"RTC" (space) message & send to 7575

’’سیاسی ورثہ‘‘

جناب ہارون الرشید کے ''ناتمام‘‘ (30مارچ) میں اجمالی سا ذکر جنرل ضیاء الحق کی سیاسی وراثت کا بھی تھا۔17اگست 1988ء کے سانحۂ بہاولپور کے بعد پاکستانی سیاست کی یہ کہانی دلچسپ ہے۔ گیارہ سالہ اقتدار میں جنرل نے اپنے دونوں صاحبزادوں کو سیاسی و حکومتی معاملات سے کوسوں دور رکھا۔ ان کی وفات کے وقت اعجاز الحق بحرین میں ایک امریکی بینک میں ملازمت کر رہا تھا‘ جبکہ انوار الحق میڈیکل ڈاکٹر بن چکا تھا۔ جنرل کے معتمد ترین سیاسی رفقا اور قریب ترین صحافی دوستوں سے بھی ان کا تعارف شہید کی میت پر ہی ہوا۔(جنرل ضیاء الحق کے دست راست جنرل اختر عبدالرحمن کے صاحبزادوں کا معاملہ بھی یہی تھا) اپنے والد کے سیاسی ورثے کے حوالے سے ایک کہانی خود اعجاز الحق نے ‘ ایک انٹرویو میں ہمیں سنائی تھی جس کے کچھ حصے نذر قارئین ہیں۔
''سانحۂ بہاولپور کے بعد نواز شریف کا اصرار تھا کہ ہم سیاست میں ضرور آئیں۔20اگست کو ضیاء الحق کی تدفین پر جس طرح لاکھوں لوگ امڈ آئے‘ اس نے اینٹی بھٹو(اینٹی پیپلز پارٹی) عناصر کو نیا حوصلہ دیا تھا۔ چار روز بعد سردار عبدالقیوم خاں نے لیاقت باغ راولپنڈی اور پھر حیدر آباد میں جو جلسے کئے‘ ان میں بھی لوگوں کی شرکت بے پناہ تھی۔ شہادت کے بعد یہ نیا ضیا الحق تھا جو دریافت ہوا۔ اس سے نواز شریف کا اصرار مزید بڑھ گیا۔ وہ کئی بار والدہ صاحبہ کے پاس آئے ایک بار جنرل فضل حق اور ایک موقع پر گورنر پنجاب مخدوم سجاد حسین قریشی(شاہ محمود قریشی کے والد) بھی ان کے ساتھ تھے لیکن والدہ صاحبہ کا ایک ہی جواب تھا کہ آپ ہی آگے بڑھیں‘ ہم آپ کو پوری طرح سپورٹ کریں گے‘‘
لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی تھا۔ اعجاز الحق کے بقول ‘ ''دوسری طرف یہ زور بھی لگایا گیا کہ ہم عملی سیاست میں نہ آئیں۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل نے ہر طریقے سے کوشش کی کہ ہم سیاست سے دور رہیں یہ بات انہوں نے میری والدہ سے بھی کہی‘‘ اس کی وجہ۔؟ ''ہم نے سانحۂ بہاولپور کے بعد خود فوج کی بعض اہم شخصیات پر انگلی اٹھائی تھی۔ جنرل شمیم عالم سے ٹیلی فون پر میری کافی تُو تُو مَیں مَیں ہوئی۔ وہ بہاولپور کے کور کمانڈر تھے‘ اور اس سانحہ کے بعد چیف آف جنرل سٹاف بنے۔ جنرل اسلم بیگ کے نام کے سامنے بھی کئی سوالیہ نشان تھے۔ انہوں نے اس شام مارشل لاء لگانے کی کوشش بھی کی‘ لیکن انہیں اپنے فوجی رُفقا کی حمایت حاصل نہ ہو سکی۔ میرے خیال میں اس میں کچھ ہاتھ امریکیوں کا بھی تھا‘ کیونکہ ہم ایف بی آئی کے حوالے سے بھی سوالات اٹھانے لگے تھے۔ میں بحرین میں تھا جب پاکستان میں نئے امریکی سفیر رابرٹ اوکلے نے میرے چھوٹے بھائی انوار الحق اور ہمایوں اختر کے چھوٹے بھائی ہارون اختر سے ملاقات کی۔ ہم نے کچھ شواہد پیش کئے تھے کہ اس حادثے میں استعمال ہونے والی اعصابی گیس کہاں سے آئی؟ یہ جہاز کے اندر کیسے پہنچی؟ اس حوالے سے ایئر مارشل حکیم اللہ کے سامنے بھی سوالیہ نشان تھا۔ اس ملاقات میں رابرٹ اوکلے نے انوار سے کہا کہ اعجاز الحق سیاست میں آنا چاہتا ہے تو اس طرح کی باتیں کم کر دے ۔ یہ بات اب تک میری سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ امریکیوں کا دبائو تھا یا حمید گل‘ جنرل اسلم بیگ کے کہنے پر یہ سب کچھ کر رہے تھے۔ ہمارے پاس بہت سے شواہد تھے کہ جنرل بیگ نے اٹاپسی رکوائی۔ سی ایم ایچ بہاولپور سے ڈیڈ باڈی کے کچھ ٹکڑے معائنے کے لیے لاہور بھیجے گئے‘ جنرل بیگ نے انہیں واپس نہ آنے دیا اور سی ایم ایچ کے سٹاف کو دور دراز کے علاقوں میں ٹرانسفر کر دیا‘‘
ہم نے عرض کیا‘ ''سانحۂ بہاولپور کے بعد جب ضیاء الحق کی مقبولیت عروج پر تھی‘ آپ نے نومبر1988ء کے الیکشن کی ٹرین مِس کر دی اور 2سال بعد (بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد) سیاست میں آئے۔ اب آپ مسلم لیگ میں نواز شریف کے سیاسی رفیق تھے‘ جنرل ضیاء الحق نے جن کے لیے دعا کی تھی کہ میری زندگی بھی انہیں لگ جائے۔ ان کی شہادت کے بعد آپ کی والدہ نے بھی خاندان کی طرف سے نواز شریف ہی کی حمایت کی۔ ان دو برسوں میں نواز شریف نے خود کو اینٹی پیپلز پارٹی لیڈر کے طور پر Establishکر لیا تھا۔ اب آپ سیاست میں آئے تو نواز شریف کے ساتھ آپ کی ریلیشن شپ میں قربت بھی تھی اور دوری بھی۔ لگائو بھی تھا او کھچائو بھی۔ جسے انگریزی میں Love and Hate کہتے ہیں‘‘
اعجاز الحق کہہ رہے تھے '' 1988ء کے الیکشن میں ہمایوں اختر کا اصرار تھا کہ ہم اپنی الگ جماعت بنائیں اور اپنے ٹکٹ جاری کریں لیکن والدہ صاحبہ نواز شریف کو اپنی حمایت کا یقین دلا چکی تھیں۔1990ء میں ہم نے مسلم لیگ(آئی جے آئی) کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور خدا کے فضل سے بہت پذیرائی ملی‘‘
''ہم نواز شریف سے آپ کے تعلقات کی بات کر رہے تھے‘‘۔
''ہم میں ذاتی حوالے سے بہت قربت تھی۔ خاندانی تعلقات بھی بہت تھے۔ البتہ سیاست میں معاملہ یہ تھا کہ میں جسے غلط سمجھتا‘ اس کا برملا اظہار کر دیتا تھا۔‘‘
''اعجاز صاحب! معذرت کے ساتھ‘ اگر یہ کہوں کہ نواز شریف کے حوالے سے آپ کا ایک نفسیاتی مسئلہ بھی ہے۔ آپ اس احساس سے نجات نہیں پا سکے کہ اینٹی بھٹو سیاست آپ کے والد کی وراثت تھی جس کا فائدہ نواز شریف نے اٹھا لیا اور آپ محروم رہے‘‘۔
