مغربی پاکستان میں بھٹو سے کم مقبول نہ تھے۔ اُدھر مشرقی پاکستان میں بھی ان کی پذیرائی بہت تھی۔ ایوب خاں کو گلہ تھا کہ انہوں نے اصغر خان کی قدر دانی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی تو کیا وہ وزارتِ دفاع کے امیدوار تھے اور اس بات پر ناراض ہو گئے کہ ایوب خاں نے یہ منصب پاک بحریہ کے سابق سربراہ اے آر خاں کو سونپ دیا تھا۔
ایوب خاں حزبِ اختلاف کے دونوں بنیادی مطالبات (بنیادی جمہوریتوں کی بجائے بالغ رائے دہی اور صدارتی نظام کی جگہ وفاقی پارلیمانی نظام) تسلیم کر کے رخصت ہوئے تو جنابِ اصغر خاں نے پارلیمانی نظام کی کامیابی کے لیے سیاسی جماعتوں کی تعداد میں کمی کا نعرہ لگایا۔ اس کے لیے وہ ہم خیال جماعتوں کے ادغام پر زور دے رہے تھے اور چند ہی روز بعد انہوں نے اپنی جسٹس پارٹی کے قیام کا اعلان کر دیا۔ سیاسی جماعتوں کی تعداد میں کمی پر زور دیتے دیتے ‘ انہوں نے ایک اور جماعت کا اضافہ کر دیا تھا لیکن خود اصغر خاں کا کہنا تھا کہ وہ اپنے اس آئیڈیا کو ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کے طور پر زیادہ مؤثر اور بہتر انداز میں آگے بڑھا سکتے ہیں اور پھر ڈھاکا کا کنونشن میں چار جماعتوں کے ادغام سے پاکستان جمہوری پارٹی (پی ڈی پی) کا قیام عمل میں آ گیا۔ ان میں نواب زادہ صاحب کی عوامی لیگ (8نکاتی) 1956ء کے آئین کے خالق ‘ سابق وزیراعظم چودھری محمد علی کی نظامِ اسلام پارٹی‘ نور الامین کی قومی جمہوری محاذ اور ایئر مارشل کی جسٹس پارٹی شامل تھیں۔ مشرقی پاکستان کے بزرگ سیاستدان کی حیثیت سے جناب نورالامین پی ڈی پی کے سربراہ قرار پائے۔ مغربی پاکستان کی ایک غیر متاثر کن شخصیت شیخ نسیم حسن سیکرٹری جنرل بنا دیے گئے۔ پی ڈی پی مغربی پاکستان کی سربراہی نواب زادہ صاحب کے حصے میں آ گئی۔ پرانے سیاستدانوں نے بڑی چالاکی سے ''جواں سال‘‘ سیاستدان کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔
پی ڈی پی کی لیڈر شپ رابطہ عوام مہم پر نکلی تو کوئی رسمی عہدہ نہ رکھنے کے باوجود اصغر خاں ہی اصل لیڈر نظر آتے تھے''نیا چہرہ‘‘ لوگوں کو Attractکر رہا تھا۔ پی ڈی پی مشرقی اور مغربی پاکستان میں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ایک نئی قوت بنتی نظر آ رہی تھی کہ ایئر مارشل نے عملی سیاست سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔ پی ڈی پی نیم جان سی ہو کر رہ گئی تھی۔
مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن (25مارچ1971ء ) کے خلاف مغربی پاکستان میں سب سے توانا آواز ایئر مارشل کی تھی اور پھر سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ''نئے پاکستان‘‘ میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو یہ اصغر خاں ہی تھے جنہوں نے پہلے ہی دن جناب بھٹو کو اس المیے میں ''برابر کا ذمہ دار‘‘ قرار دیا۔ فسطائیت کے سناٹے میں یہ آواز گونجتی اور پھیلتی چلی گئی۔ بھٹو اقتدار کی پہلی سالگرہ پر لاہور میں وہ احتجاجی جلوس اصغر خاں ہی کی قیادت میں نکلا تھا جس کے اختتام پر پنجاب اسمبلی کے پہلو میں خواجہ رفیق شہید ہوئے۔ حزبِ اختلاف کی باقی سیاسی جماعتوں نے ''متحدہ جمہوری محاذ‘‘ کی چھتری تان لی تھی لیکن فیڈرل سکیورٹی فورس ‘ پولیس اور پیپلز گارڈ کی قدم قدم پر مزاحمت کے باوجود ایئر مارشل نے تن تنہا اپنا سفری جاری رکھا۔ اب وہ پاکستان تحریک استقلال کے سربراہ تھے۔
اور پھر بھٹو صاحب کی طرف سے مارچ1977ء کے عام انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان قومی اتحاد کے قیام کا ناقابلِ یقین سیاسی معجزہ رونما ہو گیا۔ ایئر مارشل کی تحریک استقلال بھی اس میں شامل تھی۔ وہ اتحاد کے کسی عہدے پر فائز نہ تھے لیکن اس کے باوجود اتحاد کے مقبول ترین لیڈر تھے۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے بھٹو کو کوہالہ کے پُل پر پھانسی دینے کا اعلان کیا اور پھر ہر جگہ لوگ ان سے اس اعلان کی فرمائش کرنے لگے۔
مارچ 1977ء کے انتخابی نتائج کے بعد تحریک کا نیا مرحلہ شروع ہوا۔ یہ تحریک بلا شبہ برصغیر کی تاریخ کی عظیم ترین تحریکوں میں ایک تھی۔ بھٹو کی قسمت کہ چاہنے والوںنے اسے ٹوٹ کر چاہا اور نفرت کرنے والوں نے اس سے انتہا درجے کی نفرت کی۔ اب ان ہی قوتوں نے اس سے نجات کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ قومی اتحاد نے پہیہ جام کی کال دی تو لوگ ٹرینوں کی پٹڑیوں پر لیٹ گئے۔ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نوجوانوں نے فوجیوں کے سامنے سینے کھول دیے اور اپنے ہی خون میں نہلا گئے۔ بوڑھے اپنی جیبوں میں شناختی کارڈ ڈال کر نکلتے کہ لاش گھر پہنچ جائے۔ خواتین اپنے شیر خوار بچوں سمیت میدانِ کارزار میں کود پڑیں۔ بھٹو نے اتحاد کی قیادت سے مذاکرات کا آغاز کیا جن کی ناکامی کی ذمہ داری ایئر مارشل پر بھی ڈالی گئی۔ ان ہی دنوں فوجی قیادت کے نام جیل سے ان کا خط بھی ذرائع ابلاغ کی شہ سرخی بنا۔ بالآخر بھٹو رخصت ہو گئے۔ جنرل ضیاء الحق نے 90روز میں انتقالِ اقتدار کے وعدے کے ساتھ زمامِ اقتدار سنبھالی اور چند ہی ہفتوں بعدایئر مارشل نے قومی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ دلچسپ بات یہ کہ اس سے قبل ضیاء الحق 90روزہ انتخابات کے التوا کا اعلان کر چکے تھے۔ کہا جاتا ہے بعض عناصر نے ایئر مارشل کو اس خوش فہمی میں مبتلا کر دیا تھا کہ ان جیسا روشن خیال‘ سوٹڈ بوٹڈ لیڈر امریکیوں کے لیے قابلِ قبول ہے بشرطیکہ وہ رجعت پسندی کا امیج رکھنے والے پاکستان قومی اتحاد سے لاتعلق ہو جائیں۔ بعض لوگوں نے ان ہی دنوں ایئر مارشل کے دورۂ ایران کو بھی اسی حوالے سے لیا۔ تب وہاں خطے میں امریکی پولیس مین رضا شاہ پہلوی حکمران تھے۔ ایئر مارشل نے اس شاخ ہی کو کاٹ ڈالا جس پر ان کی مقبولیت کا آشیانہ تھا‘ قومی اتحاد سے ان کی علیحدگی لوگوں کے لیے شدید جذباتی صدمے کا باعث تھی اور پھر رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب جناب ایئر مارشل ایم آر ڈی میں بھٹو خاندان کے ساتھ جا بیٹھے۔ سیاسی خودکشی کا عمل مکمل ہو گیا تھا۔ اس کے بعد بھی وہ عملی سیاست میں رہے لیکن وہ ''ایئر مارشل‘‘ کب تھے۔ وہ تو ان کی پرچھائیاں سی تھیں۔
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں