پاناما کیس میں چُپ رہنے کے لیے دس ارب روپے کی پیشکش... یہ پیشکش کس نے اور کب کی؟ کیا خود وزیر اعظم محمد نواز شریف نے خان کو فون کیا یا کسی مشترکہ دوست کی خدمات اس کے لیے حاصل کی گئیں؟ پاناما لیکس گزشتہ سال 4 اپریل کو منظر عام پر آئیں۔ ' بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘ کے مصداق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف نیا ہنگامہ اٹھانے کے لیے نیا ایشو خان کے ہاتھ آ گیا تھا۔ سکون و قرار خان کی طبیعت کو راس نہیں۔ 2014ء کی دھرنا بغاوت کے دوران امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کا انتظار طویل ہوا‘ تو خان نے فرمایا تھا: میں فاسٹ بولر ہوں اور فاسٹ بولر سے زیادہ صبر نہیں ہوتا۔ ایک روز یہ بھی فرمایا کہ ''نئے پاکستان‘‘ کے لیے میری بے صبری کا سبب یہ بھی ہے کہ اس کے بعد میں دوسری شادی کر لوں (یہ الگ بات کہ وہ تب تک دوسرا نکاح پڑھوا چکے تھے)۔گزشتہ سال اپریل کے اوائل میں ادھر پاناما آیا‘ ادھر خان نے طوفان اٹھا دیا۔ ظاہر ہے‘ دس ارب روپے کی پیشکش انہی دنوں ہوئی ہو گی۔ تب اصل سوال یہ ہے کہ خان نے یہ راز سال بھر کیوں اور کیسے چھپائے رکھا؟
برادرم ہارون الرشید‘ کی خان سے (جلوت و خلوت کی) رفاقت اڑھائی عشروں سے زیادہ پر محیط ہے۔ اس میں سیاسی معاملات پر تبادلہء خیال کے علاوہ جمائما خان سے علیحدگی جیسے خالصتاً ذاتی مسائل پر صلاح مشورہ بھی شامل ہے‘ گہری رفاقت کے اس طویل تجربے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ سیاسی فہم و ادراک کے علاوہ مردم شناسی کے حوالے سے بھی خان کا خانہ خاصا تنگ ہے۔ ان دو کمزوریوں کے علاوہ ہمارے خیال میں خان کانوں کا خاصا کچا بھی ہے۔ اس کے سیاسی مخالف کے خلاف کسی نے کوئی بات اس کے کان میں ڈال دی‘ وہ کسی تحقیق‘ کسی ثبوت کے بغیر اسے لے اڑے گا۔یہ دس ارب روپے کی مبینہ پیشکش تو براہ راست اسے کی گئی تھی‘ پھر اس نے یہ راز اتنا عرصہ کیوں چھپائے رکھا؟
جنابِ زرداری کو خان کی اس کمزوری کا بخوبی علم تھا۔ خان الیکشن مہم کے دوران سٹیج سے گرنے کے بعد ہسپتال میں زیرِ علاج تھا۔ الیکشن ہو چکے تھے کہ ایوان صدر سے کال آئی‘ دوسری طرف زرداری صاحب تھے۔ انہوں نے مزاج پرسی کے ساتھ ''آر اوز‘‘ والی بات بھی خان کے کان میں ڈال دی۔ موصوف نے اپنی تازہ رابطہء کارکنان مہم میں بھی یہ بات چلانے کی کوشش کی‘ ہمیں ''آر اوز‘‘ کے ذریعے دھاندلی سے ہرایا گیا... لیکن ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا‘ کہ 11 مئی 2013ء کے الیکشن آپ کی صدارت کے دوران ہوئے۔ اس کے لیے وفاق اور صوبوں میں نگران حکومتیں بھی پیپلز پارٹی کا چوائس تھیں۔ الیکشن سے پہلے پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت تھی‘ لیکن یہاں بھی نگران وزارتِ اعلیٰ کے لیے سیٹھی صاحب مسلم لیگ (ن) کا نہیں‘ خود پیپلز پارٹی کا چوائس تھے... تو ''آر اوز‘‘ نے دھاندلی کیسے کر لی؟ البتہ آپ کی صدارت کو پیپلز پارٹی نے اپنے آبائی صوبے سندھ میں خوب استعمال کیا تھا۔
ہم خان کے کانوں کا کچا ہونے کی بات کر رہے تھے... وہ 35 پنکچروں والی بات‘ جو دھرنا بغاوت کا اہم نکتہ تھا‘ خان کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس نواز شریف اور نجم سیٹھی کی ٹیلی فونک گفتگو کی ٹیپ موجود ہے۔ الیکشن میں ایم آئی کے ایک بریگیڈیئر کی انوالومنٹ‘ اردو بازار میں چھپنے والے جعلی بیلٹ پیپر‘ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس رمدے کا منصوبہ اور اس پر عملدرآمد کے لیے آر اوز (ڈسٹرکٹ اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن ججوں) کو ہدایات... دھاندلی کی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم جوڈیشل کمشن میں پیش کرنے کے لیے خان صاحب کے وکیل جناب حفیظ پیرزادہ (مرحوم) نے ثبوت مانگے تو خان صاحب کا جواب تھا‘ ثبوت تو کوئی نہیں۔ اس موقع پر خان صاحب اور ان کے ہمنوا یہ دور کی کوڑی بھی لائے کہ ہم نے الزامات لگا دیے‘ اب یہ جوڈیشل کمشن کا کام ہے کہ اس کے لیے ثبوت جمع کرے... حالانکہ جوڈیشل کمشن کے قیام سے پہلے ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس تو ثبوتوں کے کمرے بھرے ہوئے ہیں‘ جنہیں وہ ٹرکوں پر لاد کر لائیں گے۔ 35 پنکچروں کے حوالے سے خان کا یہ موقف رہا تھا کہ نواز شریف اور نجم سیٹھی میں اس ٹیلی فون کال کی بات کسی سفارت کار نے آغا مرتضیٰ پویا کو بتائی تھی۔ پویا صاحب نے یہ بات کسی اور کو بتائی‘ اس نے یہ بات خان صاحب کو بتا دی۔ جوڈیشل کمشن کا فیصلہ آنے کے بعد (کہ کسی منظم دھاندلی کا ثبوت نہیں ملا اور یہ کہ انتخابی نتائج بحیثیت مجموعی عوام کے حقیقی مینڈیٹ کا اظہار تھے) ایک ٹی وی انٹرویو میں خان کو 35 پنکچروں والی بات یاد دلائی گئی تو اس کا کہنا تھا‘ وہ سیاسی بات تھی‘ سنی سنائی بات ... اس سے ملتی جلتی بات زرداری صاحب نے بھی کہی تھی کہ میاں صاحب کے ساتھ معاہدۂ بھور بن میں‘ تیس دنوں کے اندر ججوں کی بحالی والی بات‘ سیاسی بات تھی‘ انہوں نے کوئی حدیث تو نہیں لکھ دی تھی۔
دس ارب روپے کی پیشکش والی بات پر اپنے ردعمل میں مریم بی بی نے خان کو جھوٹا قرار دے دیا۔ گویا وہ ''صادق‘‘ نہیں... اوپر ہم نے خان کے کچھ اور الزامات کا ذکر بھی کیا‘ جن کا کوئی ثبوت اس کے پاس نہیں تھا اور جناب چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمشن بھی انہیں غلط اور بے بنیاد قرار دے چکا‘ تو کیا اس کے بعد بھی خان کے ''صادق‘‘ نہ ہونے کے لیے کوئی دلیل درکار ہے۔ جہاں تک ''امین‘‘ ہونے کا معاملہ ہے‘ ہم شوکت خانم جیسے رفاہی ادارے کے معاملات کو زیر بحث لانے کے حق میں نہیں‘ لیکن پارٹی فنڈز کے سلسلے میں ''امانت و دیانت‘‘ کے حوالے سے اکبر ایس بابر کی پٹیشن الیکشن کمشن میں زیر سماعت ہے۔ خان کے وکلا اس کا سامنا کرنے کی بجائے پیشی پر پیشی لئے جا رہے ہیں۔ دبائو کا حربہ اختیار کرتے ہوئے خان صاحب‘ الیکشن کمشن پر جانبداری کے الزامات لگانے لگے۔ اس رویّے پر برہم‘ چیف الیکشن کمشنر گزشتہ روز یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ خان صاحب کے یہ ریمارکس اگر توہینِ عدالت نہیں‘ تو پھر کچھ بھی توہینِ عدالت نہیں۔ پاناما کیس کے 20 اپریل کے فیصلے پر خان صاحب نے جو رویّہ اختیار کیا‘ اس پر چیف جسٹس جناب ثاقب نثار بھی گزشتہ روز ان کی توجہ عدلیہ کے احترام کی طرف دلا چکے ‘ لیکن کیا خان کے لیے یہ کلام نرم و نازک کافی ہوگا ؟