''پہلے ضیاء الحق نے نواز شریف کو اپنی عمر لگنے کی دعا دی۔ سانحۂ بہاولپور کے بعد میری والدہ کی اشیر باد انہیں حاصل رہی‘ تو اس کے بعدمیں کسی احساسِ محرومی کا شکار کیوں ہوں گا؟ میں نواز شریف کی جگہ وزیر اعظم بننا چاہتا تو میرے لیے یہ پیشکش موجود تھی لیکن میں نے انکار کر دیا۔ اپریل1993ء میں صدر غلام اسحاق خاں کے ساتھ میاں صاحب کی کشمکش عروج کو پہنچی اور صدر نے انہیں گھر بھجوانے کا فیصلہ کر لیا تو انہوں نے مجھے ایوانِ صدر بلایا۔ اس وقت تک بعض مسلم لیگی وزراء صدر کو استعفے پیش کر چکے تھے۔ صدر نے کہا کہ اگر میں بھی استعفیٰ دیدوں تو وہ مجھے عبوری وزیر اعظم بنا دیں گے۔ میں یہ کہہ کر اٹھ آیا کہ استعفیٰ دراز میں نہیں‘ بازار میں دوں گا۔ اگلے دن انہوں نے اپنے پرنسپل سیکرٹری سے میری بیگم کو فون کرایا کہ اعجاز صاحب‘ صدر کے ساتھ کوئی بات کر کے آئے تھے۔ انہوں نے کوئی کاغذ بھجوانا تھا‘ وہ بھجوا دیں ایوانِ صدر نے اس کے لیے میری پریس کانفرنس کا اہتمام بھی کر دیا تھا لیکن میں آمادہ نہ ہوا۔ الٰہی بخش سومرو ‘ ہمایوں اختر‘ عبدالستار لالیکا اور صدیق کانجو جیسے لوگوں نے استعفے دے دیے تھے لیکن میں اس سازش کا حصہ بننے کو تیار نہ ہوا‘‘۔
''تب والدہ محترمہ بھی تو آپ کو ''راہِ راست‘‘ پر رکھتی تھیں‘‘؟
''ان کا بھی ایک رول تھا۔ میاں صاحب کے ہمارے خاندان سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ انہیں میرے بارے میں جب بھی کوئی شکایت ہوئی ‘ وہ والدہ سے بات کرتے‘‘۔
ایک اور ملاقات میں اعجاز الحق نے نواز شریف کی وضعداری اور احسان شناسی کی ایک اور کہانی سنائی تھی۔ یہ بے نظیر صاحبہ کی وزارتِ عظمیٰ کا دوسرا دور تھا۔ میاں صاحب قائد حزب اختلاف تھے۔ اعجاز اپنی والدہ کی علالت کے آخری دنوں میں انہیں علاج کے لیے لندن لے گئے۔ تب میاں صاحب بھی وہیں تھے۔ انہیں علم ہوا تو عیادت کے لیے فوراً ہسپتال پہنچے۔ اس دوران مسلسل رابطے میں رہے اور وقتاً فوقتاً(بیگم صاحبہ کے ساتھ) مزاج پرسی کے لیے ہسپتال بھی آتے رہے۔ اعجاز الحق والدہ کی میت لے کر پاکستان روانہ ہوئے تو میاں صاحب نے تاکید کی کہ وہ تدفین کے لیے ان کا انتظار کریں۔ میاں صاحب اگلی فلائٹ سے راولپنڈی پہنچ گئے اور تدفین کے آخری مراحل تک موجود رہے۔
اور یہ میاں صاحب کی جلاوطنی کے دنوں کی بات ہے۔ ہم اپنی دفتری مصروفیات سے فراغت پر‘ سرور پیلس پہنچے تو دیکھا‘ جنرل ضیاء الحق کے داماد ڈاکٹر عدنان مجید میاں صاحب کے ساتھ موجود تھے۔ معلوم ہوا ‘ جنرل صاحب کی بڑی صاحبزادی بھی تشریف لائی ہیں وہ اوپر خواتین کے پاس تھیں۔ نماز عشاء کے بعدکھانے کی میز پر بھی میزبان‘ اپنے مہمان کی سو سو طرح خاطر داری کر رہا تھا۔ روانگی کا وقت آیا تو بیگم صاحبہ اپنی مہمان کے ساتھ نیچے تشریف لائیں۔ میاں صاحب اور بیگم صاحبہ نے بڑی محبت اور اپنائیت کے ساتھ معزز مہمانوں کو رخصت کیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں