"RTC" (space) message & send to 7575

چین میں اپنوں کے درمیان

کبھی اپنی قومی ایئرلائن کا شمار دنیا کی چھ سات بہترین ایئرلائنز میں ہوتا تھا۔ جہازوں کی تعداد تو زیادہ نہ تھی لیکن سروس‘ پابندیٔ وقت‘ سیفٹی اور سیکورٹی کے معاملات مثالی تھے۔Great Peopel to Fly with کا سلوگن واقعی جچتا تھا۔ اب تو دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ کیا پرواز بروقت روانہ ہو کر منزل مقصود پربحفاظت پہنچا دے گی۔ اسلام آباد سے بروقت کوچ کرنے والی پرواز نے ساڑھے پانچ گھنٹے میں بروقت اور بحفاظت بیجنگ پہنچا دیا تھا۔ لیکن یہاں ایک اور پریشانی نے آ لیا۔ عمر شامی کا اٹیچی کیس غائب تھا۔ پی آئی اے اسے اسلام آباد ہی چھوڑ آئی تھی یا ٹوکیو جانے والے مسافروں کے سامان کے ساتھ یہ جاپان کی طرف پرواز کر گیا تھا؟ ایئرپورٹ پر پی آئی اے کے متعلقہ سٹاف نے عمر کی اس متاعِ گم گشتہ کی بازیابی کے لیے بھرپور تعاون کا یقین دلایا لیکن یہ بات بھی واضح کر دی کہ سوموار سے پہلے یہ ممکن نہ ہو گا (اور یہ جمعہ کی صبح تھی) روانگی کے وقت اسلام آباد میں موسم خوشگوار تھا‘ چنانچہ ہم سب عام سے کپڑوں میں روانہ ہوئے تھے لیکن بیجنگ میں سردی تھی اور اس کے لیے گرم کپڑے کوٹ‘ مفلر‘ جرسی اور سویٹر وغیرہ اٹیچی کیسوں میں تھے۔ عمر کے لیے اب پہلا کام گرم کپڑوں کی خریداری کا تھا جس کے لیے اس نے ایئرپورٹ پر ہی ڈالر‘ چینی ''یوآن‘‘ میں تبدیل کرا لیے۔ کرنسی ریٹ کے حساب سے ایک ''یوآن‘‘ تقریباً 17 روپے کا تھا۔
ہمارا قافلہ دس افراد پر مشتمل تھا۔ ایک‘ محمد مہدی کے سوا باقی سب جرنلسٹ تھے۔ اس آٹھ روزہ سٹڈی ٹور کا اہتمام لاہور میں چینی قونصل جنرل نے کیا تھا۔ ہم نے مہدی کو اتفاق رائے سے ''امیر سفر‘‘ منتخب کر لیا کہ چین اور چینیوں کوہم سب سے زیادہ جاننے اور پہچاننے والا وہی تھا۔ وہ کوئی سات آٹھ بار چین آ چکا تھا‘ اس کے بعد عمر شامی کا نمبر تھا۔ چین کے بارے میں اس کی معلومات بھی کافی تھیں کہ اپنے بزنس کے سلسلے میں وہ بھی تین چار بار چین آ چکا تھا۔ شامی صاحب کے سب سے چھوٹے صاحبزادے عثمان نے حال ہی میں شنگھائی میں دو سال گزارے تھے اس نے یہاں سے عالمی مالیاتی امور میں ماسٹرز کیا اور اب لاہور سے چینی زبان میں آن لائن اخبار نکالتا ہے۔ محمد مہدی کو میاں نوازشریف نے 2006ء میں مسلم لیگ نون کا کوآرڈی نیٹر برائے فارن افیئر مقرر کیا تھا اور اسے پاکستان میں غیر ملکی سفارت کاروں سے رابطے کی ذمہ داری سونپ دی۔ دلچسپ بات یہ کہ اسلام آباد سے دوسرے ملکوں میں ٹرانسفر ہو انے والے سفارت کاروں سے بھی اس کا رابطہ رہتا ہے۔ 
ایئرپورٹ سے باہر تین چینی ''میزبان‘‘ ہمارے منتظر تھے۔ جین جیکٹ پہنے ہوئے ایک سمارٹ سی ''لڑکی ‘‘نے آگے بڑھ کر پرجوش خیرمقدم کیا‘ ''طاہرہ‘‘ ...ہمیں خوشگوار سی حیرت نے آ لیا تھا۔ بیجنگ میں چینی طاہرہ؟ لیکن اصل میں وہ ''یے فنگ‘‘ تھی جو تقریباً سات سال پاکستان میں رہی‘ تین سال اسلام آباد میں اور چار سال لاہور میں۔یہاں اردو زبان کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اردو گرامر کے جملہ اصول اسے حفظ ہیں۔ تذکیر و تانیث اور جمع واحد کے صحیح استعمال کے ساتھ ''شین قاف‘‘ ( تلفظ) بھی درست ہے۔ ہم پاکستانیوں نے ''عوام‘‘ کو مذکر سے مؤنث بنا دیا ہے۔ اس نے عوام کو مذکر استعمال کیا تو یوںلگا کہ جسے وہ غلط بول رہی ہو۔ اپنائیت کے اظہار کے لیے وہ لاہور ہی میں ''طاہرہ‘‘ ہو گئی تھی۔ ان دنوں بیجنگ میں چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس میں اعلی عہدے پر خدمات انجام دے رہی ہے۔ وہ ریڈیو پر اردو میں آن لائن پروگرام بھی کرتی ہے اور سامعین ''طاہرہ‘‘ کے ساتھ ایک خاص اپنائیت محسوس کرتے ہیں۔ 
دورۂ چین کا پروگرام بنا تو منتظمین سے چین میں اردو ترجمان مہیا کرنے کی استدعا کی گئی کہ چیزوں کو سمجھنے سمجھانے میں آسانی رہے۔ ''طاہرہ‘‘ کی زیرقیادت اس میزبان ٹیم کا اہتمام اسی لیے کیا گیا تھا۔ دوسری بات جو منتظمین سے قدرے زور دے کر کہی گئی وہ حلال کھانے پینے کا اہتمام تھا۔
بیجنگ میں یہ سرد لیکن چمکتی ہوئی صبح تھی۔ آخری ورکنگ ڈے اور اس کے بعد دو ہفتہ وار چھٹیاں۔ سڑکوں پر چمکتی دمکتی کاروں کا اژدہام تھا۔ رفتار سست لیکن ہر کوئی اپنی لین میں تھا چنانچہ ٹریفک جام کا عذاب نہ تھا۔ 1970ء کی دہائی میں چین آنے والے بتاتے ہیں کہ تب ان سڑکوں پر سائیکلوں کا سیلاب ہوتا تھا اور کوئی اکا دکا گاڑی نظر آتی تھی‘ اب معاملہ الٹ ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی زبردست ہے‘ بروقت اور آرام دہ۔ شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آمدروفت کے لیے نصف شب تک ''سب وے‘‘ کی سہولت بھی دستیاب رہتی ہے۔ اب یہ ''مائو کا مساوات‘‘ والا چین نہیں۔ اب پبلک پرائیویٹ سیکٹر بھی ہے۔ اپنی گاڑی‘ اپنا گھر‘ اپنا کاروبار اور چین کی برق رفتار ترقی میں اس Incentive کا بھی بنیادی کردار ہے۔ حکومت ''ذاتی گاڑیوں‘‘ کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ گاڑیاں سستی لیکن نمبر پلیٹ بہت مہنگی ہے۔ ڈرائیونگ لائسنس کا حصول بھی آسان نہیں۔ اس میں سال بھر بھی لگ سکتا ہے۔ ٹریفک رولز کی خلاف ورزی پر ڈرائیونگ لائسنس منسوخ اور نئے لائسنس کے لیے پھر سال بھر کی مشقت۔ ذاتی گاڑیاں سڑکوں پر کم آئیں‘ اس کے لیے Even Numbers اور Odd Numbers والی گاڑیوں کے سڑکوں پر آنے کے لیے دن مخصوص ہیں۔
ایئرپورٹ سے ہوٹل پہنچنے میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا تھا۔ بریک فاسٹ کے لئے ڈائننگ ہال میں اشیائے خورونوش وافر مقدار میں موجود تھیں۔ چکن‘ مٹن اور بیف میں ''حلال‘‘ اشیا الگ تھیں۔ دودھ کے بڑے سے جگ کے ساتھ بھی حلال کا ٹیگ تھا۔ کیا دودھ بھی حلال اور حرام ہوتا ہے؟ ہمارے منہ سے احمقانہ سوال نکلا۔ کیوں نہیں‘ کیا حرام جانور کا دودھ حرام نہیں ہو گا؟۔
سفر کی تکان اتارنے اور دن کی باقی مصروفیات کے لیے تازہ دم ہونے کو ہمارے پاس دو اڑھائی گھنٹے تھے۔ فور سٹار ہوٹل کے کمرے میں ضرورت کی سبھی اشیاء موجود تھیں لیکن واش روم میں کموڈ کے ساتھ شاور (پانی) کا اہتمام نہیں تھا‘ اس کی بجائے ٹائلٹ پیپر استعمال کیجئے۔ مغرب میں بھی یہی ہوتا ہے۔ لیکن ہم تو اپنے ہاں کے ہوٹلوں کے عادی ہیں اور اپنی تمام تر روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے باوجود ''طہارت‘‘ کے حوالے سے اب بھی پاکستانیوں کی رجعت پسندی میں فرق نہیں آیا۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘ ہم نے پینے والے پانی کی بوتل خالی کی اور اسے لوٹا بنا لیا۔ (ہمارے دوسرے ساتھیوں نے بھی یہی تکنیک اختیار کر لی تھی) کمرے میں نماز کے لیے تولیے کو جائے نماز بنا لیتے۔
ہوٹل سے نکل کر پہلی مصروفیت نماز جمعہ تھی۔ دو کروڑ سے زائد آبادی والے شہر میں مسلمانوں کی تعداد اڑھائی لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ مساجد کی تعداد کتنی ہے؟ کوئی حتمی تعداد معلوم نہ ہو سکی‘ پندرہ بیس سے لے کر ساٹھ ستر تک...
''طاہرہ‘‘ نے کوسٹر ایک مسجد کے سامنے رکوائی۔ یہ Niujie Mosque تھی۔ بیجنگ کی قدیم ترین اور وسیع ترین مسجد۔ 996ء میں ایک عرب سکالر نصرالدین نے جسے تعمیر کیا۔ اب اس کا رقبہ دس ہزار مربع میٹر ہے۔ سٹرکچر عرب دنیا کی مساجد اور چینی بادشاہوں کے محلات کا ملا جلا شاہکار ہے۔ چین کے عظیم ثقافتی ورثے کی حیثیت سے حکومت اس کی دیکھ بھال پر خاص توجہ دیتی ہے۔ جمعہ کی پہلی اذان ہو رہی تھی۔ امام صاحب اور ان کے رفقاء صحن میں ادب و احترام کے ساتھ کھڑے تھے‘جیسے ہم قومی ترانے کے وقت کھڑے ہوتے ہیں۔ اذان ختم ہوئی تو وہ مسجد کے ہال کی طرف بڑھے۔ ادھر نمازی بھی جوق در جوق آ رہے تھے ان میں دو تین پاکستانی بھی تھے جو بزنس کے سلسلے میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ امام صاحب تلاوت قرآن پاک کر رہے تھے۔ سرور و کیف کا عجب عالم تھا۔ لائوڈ سپیکر کی آواز مسجد کے احاطے تک محدود تھی جس طرح اپنے ہاں نیشنل ایکشن پلان کے بعد مینار پر نصب لائوڈ سپیکر کا استعمال اذان تک محدود ہے۔ وعظ کی آواز مسجد سے باہر نہیں جانی چاہیے۔ چہرے مہرے سے چینی مسلمانوں کو ہمیں پہچاننے میں دیر نہ لگی۔ ہم ان کی محبت کا خصوصی محور تھے۔ مصافحہ کرتے اور گلے ملتے ہوئے دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی۔ گفتگو میں زبان کی رکاوٹ تھی‘ زبانِ یا رِمن ''چینی‘‘ و من ''چینی‘‘ نمی دانم۔ ہماری ترجمان ''طاہرہ‘‘ مسجد سے باہر تھی لیکن محبت کی اپنی بھی تو زبان ہوتی ہے‘ آنکھوں سے جس کا اظہار ہوتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں