جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں حبیب جالب ؔ کی نظم میں ''ایک نہتی لڑکی‘‘ تھی: ع
ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے
لاہور کے حلقہ این اے 120 میں ''لڑکی‘‘ نہتی تو نہیں تھی‘ البتہ تنہا ضرور تھی۔ دونوں بھائیوں میں سے کسی کو عملی سیاست سے دلچسپی نہیں‘ ان کی توجہ کاروبار پر ہے۔ تین بار وزیر اعظم رہنے والے والد عدالت عظمیٰ سے نااہل قرار پا چکے (بعض لوگ آرٹیکل 62(1)F کے تحت اسے تاحیات نااہلی قرار دیتے ہیں) قومی اسمبلی کی یہ نشست اسی فیصلے کے نتیجے میں خالی ہوئی تھی۔ اب ضمنی انتخاب میں اس کی والدہ امیدوار تھیں لیکن انتخابی مہم شروع ہونے سے پہلے اچانک کینسر کا انکشاف ہوا۔ علاج کے لیے وہ سات سمندر پار لندن میں تھیں‘ اس عالم میں کہ ویڈیو لنک پر خطاب تو کجا‘ اپنے ووٹر کے لیے آڈیو میسج بھی ریکارڈ کرانے کی پوزیشن میں نہ تھیں۔ چچا زاد بھائی بھی لندن چلے گئے تھے۔ بڑا کزن حمزہ ''الیکشن ٹیکنالوجی‘‘ میں مہارت رکھتا تھا۔ باپ کی طرح محبت کرنے والے چچا‘ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے لیکن الیکشن مہم کے فیصلے کن مرحلے میں وہ بھی لندن سدھار گئے۔ الیکشن سے تین چار روز قبل وہ لندن سے واپس آئے اور اگلے ہی روز ترکی روانہ ہو گئے۔
حالات شریف فیملی کے علاوہ مسلم لیگ نون اور اس کے ورکرز اور ووٹرز کے لیے بھی مایوس کن اور اعصاب شکن تھے‘ لیکن پاکستان میں رہ جانے والی ''اکیلی لڑکی‘‘ بے حوصلہ نہ ہوئی۔ وہ خود کو اپنے باپ (اور ماں کی بھی) تصویر قرار دیتے ہوئے میدان میں نکلی۔ 2013ء کے عام انتخابات میں بھی‘ جب میاں صاحب اپنی جماعت کی ملک گیر انتخابی مہم پر تھے تو اس حلقے میں انتخابی مہم مریم ہی نے چلائی تھی‘ لیکن اب سرگرانی اور تھی۔ مدمقابل (پی ٹی آئی) کی ڈاکٹر یاسمین راشد بھی نہایت مضبوط اعصاب والی ہیں۔ انہوں نے گزشتہ انتخابات میں بھی میاں صاحب کے 91,666 ووٹوں کے مقابلے میں 52,321 ووٹوں کے ساتھ بہت سوں کو چونکا دیا تھا‘ اور اب 28 جولائی کو یہ نشست خالی ہونے کے بعد انہوں نے ایک دن بھی ضائع نہیں کیا تھا۔ وہ پسماندہ علاقوں کی تنگ گلیوں میں بھی پہنچیں اور محاورتاً نہیں‘ واقعتاً ایک ایک دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس کے اپنے مثبت اثرات تھے۔ ادھر مریم کی ریلیاں بہت بڑی تھیں۔ کہیں کہیں تو میاں صاحب کی جی ٹی روڈ والی ریلی کی یاد تازہ ہو جاتی۔ لیکن ظاہر ہے یہ کشادہ سڑکوں‘ کھلی گلیوں اور بازاروں تک محدود تھا لیکن ''اکیلی لڑکی‘‘ کی آواز ان کے گھروں تک بھی پہنچ رہی تھی‘ جالبؔ نے جن کے بارے میں کہا تھا ؎
وہ جس کی روشنی کچے گھروں میں بھی اترتی ہو
نہ وہ سورج نکلتا ہے‘ نہ اپنے دن بدلتے ہیں
ووٹروں تک‘ وہ اپنی علیل والدہ کا سلام بھی پہنچاتی لیکن اس جذباتی اپیل کے ساتھ اس نے جس ایشو کو انتخابی مہم کی بنیاد بنایا‘ وہ خالصتاً ''سیاسی‘‘ تھا‘ ووٹ کے تقدس کی حفاظت۔ خود خان بھی 17 ستمبر کے ضمنی الیکشن کو سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے فیصلے پر ریفرنڈم قرار دے رہا تھا۔ اور پھر ''عوامی عدالت‘‘ کے فیصلے کا دن آ گیا۔ ''اکیلی لڑکی‘‘ نے ''مقدمہ‘‘ جیت لیا تھا۔ جیت تو یقینی تھی‘ دلچسپی اس بات سے تھی کہ ''مارجن‘‘ کتنا ہو گا؟ اور یہ مارجن 2013ء کے عام انتخابات سے کم تھا۔ تب 39 ہزار کا فرق تھا اور اب یہ چودہ ہزار چھ سو رہ گیا تھا (بیگم کلثوم نواز 61,754 اور ڈاکٹر یاسمین راشد 47,099) یاسمین کے ووٹ بھی کم ہوئے (تقریباً 5 ہزار) لیکن مسلم لیگ نون کے ووٹوں میں کمی زیادہ تھی (تقریباً تیس ہزار) لیکن اس بار اس حلقہ میں کچھ نئے ''سیاسی حقائق‘‘ بھی جنم لے چکے تھے۔ ''حکمت کاروں‘‘ کو 1993ء کا قاضی صاحب کے پاکستان اسلامک فرنٹ کا تجربہ یاد تھا۔ نواز شریف کے ووٹوں کو تقسیم کرنے کا منصوبہ‘ خود پروفیسر غفور صاحب (مرحوم) کے بقول‘ پیپلز پارٹی نے مجموعی طور پر مسلم لیگ سے تین لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کئے اس کے باوجود اسے 16 نشستوں کی برتری حاصل ہو گئی۔ صرف پنجاب میں 10 نشستیں ایسی تھیں‘ جہاں مسلم لیگ اور فرنٹ میں ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے پیپلز پارٹی کامیاب ہو گئی‘ ورنہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ کے ارکان کی تعداد 73 سے بڑھ کر 83 اور پیپلز پارٹی کی تعداد 89 کی بجائے 79 رہ جاتی۔ پروفیسر صاحب کے مطابق ''صوبہ سرحد‘‘ میں قومی اسمبلی کی پانچ نشستیں ایسی تھیں‘ جہاں اسلامک فرنٹ‘ پیپلز پارٹی کی کامیابی کا باعث بنا۔
اب این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں نواز شریف کے ''روایتی مذہبی ووٹ‘‘ میں سے 5822 ووٹ حافظ سعید کی ''ملی مسلم لیگ‘‘ کے حمایت یافتہ شیخ محمد یعقوب اور 7130 ووٹ ''تحریک لبیک یارسول اللہ‘‘ کے اظہر حسین رضوی کی طرف چلے گئے۔ زرداری صاحب کی پیپلز پارٹی نے گزشتہ بار 2605 ووٹ حاصل کئے تھے اس بار بلاول کا معصوم اور نوجوان چہرہ بھی تھا لیکن ووٹ 1414 رہ گئے۔ کچھ یہی معاملہ ہمارے سراج الحق صاحب کی جماعت اسلامی کے ساتھ ہوا۔ 2013 میں حافظ سلمان بٹ نے 953 ووٹ حاصل کئے تھے‘ اس بار ضیاء الدین انصاری 592 ووٹ حاصل کر پائے۔ سراج الحق اسے ووٹوں کی وسیع پیمانے پر خریدوفروخت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جبکہ جناب لیاقت بلوچ نون لیگ کو مبارکباد دے رہے تھے جس نے مشکل حالات کے باوجود الیکشن جیت لیا۔
کم ٹرن آئوٹ کا نقصان حلقے کی مقبول سیاسی جماعت کو ہوتا ہے۔ ضمنی انتخاب میں ٹرن آئوٹ ویسے بھی کم ہوتا ہے لیکن یہاں اس کے اسباب کچھ اور بھی تھے۔ اتوار کو شہر کے لوگ دیر سے اٹھتے ہیں۔ لوگ دوپہر کے بعد نکلے۔ قواعد کے مطابق پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی‘ پولنگ سٹیشن کے کمپائونڈ میں موجود لوگ ووٹ ڈالنے کے حقدار ہوتے ہیں لیکن یہاں ایسے بھی پولنگ سٹیشن تھے جن کا کمپائونڈ بہت تنگ تھا اور قطاریں باہر دور دور تک موجود تھیں اور ووٹنگ کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ ایک صورت یہ ہو سکتی تھی کہ الیکشن کمشن پولنگ کے وقت میں اضافہ کر دیتا‘ لیکن یہ تنہا مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر ممکن نہ تھا اور پی ٹی آئی اس کے لیے آمادہ نہ تھی۔ ووٹنگ کی شرح اس باعث بھی کم رہی کہ ایک ووٹ ڈالنے میں معمول سے تین گنا زیادہ صرف ہوا۔ ایک پولنگ سٹیشن پر ایک سے زائد بوتھ ہوتے ہیں اور ہر بوتھ کے لیے امیدواروں کے الگ الگ پولنگ ایجنٹ‘ لیکن اس بار ایک پورے پولنگ سٹیشن پر (تمام بوتھوں کے لیے) صرف ایک‘ ایک پولنگ ایجنٹ تھا۔ الیکشن میں عموماً آٹھ‘ دس امیدوار ہوتے ہیں‘ یہاں 43 امیدوار تھے۔ ووٹر کو بیلٹ پیپر پر اپنے پسند کے امیدوار (اور اس کا انتخابی نشان) ڈھونڈنے میں معمول سے کہیں زیادہ وقت لگا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کا نمبر 15 اور بیگم کلثوم نواز کا 31 تھا۔ بھاری بھرکم بیلٹ پیپر کی وجہ سے بیلٹ باکس بھی زیادہ استعمال ہوئے۔ ایک بیلٹ باکس بھر جانے کے بعد دوسرے باکس کو سیل کرنے اور دیگر تکلفات پر بھی وقت صرف ہوا۔
مسلم لیگ نون نے یونین کونسلوں کے 8 چیئرمینوں سمیت‘ اپنے 60 سرگرم کارکنوں (الیکشن سے پہلے والی شب) پراسرار اغوا کا بھی الزام لگایا۔ (میاں صاحب نے یہی بات لندن میں کہی) کہا جاتا ہے‘ بڑے سخت حالات میں لڑے جانے والے اس معرکے میں ''اکیلی لڑکی‘‘ سرخرو رہی‘ اس کے 'انکل‘‘ چوہدری نثار علی خاں کو بھی یقیناً خبر ہو چکی ہو گی۔