فیض ؔصاحب نے کہا تھا ؎
اِس عشق نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اِس دل میں بجُز داغِ ندامت
خواجہ سعد رفیق کا معاملہ مختلف ہے۔ انہیں اپنے سیاسی کیرئیر میں کسی فیصلے‘ کسی اقدام پر ندامت نہیں‘ سوائے ایک واقعہ کے...وہ اگرچہ پارٹی کا فیصلہ تھا ‘ انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی جس پر عمل کیا۔ اس فیصلے کی اپنی حکمت تھی ‘اس کے باوجود وہ اپنے دل میں اس پر شرمندگی سی محسوس کرتے ہیں‘ 18 فروری 2008ء کے انتخابات کے بعد‘ پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شمولیت کے لیے صدر مشرف سے حلف لینے کا فیصلہ‘ اگرچہ انہوں نے (اور ان کے ساتھیوں نے) اس موقع پر احتجاجاً سیاہ پٹیاں باندھی ہوئی تھیں۔
پی آئی ڈی اسلام آباد کے پریس ہال میں یہ اہتمام وفاقی دارالحکومت کے سینئر صحافیوں کو وزارت ریلوے کی چار سالہ کارکردگی پر بریفنگ کے لیے تھا اور خواجہ سعد رفیق کی کوشش تھی کہ اس موقع پر سوال‘ جواب ریلوے ہی کے حوالے سے ہوں لیکن کہنہ مشق صحافی انہیں گھیر گھار کر سیاست کی طرف لے ہی آئے۔ ہم اسلام آباد آئے تھے اور چھوٹے بھائیوں جیسے نجم ولی کی خواہش تھی کہ ان کے وزیر کی پریس بریفنگ سے بھی مستفید ہو لیں۔ نجم ان دنوں ریلوے میں ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز ہے۔ صبح سات بجے لاہور سے روانہ ہوکر کلرکہار میں چائے کے لیے رکے۔ سرما کی چمکیلی صبح کا اپنا لطف تھا۔ شاعر نے کہا تھا ؎
ذرا سی دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں شاید نہ اگلے سال ملیں
آپ یہاں ''دسمبر‘‘ کی جگہ ''نومبر‘‘ لگا لیں۔ چائے کا لطف لیتے ہوئے اسلام آباد میں دوستوں کو فون کرنے شروع کئے۔ کسی کا فون بند تھا اور کوئی ''نو ریپلائی‘‘ ہو رہا تھا۔ بعض دوست جنہیں دفتر جانے کی جلدی نہیں ہوتی‘ نماز فجر پڑھ کر دوبارہ لیٹ جاتے۔ عرفان صدیقی صاحب رابطے میں آ گئے‘ کہا‘ بارہ بجے تک دفتر آ جائو۔ شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں بھی ہمارے برادرِ محترم قومی تاریخ اور ادبی ورثہ کے مشیر ہیں۔ فائیو سٹار ہوٹل کے پہلو میں متروکہ وقف املاک کی بلڈنگ کے تیسرے فلور پر ان کا دفتر ہے۔ میاں صاحب کی وزارت عظمیٰ کے دنوں میں عرفان صدیقی صاحب سے ہماری ملاقات پرائم منسٹر سیکرٹریٹ ہی میں ہوتی۔ وزیراعظم عباسی کے ہاں بھی ان کی قدرومنزلت میں کمی نہیں لیکن ان دنوں ان کا زیادہ وقت قومی تاریخ اور ادبی ورثہ ڈویژن کے اس دفتر میں گزرتا ہے‘ یہ ڈویژن تقریباً ڈیڑھ درجن اداروں پر محیط ہے۔ بسااوقات کسی ادارے میں سب کچھ ہوتا ہے لیکن سربراہی کے لیے مطلوبہ صلاحیت کا حامل فرد نہیں ہوتا۔ عرفان صاحب خوش قسمت ہیں کہ انہیں اپنے زیرنگرانی اداروں میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید جیسے Competent اور Committed افراد کی خدمات بھی حاصل ہیں۔ ڈاکٹر انعام کی سربراہی میں نیشنل بک فائونڈیشن کی کارکردگی کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے۔ عرفان صاحب سے ہم رخصت ہو رہے تھے کہ ڈاکٹر انعام بعض اہم امور پر مشاورت کے لیے پہنچ گئے۔
معزول وزیراعظم احتساب عدالت میں پیشی کے لیے اسی صبح لاہور سے یہاں پہنچے تھے۔ گزشتہ شام پارلیمنٹ ہائوس میں ان کی سیاسی قیادت ایک اور بڑے چیلنج سے دوچار تھی لیکن اسلام آباد آ کر ''معاملات کو کنٹرول‘‘ کرنے کی بجائے انہوں نے جاتی امرا ہی میں بیٹھ کراس تماشے سے لطف اندوز ہونے کا فیصلہ کیا۔ انہیں مسلم لیگ نون کی صدارت سے محروم کرنے کے لیے اپوزیشن کا بھرپور حملہ بری طرح ناکام رہا تھا۔ حکومت سے ''مائنس‘‘ کرنے کے بعد انہیں سیاست سے مائنس کرنے کا خواب ایک بار پھر بکھر گیا تھا۔ پارٹی میں بغاوت کی ''خبریں‘‘ ناکام اور ناآسودہ خواہش بن کر رہ گئی تھیں۔ مسلم لیگ نون کے اپنے 188 ارکان میں سے 22 غیر حاضر تھے لیکن یہ باغی نہ تھے۔ خواجہ آصف صاحبزادی کی شادی کی مصروفیات کے باعث نہ آ سکے۔ لاہور کے حلقہ 120 سے ''نومنتخب‘‘ رکن بیگم کلثوم نواز لندن میں علیل ہیں‘ عارفہ خالد بھی بیرون ملک تھیں۔ یہی معاملہ جعفر خاں لغاری کا تھا۔ وفاقی وزیر سکندر بوسن کو صحت کے مسائل درپیش تھے۔ فاٹا سے نذیر خان پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شریک تھے لیکن والد کی تشویشناک علالت کے باعث گھر کو بھاگے۔ جہلم کے راجہ مطلوب کی رکنیت الیکشن کمشن نے اثاثوں کی تفصیلات کی عدم فراہمی کے باعث معطل کی ہوئی تھی وہ اس کی بحالی کے حوالے سے کنفیوژن سے دوچار تھے۔ احسن اقبال چینیوں کے ساتھ اہم ملاقات کے باعث ووٹنگ سے پہلے چلے گئے۔ خانیوال کے رضا حیات ہراج البتہ اس مسئلے پر ''اصولی اختلاف‘‘ کے باعث نہ آئے۔ مسلم لیگ نون کے ارکان میں ظفر اللہ جمالی تھے جو ایوان میں موجود تھے اور اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دیا۔
ان ہی دنوں ارکان پارلیمنٹ کو ''نامعلوم‘‘ ٹیلی فون کالوں کا ذکر بھی ہوتا رہا۔اس حوالے سے جناب لیاقت بلوچ کے ساتھ ''دلچسپ‘‘ معاملہ ہوا۔ احباب سے بے تکلف گپ شپ میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کے (چار) ارکان کو بھی ایسی ٹیلی فون کالز موصول ہوئیں۔ حفیظ اللہ نیازی اسے لے اڑے اور ٹاک شو میں نشر کر دیا۔ سید مودودیؒ کے صاحبزادے حسین فاروق امریکہ (ہیوسٹن) سے لاہور آئے ہوئے ہیں۔ ہمدمِ دیرینہ جاوید نواز کی طرف سے ان کے لیے عشائیے میں لیاقت بلوچ بھی موجود تھے اور گِلہ گزار تھے کہ اب تو دوستوں کے ساتھ غیر رسمی گپ شپ میں بھی محتاط رہنا پڑے گا۔
خواجہ سعد رفیق بریفنگ میں قدرے تاخیر سے پہنچے۔ انہوں نے گزشتہ شب قومی اسمبلی میں آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے تسلسل کے حق میں بڑی جذباتی تقریر کی تھی۔ جس پر پنجاب ہائوس میں ان کے لیڈر نے پُرجوش مصافحے کے ساتھ انہیں بے ساختہ گلے لگا لیا تھا۔
وزارت ریلوے کی چار سالہ کارکردگی بلاشبہ قابل تعریف تھی۔ آئی سی یو میں پڑے مریض کو نئی زندگی کے ساتھ رواں دواں کر دینا کوئی معمولی کارنامہ نہیں‘ ایک صاحب کی تجویز تھی کہ آئندہ انتخابات میں (اگر یہ ہو جائیں) مسلم لیگ نون کی حکومت بنے تو خواجہ سعد رفیق کو قومی ایئرلائن کی ذمہ داری سونپ دی جائے۔
خواجہ سعد رفیق (اور ان کے پارٹنرز) کی ہائوسنگ سوسائٹی کے معاملات نیب میں اٹھائے جانے کی بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا‘ یہ سب کچھ ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں بھی ہو چکا۔ ان کا کہنا تھا‘ آئین کی بالادستی اور جمہور کی حکمرانی کے حوالے سے ان کی اپنی کمٹمنٹ ہے۔ ان کے والد نے آخری سانس تک یہ پرچم تھامے رکھا یہاں تک کہ بھٹو صاحب کے دور میں اسی ''جرم‘‘ میں جاں سے گزر گئے۔
جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا
انہیں فخر ہے کہ ان کے خاندان پر پاکستان کے چاروں فوجی آمروں میں سے کسی کی حمایت کا داغ نہیں۔ ان کے والد بھٹو دور میں شہید ہوئے تھے۔ تب ان کی عمر صرف دس سال تھی۔ ضیاء الحق نے شہید کی بیوہ کو مجلس شوری میں شمولیت کی پیشکش کی لیکن آمریتوں کے خلاف اپنے عظیم شوہر کی جدوجہد کا ایک ایک لمحہ انہیں یاد تھا۔ وہ ایک جرنیل کی شوریٰ میں شرکت پر غور کرنے کو بھی تیار نہ تھیں۔ فروری 2008ء کے عام انتخابات کے بعد زرداری صاحب کے ساتھ معاہدہ بھوربن کے بعد مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شرکت پر آمادہ ہوئی‘ تو مسلم لیگ کے 9 وزراء میں خواجہ سعد رفیق بھی تھے۔ ڈکٹیٹر مشرف سے وزارت کا حلف لینے کا فیصلہ‘ بہت مشکل فیصلہ تھا۔ پیپلز پارٹی والوں کے برعکس مسلم لیگیوں نے کالی پٹیاں باندھ کر حلف لیا۔ معاہدہ بھوربن میں زرداری صاحب نے ایک ماہ میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری والی (دو نومبر 2007ء کی) عدلیہ کی ایک ماہ میں بحالی کا وعدہ کیا تھا۔ وہ اس سے منحرف ہوئے تو مسلم لیگی وزراء نے وزارتوں سے مستعفی ہونے میں لمحے بھر کا تامل نہ کیا۔ اس کے باوجود خواجہ سعد رفیق اپنے دل میں اس پر شرمندگی سی محسوس کرتے ہیں۔