افغانستان کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی 22 اگست کی پالیسی تقریر میں پاکستان کے متعلق ریمارکس نے پاک امریکہ تعلقات کی پرانی بحث کو پھر تازہ کر دیا۔
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے‘ کیا پایا ہے؟
گزشتہ شب یاسر پیرزادہ کے ہاں عید ملن عشائیہ میں جو معاملات زیربحث رہے‘ ان میں سول‘ ملٹری ریلیشن شپ کا وہی پرانا موضوع‘ میاں صاحب کی نااہلی‘ این اے 120 لاہور کا ضمنی انتخاب اور آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ نون کے امکانات کے علاوہ پاک امریکہ تعلقات بھی زیربحث رہے۔ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں پاکستان کا کردار ان تعلقات کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ ہمارے گزشتہ دو کالموں میں ان کا اجمالی سا تذکرہ رہا جس پر جناب شاہد ہاشمی کے گرامی نامے میں غوروفکر کا خاصا سامان ہے۔
شاہد ہاشمی جماعت اسلامی کے ممتاز دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے ہمارے معاشرے میں یہ جنس نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے‘ جماعت اسلامی بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے۔ شاہد ہاشمی پیدائشی جماعتیے نہیں۔ وہ کالج میں آ کر اسلامی جمعیت طلبہ سے متاثر ہوئے۔ والدین نے 1947ء میں بہار سے مشرقی پاکستان کے لیے ہجرت کی تھی۔ کئی اور بہاریوں کی طرح یہ بھی پڑھی لکھی فیملی تھی۔ والد صاحب‘ سید محمد واجد ہاشمی دن کو ڈھاکہ میں آدم جی جیوٹ ملز کے ہیڈ آفس میں اہم ذمہ داریاں سرانجام دیتے‘ شام کو قائداعظم کالج میں بنگالیوں کی نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے۔ 1971ء میں فوجی آپریشن کے بعد حالات خراب ہوئے تو اپنے لاڈلے کو کراچی آ کر چھوڑ گئے۔ تب شاہد نویں جماعت میں تھے۔
16 دسمبر کو سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بہاری کمیونٹی بطور خاص مکتی باہنی کے ظلم و ستم کا نشانہ بنی۔ (جماعت اسلامی کی ''البدر‘‘ کے بنگالی نوجوان بھی ستم زدگان میں شامل تھے) پروفیسر واجد ہاشمی بچ بچا کر‘ چھپ چھپا کر اپنی فیملی کے ساتھ سرحد پار ان عزیزواقارب کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، 1947ء میں جنہیں الوداع کہہ کر پاکستان چلے آئے تھے۔ قائداعظم کے پاکستان کا سورج 16 دسمبر کو سنہری ریشے کی سرزمین میں ڈوب گیا۔ پروفیسر واجد ہاشمی کی نئی منزل اب بچا کھچا پاکستان تھا ،16 دسمبر سے پہلے جو ''مغربی پاکستان‘‘ کہلاتا تھا۔ بہار میں مقیم ان کے عزیزواقارب نے بہت سمجھایا‘ پاکستان جانے کا خیال چھوڑو‘ یہیں آباد ہو جائو۔ لیکن ان کا جواب تھا‘ آپ لوگوں نے 1947ء میں بھی بہت اصرار کیا تھا لیکن میں نے پاک سرزمین کی طرف ہجرت کا ارادہ ترک نہ کیا اور ہجرت میں واپسی نہیں ہوتی۔ ایک روز وہ بِہار سے کٹھمنڈو (نیپال) پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہاں پاکستانی سفارت خانے نے کراچی کے لیے سفری کاغذات بنا دیئے اور وہ رنگون کے راستے شہر قائد پہنچ گئے۔
پاکستان سے محبت (اور غیر مشروط محبت) شاہد کو ورثے میں ملی۔ کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کے بعد جماعت اسلامی سے وابستگی کیساتھ وہ کوچہ صحافت میں آ گئے۔ تب سے اسی دشت کی سیاحی میں مصروف ہیں۔ ایک دور میں کراچی میں جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامے کے چیف ایگزیکٹو بھی رہے۔ یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیئے۔ قاضی حسین احمد کے دورِ امارات میں سیّد منور حسن جماعت کے سیکرٹری جنرل بن کر منصورہ منتقل ہوئے تو شاہد ہاشمی انکی جگہ ادارہ معارفِ اسلامی کے سربراہ ہو گئے۔
منور صاحب کے ساتھ بھی دلچسپ معاملہ ہوا۔ قاضی صاحب کی بائیس سالہ امارت میں وہ جماعت کے سیکرٹری جنرل رہے اور 2009ء میں اس وقت امیر جماعت بنے۔ جب غالب کے الفاظ میں قویٰ مضمحل ہو جاتے ہیں اور عناصر میں اعتدال نہیں رہتا۔ لیکن سید منور حسن ابھی اتنے ''غالب خستہ‘‘ بھی نہیں ہوئے تھے۔ جماعتی امور پر ان کی گرفت خاصی مضبوط تھی۔ انہوں نے جماعت میں داخلی احتساب کے نظام کو دوبارہ سخت کیا۔ ''دہشت گردی کی جنگ‘‘ کے حوالے سے بھی ان کا اپنا نقطہ نظر تھا۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں اس جنگ کو امریکی مفادات سے جوڑ دیا ۔2014ء کے جماعتی الیکشن میں سراج الحق امیر جماعت ہو گئے۔ 27 سال بعد منور صاحب کراچی لوٹ گئے۔
شوکت ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا
ہم رہ گئے‘ ہمارا زمانہ چلا گیا
منور صاحب ان دنوں ادارہ معارفِ اسلامی میں بیٹھتے ہیں اور شاہد ہاشمی ان کی سرپرستی میں ادارہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ شاہد صاحب سے ہماری یاداللہ کوئی پچیس تیس سال سے ہے۔ وہ آج بھی جماعت سے وابستہ ہیںاور اس کی مرکزی صوبائی اور کراچی شہر کی شوریٰ کے رکن ہیں۔ نہایت بُرے حالات میں بھی مایوسی کو قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔ وہ جو عباس تابش نے کہا تھا ؎
ہم میں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ادھر ہم سکول کے دنوں میں اسلامی جمعیت طلبہ سے متعارف ہوئے اور یونیورسٹی لاء کالج سے فراغت تک بساط بھر متحرک رہے۔ جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ علاقے سے آنے والے ہم جیسے ''پینڈو‘‘ کو اگر دو لفظ لکھنے اور دو حرف بولنے آ گئے ہیں تو یہ جمعیت ہی کی دین ہے۔ عملی زندگی میں جماعت سے ہماری وابستگی ''ووٹر‘‘ کی حد تک رہی۔ قاضی صاحب نے 1993ء میں جماعت کی جگہ پاکستان اسلامک فرنٹ کو انتخابی میدان میں اتارا‘ تو ووٹر کا یہ تعلق بھی ختم ہو گیا لیکن یہ دل پر پتھر رکھنے والی بات تھی۔ ہم جماعت کے ترجمان اخبار کے لاہور میں بیورو چیف تھے‘ لیکن قاضی صاحب کی ''پاسبان‘‘ اور پاکستان اسلامک فرنٹ جیسی پالیسیوں سے کھل کر اختلاف کرتے اور جماعت کو داد دینی چاہیے کہ اس کے باوجود وہ اپنے اخبار میں ایک اہم ذمہ داری پر ہمیں برداشت کرتی رہی۔ یہاں تک کہ ایک دن خود ہم نے معذرت کرلی اور رخصتی کی اجازت چاہی۔
قارئین ہماری اس خرابی (یا کمزوری کہہ لیں) کو جان چکے (اور مدیر محترم بھی اس سے ''سمجھوتہ‘‘ کر چکے) کہ ہم بات کہاں سے شروع کرتے اور نکل کسی اور طرف جاتے ہیں۔ آج بھی ہم آپ کے ساتھ جناب شاہد ہاشمی کا خط شیئر کرنا چاہتے تھے۔ تو اب آخر میں کام کی وہ بات :۔
''افغانستان پر روسیوں کے چڑھ دوڑنے اور اس پر پاکستان کے ردعمل اور پالیسی و حکمت کاری پر‘ لکھتے رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ 1990ء اور اس کے بعد کی دہائیوں میں جوان ہونے والی ہماری نسلیں 70ء اور 80ء کی دہائیوں کی عالمی اور علاقائی کشمکش اور پیش رفت سے تقریباً بے بہرہ ہیں۔ اب تو حال یہ ہے کہ سابق سُرخے اور موجودہ لبرلز ہی نہیں، سابق دائیں بازو والے بھی بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان نے امریکہ کی پراکسی وار لڑی تھی اور ہم اب تک اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ پاکستان کے پاس اس وقت متبادل راستہ کیا تھا‘ جس کے نتیجے میں پاکستان سلامت بھی رہتا‘ آزاد بھی اور اب تک پرُسکون بھی۔
میری فکرمندی اس وجہ سے ہے کہ اس ملک کی نئی تاریخ‘ نئی تعبیرِتاریخ اور نیا بیانیہ۔ پورے زور و شور اور بے شرمانہ دھونس اور ڈھٹائی سے تشکیل دیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس کا جواب دینے والے‘ اب تھوڑے لوگ ہی بچے ہیں اور ان میں سے بھی بیشتر ''اہل و آل شریف‘‘ کے دفاع اور پروموشن میں جتے ہوئے ہیں۔
مجھے وحشت ہوتی ہے‘ یہ سوچ کر کہ محض دس سال بعد کیا ہو گا؟ کیا یہ ملک اپنی حقیقی اساس اور درست شناخت سے محروم‘ محض ایک بے رنگ وبو شناخت‘ جغرافیائی وجود بن کر رہ جائے گا؟ آپ اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو بہت سے امور سے براہ راست بھی آگاہ رہی ہے۔
''شریفوں‘‘ کے حق میں آپ کی خامہ فرسائی طبیعت پر گراں گزرتی ہے مگر آپ کے سیاسی موقف کو آپ کا حق سمجھتے ہوئے اس پر کوئی مکالمہ نہیں کرنا چاہتا۔ یوں بھی نجانے کیوں آپ کیلئے اپنے دل میں مثبت جذبات اور پسندیدگی کا خانہ کھلا پاتا ہوں۔