گیارہ مئی 1998ء کو ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں نے پاکستان کیلئے ایک نیا چیلنج لاکھڑا کیا تھا۔نواز شریف نے1997ء میں دوسری بار وزیرعظمیٰ کا حلف اٹھایا تو ان کی ترجیحات میں پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانا سرفہرست تھا۔ایک تباہ حال معیشت ورثے میں ملی تھی۔صدر فاروق لغاری کے بعد بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کی برطرفی کا سب سے بڑا سبب قومی معیشت کی تباہی تھا۔پاکستان ڈیفالٹ کے قریب پہنچ چکا تھا لیکن وہ یہ بات اپنی تقریر میں کہہ دیتے تو سسکتی بلکتی معیشت اس لمحے دم توڑ دیتی اور پاکستان اس روز ڈیفالٹ کر جاتا۔
قومی معیشت کی مسیحائی نواز شریف کے پہلے دور کے ایجنڈے میں بھی سرفہرست تھی ۔اس نا مکمل ایجنڈے کی تکمیل کا دوبارہ موقع ملا تو نواز شریف اس میں کسی تاخیر ،کسی کوتاہی کے روادار نہ تھے لیکن اقتدار کے ابتدائی مہینوں ہی میں انہیں اپنے خلاف صدر لغاری اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے گٹھ جوڑ کا سامنا تھا۔ادھر سے فرصت ملے ابھی 6ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ 11مئی کے ہندوستانی دھماکے سنگین ترین چیلنج کے طور پر سامنے آ گئے۔صدر کلنٹن اور ان کے مغربی حلیف پاکستان پر جوابی دھماکے نہ کرنے کیلئے دبائو ڈال رہے تھے۔اس میں ایک طرف پانچ بلین ڈالر کے مالیاتی پیکج کے علاوہ ان کے ذاتی اکائونٹس میں اربوں روپے منتقل کرنے کی پر کشش پیشکش بھی تھی( یہ بات ڈاکٹر قدیر نے بھی متعدد بار کہی) تو دوسری طرف عالمی اقتصادی پابندیوں کی دھمکی بھی، جس سے ایک طرف پاکستان کی ٹیک آف کرتی ہوئی معیشت دوبارہ منہ کے بل زمین پر آ گرتی۔ اقبال کے الفاظ میں یہ دل یاشکم میں سے ایک کے انتخاب کا مرحلہ تھا ،نواز شریف عشق کے اس امتحان میں پورا اترے۔انہوں نے دل کی آواز پر لبیک کہنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
یہ وہ مرحلہ تھا جب قومی خودمختاری اور عزت و وقار کیلئے کوئی بھی قیمت مہنگی نہیں ہوتی۔ امریکن سنٹرل کمانڈ کے سابق سربراہ جنرل زینی اپنی کتاب ''Battle Ready‘‘ میں تفصیل سے یہ دلچسپ کہانی بیان کر چکے کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کیلئے صدر کلنٹن کی ہدایت پر وزیر دفاع ولیم کوہن کی زیر قیادت ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد کا بوئنگ707 ٹمپا کے ہوائی اڈے پر تیار کھڑا تھا۔امریکیوں کے بار بار رابطوں کے باوجود اسلام آباد کی طرف سے این او سی نہیں مل رہا تھا۔بالآخر جنرل جہانگیر کرامت سے امریکی جرنیلوںکے تعلقات کام آئے اور اپنے آرمی چیف کی درخواست پر وزیراعظم نواز شریف نے امریکی وفد کو آنے کی اجازت دے دی۔جنرل زینی کے بقول امریکی وفد نے پاکستانی وزیراعظم سے متعدد ملاقاتیں کیں لیکن وہ وزیراعظم پاکستان سے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی بات نہ منوا سکے۔امریکیوں کی کوئی ترغیب ،کوئی تنبیہ ،پرعزم وزیراعظم کو ایٹمی دھماکوں سے باز نہ رکھ سکی۔
گیارہ مئی کو نواز شریف سربراہ اجلاس کے سلسلے میں قازقستان میں تھے۔بھارتی دھماکوں کی اطلاع آئی تو ایک رائے یہ تھی کہ وزیراعظم پاکستان کو فوراً وطن واپسی کی راہ لینی چاہیے لیکن وزیراعظم کو اس سے اتفاق نہ تھا۔ان کا موقف تھا کہ اس سے ہندوستان اور باقی دنیا کو یہ تاثر جائے گا کہ ہندوستانی دھماکوں سے پاکستان دبائو میں آ گیا ہے ۔وہ دنیا کو پاکستان کے مضبوط اعصاب کا تاثر دینا چاہتے تھے۔وہ شیڈول کے مطابق 14مئی کو واپس آ ئے ۔ایٹمی سائنسدانوں سے استفسار کیا کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکوں کیلئے کتنا وقت درکار ہو گا؟ دس گیارہ دن سے زیادہ نہیں۔10مئی کو Go Ahead مل گیا اور سائنسدانوں کی ٹیم چاغی روانہ ہوگئی۔اس دوران نواز شریف دوست ممالک کی قیادت کے علاوہ اندرون ملک بھی صلاح مشورے میں مصروف رہے ۔ وہ اپنے طور پر قازقستان ہی میں یکسو تھے لیکن اسکے لیے مسلح افواج کی قیادت کے علاوہ اپنے سیاسی رفقا اور دیگر ارباب فہم و دانش سے مشاورت کو بھی ضروری سمجھتے تھے۔ انہیں ملک کے حال اور مستقبل کیلئے گہرے اثرات کے حامل فیصلے میں شرکت کا احساس دلانا ضروری تھا۔ سنگین ترین معاملہ عالمی اقتصادی پابندیوں کا تھا۔اس حوالے سے سعودی عرب ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر یارِوفا دار کے طور پر سامنے آیا۔امریکہ سمیت ساری دنیا کے دبائو کی پروا کیے بغیر سعودی قیادت نے پاکستانی قیادت کو تیل (Deffered Payment) سپلائی جاری رکھنے کی یقین دہانی کردی تھی۔ یہ''دیفرڈ پیمنٹ ‘‘بھی فائلوں کی حد تک تھی مگر یہ'' حساب دوستان دردل‘‘ والا معاملہ تھا۔
جاوید ہاشمی نے ''ہاں! میں باغی ہوں‘‘ میں ان دنوں کی کہانیوں میں ایک کہانی بھی بیان کی کہ ایٹمی دھماکے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کیلئے کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا۔میں جنیوا سے بھاگم بھاگ اسلام پہنچا اور سیدھا کیبنٹ روم پہنچ گیا۔میری شیو بڑھی ہوئی تھی اور ظاہری حالت سفر کی کہانی کہہ رہی تھی۔طویل بحث میں دانائوں کا پلڑا بھاری ہو گیا۔انہوں نے کہا اگر آپ نے ایٹمی دھماکہ کیا تو چند روز خوشی کے شادیانے بجیں گے،قوم بھنگڑے ڈالے گی جب معاشی پابندیوں کا اطلاق ہو گا تو عوام بلبلا اٹھیں گے۔تب آپ تنہا کھڑے ہوں گے۔بے شک ان کے دلائل قوی تھے، میں نے ایٹمی دھماکے کے حق میں طویل گفتگو کی۔نواز شریف نے چٹ پر لکھ بھیجا۔Javed Hashmi I am proud of you بالآخر کابینہ نے ایٹمی دھماکوں کے حق میں فیصلہ دیدیا۔جنرل زین اور جنرل ٹامن فرینکس نے اپنی کتابوں میں تحریری شہادت دے دی ہے کہ نواز شریف ایٹمی دھماکوں کے وقت ہماری بات سننا نہیں چاہتا تھا جبکہ جنرل جہانگیر کرامت ان امریکیوں کے حامی تھے۔میں آج جیل کی کال کوٹھڑی سے پوری آواز کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں
Nawaz Sharif Pakistan is proud of you
نواز شریف پاکستان کو آپ پر فخر ہے۔