''نوائے فقیر‘‘ جناب سرفراز اے شاہ صاحب کے ''کہے فقیر‘‘ سلسلے کی چھٹی کتاب ہے۔ اکثر بزرگانِِ دین اور اولیائے کرام کے ملفوظات، خود ان کی قلمی کاوش نہیں۔ یہ وہ بات چیت، مختلف مجالس میں کئے گئے سوال، جواب یا کسی خاص موقع پر کی گئی تقاریر تھیں، جنہیں عقیدت مند محفوظ کرتے رہے، بعد میں جنہیں کتابی شکل دے دی گئی۔ نذیر نیازی کی ''علامہ اقبال کے حضور‘‘ اسی طرح مرتب ہوئی۔ ''5۔ اے ذیلدار پارک‘‘، سید مودودیؒ کی ان نشستوں کی رواداد ہے، جو نمازِ عصر سے مغرب تک، اچھرہ میں ان کی رہائش کے لان میں منعقد ہوتیں اور جن میں شرکت کے لیے کسی دعوت نامے، کسی اجازت نامے کی ضرورت نہ ہوتی۔ ان میں سیاسی کارکن بھی ہوتے، یونیورسٹی کے اساتذہ و طلبہ، عام شہری اور دیگر تشنگان علم بھی۔ 1970ء کی انتخابی مہم بڑی پُر زور اور پُر جوش تھی۔ ایک طرف اسلام اور سوشلزم کا معرکہ، دوسری طرف خود علما کی ایک جماعت، سیّد کے ''اسلام‘‘ ہی کو مشکوک قرار دینے کی مہم میں مصروف تھی۔ ''خلافت و ملوکیت‘‘ ان کا خاص حوالہ ہوتی۔ اور اس حوالے سے سید کو Blasphemy کا مرتکب قرار دیا جاتا۔ صوبہ سرحد کا ایک نوجوان، ہزارے کے مولوی صاحب کی تقریر سے اتنا متاثر ہوا کہ سید کا کام تمام کرنے کے لیے اچھرے پہنچ گیا۔ نمازِ عصر کے بعد نشست شروع ہوئی تو مناسب موقع کی تلاش میں‘ وہ بھی وہاں موجود تھا۔ وہ جو کہتے ہیں، دلوں کو بدلنے والا کوئی لمحہ ہوتا ہے۔ وہ سیّد کے چہرے پر نظر ڈالتا تو خیال کی لہر ابھرتی، یہ شخص صحابہؓ کا گستاخ نہیں ہو سکتا۔ اس شام بیشتر گفتگو بھی صحابہ کرام کے متعلق تھی، اس کی دنیائے دل زیر و زبر ہونے لگی۔ بالآخر اس نے فیصلہ کر لیا۔ اٹھا، خنجر نکال کر سید کے سامنے میز پر رکھا، ساری کہانی کہہ سنائی اور معافی کا طلب گار ہوا۔ (''5 اے ذیلدار پارک‘‘ کی ان نشستوں کو محفوظ و مرتب کرنے کا آئیڈیا ہفت روز آئین کے مدیر مظفر بیگ صاحب کا تھا۔ پہلی جلد بھی انہوں نے مرتب کی، دوسری اور تیسری جلد مرتب کرنے کی سعادت معروف ماہرِ اقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور پروفیسر حفیظ الرحمن احسن کے حصے میں آئی) حضرت واصف علی واصف کی بعض ''تصانیف‘‘ بھی اسی طرح مرتب ہوئیں کہ بنیادی طور پر وہ مکالمے کے آدمی تھے۔
یوں بھی ہوتا ہے کہ آمی کسی سرچشمہء فیض کے قرب و جوار میں ہونے کے باوجود محروم رہتا ہے۔ ایک عرصے تک ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔ انیس سو اسی، نوے کی دہائی کی بات ہے۔ ہم علامہ اقبال ٹائون لاہور کے جہانزیب بلاک میں مقیم تھے۔ نماز جمعہ سے واپسی پر نرسری کے قریب ایک گلی سے گزرتے تو کاروں، موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں کی خاصی تعداد قطار اندر قطار نظر آتی۔ ان میں قیمتی گاڑیاں ہوتیں، تین چار گاڑیاں سبز نمبر پلیٹ والی ہوتیں۔ تین مرلے کے چھوٹے سے گھر کے اندر کتنے لوگ سما سکتے تھے۔ چنانچہ اکثر لوگ باہر اپنی باری کے منتظر ہوتے۔ ہماری صحافیانہ حس بیدار ہوئی، پوچھا تو معلوم ہوا کہ کوئی اللہ والے ہیں جو جمعہ کو تشریف لاتے ہیں، حاجت مندوں کو درود و وظائف بتاتے، ان کے لیے رب کے حضور دعا کرتے اور کشف کی روشنی میں مشوروں سے بھی نوازتے ہیں۔ صحافیانہ تجسس ان سے ملاقات کے لیے اکساتا، لیکن اس کی نوبت نہ آئی‘ یا یوں سمجھیں کہ ہمارے لیے اس سعادت کا وقت ابھی نہیں آیا تھا۔ پھر ہم جدہ سدھار گئے۔ چھٹیوں پر آنا ہوتا تو جہانزیب بلاک کی اس گلی میں وہی منظر پاتے۔ پھر ہم مستقل واپس آ گئے۔ ایک روز کونسل آف نیشنل افیئرز کی ہفتہ وار نشست میں سرفراز شاہ صاحب مہمان خصوصی تھے۔ یہ شاہ صاحب کی زیارت کا پہلا موقع تھا۔ آج کل کے ''بابوں‘‘ کے متعلق ہماری رائے اچھی نہیں رہی تھی۔ شاہ صاحب سے ہمارے سوالات کچھ زیادہ ہی تند و تیز تھے۔ لیکن ہماری کٹ حجتی کے باوجود شاہ صاحب کے ہاں کوئی تکدّر نہ تھا۔ بالآخر ان کی نرم خوئی، دلیل اور استدلال سے لبریز ان کا لہجہ رنگ لانے لگا۔ شاہ صاحب سے اس بندہء گستاخ کے متاثر ہونے کا لمحہ آن پہنچا تھا۔ لاہور کینٹ میں شیرپائو برج کے پہلو میں شاہ صاحب کے آستانے پر پہلی حاضری
ہمیں یاد ہے۔ ریٹائرڈ فوجی افسروں کا ایک وفد رخصت ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد نیو یارک والی طیبہ ضیا چیمہ پہنچ گئیں۔ ایک طیبہ ہی پر کیا موقوف، ہمارے کئی نامی گرامی صحافی بھائی بھی شاہ صاحب کے حلقہء ارادت میں شامل ہیں۔ ان سے کے اپنے تجربات ہیں ۔ برادرِ بزرگ عبدالقادر حسن بھی ان میں شامل ہیں۔ ان کے بقول وہ اپنے بیشتر گھریلو امور، بچوں کے رشتوں تک میں شاہ صاحب کے مشوروں سے مستفید ہوئے۔ انور قدوائی مرحوم گھر سے نکلتے تو دفتر سے پہلے شاہ صاحب کے ہاں حاضری دیتے۔ ان کا یہ معمول زندگی کے آخری ایام تک برقرار رہا۔ جاتے جاتے شاہ صاحب پر ایک کتاب بھی مرتب کر گئے۔
قارئین! آئیے اب ''نوائے فقیر‘‘ کی کچھ نشستوں میں شریک ہوتے ہیں:
''وطنِ عزیز میں آج کل سیاسی بے چینی ہے، سچ اور جھوٹ میں فرق مشکل ہے، ایسے میں بطور قوم ہماری ذمہ داری کیا ہے‘‘؟
''رب تعالیٰ سے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی طلب کرتے رہیں... اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس پر بھی نظر رکھنی چاہئے کہ ہمیں جو شکایات دوسروں سے ہیں مثلاً حکمران جھوٹ بولتا ہے، ٹیکس نہیں دیتا یا اسی طرح کی اور برائیاں تو کیا ہم اپنے اندار سے یہ تمام برائیاں ختم کر چکے ہیں؟ جس روز بطور فرد ہم نے اپنا جائزہ لینا شروع کر دیا، ہمیں جن برائیوں کی شکایت دوسروں سے ہے، ہم نے اپنے اندر سے انہیں نکال کر باہر پھینک دیا، اسی روز پوری قوم سدھر جائے گی۔ پھر ہمیں حکمرانوں سے بھی شکایت نہیں ہو گی۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جیسی قوم ہو‘ ویسا ہی حکمران اس پر مسلط کیا جاتا ہے۔‘‘
'' کیا وطن سے محبت ایمان کا تقاضا ہے ؟ کیونکہ اسلام میں نیشنلزم کا تو کوئی تصور نہیں ‘‘؟
''آپ نے بالکل صحیح فرمایا، اسلام میں قومیت (نیشنلزم)‘ کا نہیں، بلکہ امہ کا تصور ہے، جغرافیائی تقسیم کے بعد جو Nations وجود میں آتی ہیں، اسلام میں ان کا کوئی تصور نہیں ، لیکن ہم جس خطے میں رہتے ہیں، اگر اس کی جغرافیائی حدود متعین کر دی گئی ہیں تو پھر اس خطے سے وفاداری ہم پر فرض ہو جاتی ہے۔ اس خطے کے اندر لاگو قوانین کی پابندی ہم پر لازم ہے۔ ہمارے پاس جس ملک کی نیشنیلٹی ہو، ہمیں اس کے ساتھ وفادار ہونا چاہئے۔‘‘
''بہت زیادہ ڈپریشن میں انسان کیا کرے‘‘؟
''تنہائی میں بیٹھ کر اپنے رب سے گفتگو کرنے لگے۔ اگرپھر بھی ڈپریشن نہیں جاتا تو آپﷺ کا تصور کرکے آہ و زاری شروع کر دیجئے۔ میرا نہیں خیال کہ اس طرز عمل کے بعد کوئی ڈپریشن باقی رہتا ہے‘‘۔
''سمجھ نہیں آتی کہ صحیح گائیڈ لائن کہاں سے لیں‘‘؟
''ہم نے بچپن میں آپؐ کی حیات طیبہ پڑھی، وہ ہمیں آج بھی ازبر ہے۔ اس کی باریک سے باریک Detail بھی ہمارے ذہن سے محو نہیں ہوئی۔ آپؐ کی حیاتِ طیبہ سے گائیڈنس لیجئے۔ کوئی معاملہء حیات ایسا نہیں جس کے لیے رہنمائی وہاں سے نہ ملے۔ اتباعِ رسولؐ میں ہی ہر مسئلے کا حل پوشیدہ ہے‘‘۔
''جب لوگ آپ کی توقعات پر پورا نہیں اترتے تو آپ کا رد عمل کیا ہوتا ہے‘‘؟
''میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرا ایک بھائی میرے جیسا نکل آیا کیونکہ میں تو خود لوگوں کی توقعات پر پورا نہیں اترتا۔‘‘
سرفراز شاہ صاحب کا شکریہ کہ اپنی گزشتہ کتابوں کی طرح، یہ کتاب بھی نہوں نے اپنے دستخط کے ساتھ بھجوائی۔ شاہ صاحب کے رفیق خاص صابر ملک بھی شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے یہ زحمت کی۔ شاہ صاحب کی اس کتاب کے انتساب میں صابر ملک بھی ہیں۔ شاہ صاحب کے معمولاتِ روز و شب کو متعین کرنے میں صابر کا بنیادی کردار ہے۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ پیر و مرشد کے وقت کا کوئی لمحہ ضائع نہ ہونے پائے۔