ان دنوں وہ بیکار تھا ، بیوی بھی چھوڑ کر چلی گئی تھی، اسے پیسوں کی ضرورت تھی۔ برسوں پہلے پاکستان میں ''قیام ‘‘ کے دوران ایک ''حادثے ‘‘ نے اسے عالمگیر شہرت دے دی تھی۔ ممکن ہے، یہ اس کا اپنا خیال ہو یا کسی دوست نے یہ ''ون ملین ڈالر آئیڈیا‘‘ دیا ہو، پاکستان میں اس حادثے کے حوالے سے کتاب لکھنے کا آئیڈیا۔ امریکہ میں اس طرح کی کتابیں خوب بکتی ہیں اور اس میں تو امریکہ کے باہر، خصوصاً پاکستانیوں کے لیے بھی دلچسپی کا وافر سامان تھا۔ پبلشر نے اسے Co-Author بھی مہیا کر دیا۔ (ہماری ملالہ بی بی کی کتاب ''I Am Malala‘‘ کی ''کو آتھر‘‘ بھی تو کرسٹینالیمب تھی)۔ ریمنڈ ڈیوس کی ''‘دی کنٹریکٹر‘‘ کی قیمت 17 ڈالر رکھی گئی۔ 27 جون کو یہ کتاب امریکہ میں لانچ ہوئی، 2دن بعد وہاں کے بکسٹالوں پر آئی۔ امریکہ (یا یورپ ) سے آنے والی ہر کتاب، ہر خبر صحیفہ آسمانی نہیں ہوتی ۔ عالمی شہرت یافتہ لیڈروں یا دنیا میں اعتبار اور وقار رکھنے والے اخبار نویسوں کا معاملہ الگ ہے، لیکن وہاں بہت کچھ خاص مقاصد کے تحت ، مخصوص مفادات اور طے شدہ اہداف کے لیے بھی لکھا جاتا ہے۔اپنے پسندیدہ افراد اور اداروں کو ہیرو اور ناپسندیدہ افراداور اداروں کو ویلن بنانا بھی پیش نظر ہوتا ہے۔ ''دی کنٹریکٹر‘‘ کے مصنف کا مطلوب و مقصود اگر پیسہ ہی تھا تو (جیسا کہ جناب ہارون الرشید نے بھی سوال اٹھایا ) ''دی کنٹریکٹر‘‘ فوراً ہی انٹرنیٹ پر کیوں ڈال دی گئی کہ دنیا بھر میں مفت دستیاب ہو جائے، امریکیوں میں تو کوئی لنچ فری نہیں ہوتا۔ ہمیں یادہے ، مارچ 1994 میں ہم برادرم مظفر محمد علی (مرحوم) کے ساتھ امریکہ میں ایک سٹڈی ٹورپر تھے۔
"Role of media in a democratic society"اس کا عنوان تھا۔ واشنگٹن سے شروع ہونے والے اس دورے میں ہم 6امریکی ریاستوں میں گھومتے گھماتے لاس اینجلس تک گئے۔ اس میں یونیورسٹیوں کے ماس میڈیا ڈیپارٹمنٹس سے لے کر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے اداروں کا وزٹ بھی شامل تھا۔ ہمیں جو شیڈول مہیا کیا گیا اس میں کسی ادارے میں لنچ کے ساتھ وضاحتاً "No Host" بھی لکھا ہوتا۔ البتہ امریکن فیملی سسٹم کو سمجھنے کے لیے، مختلف فیملیز کے ساتھ ''Home Hospitility‘‘ کا اہتمام اس سے مستثنیٰ تھا۔
ریمنڈ ڈیوس کی ''دی کنٹریکٹر‘‘ کی بہت سی باتیں تو پہلے ہی کھلی کتاب تھیں۔مثلاً فیصلے کے دن عدالت میں جنرل پاشا کی موجودگی اور لمحہ بہ لمحہ آگاہی کے لیے امریکی سفیر سے مسلسل رابطہ۔ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے دوران جنرل پاشا کی امریکہ میں طلبی اور سی آئی اے چیف لیون پنیٹا کی سخت تر الفاظ میں گفتگو، جنرل کیانی کی امریکن جوائنٹ چیف آف سٹاف مائک مولن سے عمان میں ملاقات، جان کیری کی اسلام آباد آمد اور صدر اوباما اور ہلیری کلنٹن کی پاکستانی قیادت کو ٹیلی فون کالز۔
ریمنڈ ڈیوس کی ڈرامائی رہائی اور اس کے ساتھ ہی پاکستان سے اُڑ جانے کی خبر تمام غیرت مند اور محب وطن پاکستانیوں کی طرح ہمارے لیے بھی حیرت انگیز کرب کا باعث تھی۔ لیکن الحمدللہ ہم ''فرقہ ملامتیہ‘‘ میں سے نہیں، جسے پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نظر نہیں آتا جس پر ایک خوددار اور باوقار قوم کی حیثیت سے فخر کیا جاسکے، جس کے خیال میں پاکستان کی تاریخ، امریکی تابع فرمانی کی تاریخ ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مختلف ادوار میں ہم نے کئی بار امریکیوں کو ''No‘‘ کہا، البتہ اس حوالے سے مشرف دور استثنا کی حیثیت رکھتا ہے جب نائن الیون کے بعد ڈکٹیٹر نے پاکستان کی خودمختاری امریکیوں کے قدموں میں ڈال دی تھی۔
27جنوری (2011) کے سانحہ مزنگ چونگی ( لاہور ) کے بعد ہم ایک بار پھر باوقار اور غیرت مند قوم کی طرح امریکیوں کے سامنے کھڑے ہو گئے تھے۔ رحمن ملک کا معاملہ الگ تھا (امریکیوں کا ''بلیو آئیڈ‘‘ جسے وہ اپنائیت سے ریمنڈ ملک بھی کہا کرتے) یہ کیس پنجاب میں ہوا تھا ،ریمنڈ کے خلاف مقدمہ بھی پنجاب حکومت ہی نے درج کیا اور وہ اس کی حراست میں تھا۔ ادھر دنیا کی سولو سپر پاور کا صدر اور عموماً رعونت کا مظاہرہ کرنے والی اسکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اور ( اُس دور کے ) پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ذاتی دوست جان کیری ( جن کے دفتر میں شاہ محمود قریشی کا صاحبزادہ ٹریننگ پر تھا) بھی اپنے اپنے انداز میں سرگرم ہو گئے تھے۔ سی آئی اے بھی اپنے ایجنٹ کو بچانے کے لیے دبائو کا ہر حربہ آزما رہی تھی۔ کانگریس میں پاکستان کی امداد پر پابندی کا مطالبہ بھی سراٹھا رہا تھا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ اور قومی سلامتی کے ادارے بے پناہ دبائو کے باوجود اعصاب باختہ نہ ہوئے۔ انہیں وائٹ ہائوس اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا یہ دعویٰ مسترد کرنے میں بھی کوئی تامل نہ تھا کہ ریمنڈ سفارت کا رہے جسے ویانا کنونشن کے تحت سفارتی استثنا حاصل ہے۔ وزیر اعلیٰ شہبازشریف کا جواب تھا ، ناجائز اسلحہ کے ساتھ سڑکوں پر گھومنا اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا کونسی سفارت کاری ہے۔ پنجاب پولیس نے ریمنڈ کے خلاف دوہرے قتل اور ناجائز اسلحہ کا مقدمہ قائم کیا اور تفتیش کے مراحل سے گزارنے کے بعد چالان عدالت میں پیش کر دیا۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ملزم سے برآمد ہونے والے جاسوسی کے آلات سمیت تمام چیزیں اس درخواست کے ساتھ (جناب زرداری اور گیلانی صاحب کی) وفاقی حکومت کو بھجوا دی گئی تھی کہ ملزم کے خلاف اگر کوئی اور مقدمہ بھی بنتا ہے تو آگاہ کیا جائے لیکن اُدھر سے کوئی جواب نہ آیا۔ اب پنجاب حکومت کی تمام تر توجہ مقدمہ قتل پر مرکوز تھی۔ پنجاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے بھی جان کیری اور امریکی سفیر کیمرون منٹر سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ مقدمہ عدالت میں ہے، جو بھی فیصلہ ہو گا، وہیں ہو گا۔ امریکی دبائو کی بجائے، اپنی آزاد عدلیہ کا فیصلہ تسلیم کرنے کے اس مؤقف سے پاکستان کی کسی سیاسی ومذہبی جماعت کو اختلاف نہیں تھا... اور پھر 48 روز بعد ملزم کو رہا کر دیا گیا۔ ناجائز اسلحہ کے الزام میں اسے 30 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا تھا۔ 48روز حراست کو بھی سزا کے طور پر لیا گیا۔ قتل کے مقدمے میں بریت مقتولین کے ورثاء کی طرف سے دیت کی وصولی کی بناء پر عمل میں آئی تھی۔ مقتول فہیم کی بیوہ شمائلہ بھی اسکے ورثاء میں شامل تھی لیکن ابھی فہیم کا کفن بھی میلا نہ ہوا تھا کہ اس نے انصاف کی امید کھو کر خودکشی کر لی۔ وہ زندہ رہتی تو شاید دیت کی بجائے قصاص پر اصرار کرتی اور یوں ریمنڈ کی رہائی بھی آسان نہ ہوتی۔
دیت کا آئیڈیا کہاں سے آیا؟ تب واشنگٹن پوسٹ اور گارجین نے بھی اسے حسین حقانی کی فکرِ رسا کا نتیجہ قرار دیا تھا جبکہ پاکستانی میڈیا میں یہ نادر روزگار تجویز چودھری شجاعت حسین کی طرف سے آئی تھی، جن کا کہنا تھا کہ اس کیس میں اصل فریق مقتولین کے ورثا ہیں۔ چودھری صاحب نے مقتول فیضان کی بیوہ کو اپنی بیٹی بناتے ہوئے ایک لاکھ روپے بھی بھجوائے تھے۔ مقتولین کے ورثا کو دیت پر آمادہ کرنے میں ''اداروں‘‘ کے ''اثرورسوخ‘‘ کے علاوہ، چودھری صاحب کی اس شفقت و عنائت نے بھی شاید اہم کردار ادا کیا ہو۔ بعض اطلاعات کے مطابق حضرت مولانا کی منطق واستدلال کی صلاحیت بھی اس میں بروئے کار آئی۔
وہ جو اقبالؒ کا ''پاسباں مل گئے‘‘ والا مصرعہ ہے، یہاں اس کا اظہار جنرل (ر) امجد شعیب کی طرف سے ہوا۔ جنرل موصوف نواز شریف پر تنقید کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں، لیکن ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے حوالے سے منظر مختلف تھا۔ ریمنڈ کی ''دی کنٹریکٹر‘‘ میں میاں نواز شریف کا نام بھی آیا۔ گزشتہ روز ایک ٹی وی ٹاک شو میں اس حوالے سے بات ہوئی تو جنرل کا کہنا تھا، اس میں ان کا کیا کردار ہو سکتا ہے؟ وہ تو ان دنوں پاکستان ہی میں نہیںتھے۔ ہمیں یاد آیا، تب میاں صاحب لندن میاں تھے۔ دل کے عام سے معائنے کے دوران معاملہ پیچیدہ ہو گیا۔ ایک شریان پنکچر ہو جانے کے باعث بلیڈنگ شروع ہو گئی تھی ۔ وہ تو اللہ نے کرم کیا کہ سینئر ڈاکٹروں کے بروقت پہنچ جانے سے معاملہ سنبھل گیا۔ لندن سے ایمرجنسی کال موصول ہوتے ہی شہباز شریف بھی لاہور سے روانہ ہوگئے ، جب ریمنڈ کی رہائی کا حکم سنایا گیا، وہ بھی یہاں نہیں تھے۔