وہ جو حضرت غالب نے کہا تھا ؎
کام اچھا ہے وہی جس کا کہ مآل اچھا ہے
اور انگریزی میں کہا جاتا ہے:
"All is well that ends well"
22ویں روز‘ آخرکار فیض آباد دھرنا اختتام کو پہنچا جس نے دو روز قبل ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کر لی تھی۔ سیاسی (یا مذہبی) تحریکیں جس مقام پر ہفتوں میں پہنچتی ہیں‘ ہفتہ (25 نومبر) کے آپریشن کے بعد یہ تحریک دیکھتے ہی دیکھتے اُس مقام کو جا پہنچی تھی۔ ملک کے چھوٹے بڑے شہر اور قصبات تک اس کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔ کاروباری مراکز بند ہو رہے تھے۔ موٹروے سمیت چھوٹی بڑی شاہراہوں پر بھی مظاہرین کا قبضہ تھا۔ مسافر اپنے گھروں سے دور‘ پردیس میں پھنس کر رہ گئے تھے‘ پہیہ جام ایسی حالت تھی۔ یہ سب کچھ دھرنا والوں سے اظہار یکجہتی کیلئے تھا (جس طرح ہم مثلاً پی این اے کی تحریک میں دیکھتے تھے) دھرنے والوں کے فقہی مکتب فکر کی مساجد اور مدارس ہر چھوٹے بڑے شہر‘ قصبات اور دیہات تک میں موجود ہیں اور مظاہرین یہیں سے نکل آئے تھے۔ یہ کہیں درجنوں میں تھے اور کہیں سینکڑوں میں‘ جنہوں نے معاملات اپنے قابو میں کر لئے تھے۔ جی ٹی روڈ پر یہ کام اور بھی آسان تھا‘ جہاں شہر سے شہر جڑے ہوئے ہیں اور بعض جگہوں پر تو مساجد عین سڑک کے اوپر واقع ہیں۔ چالیس پچاس افراد بھی ڈنڈے لے کر سڑک پر آ جائیں تو مِیلوں تک ٹریفک جام ہو جائے‘ بازار کا رخ کریں تو دکانیں بند ہو جائیں۔ یہ سب کچھ اتنا آسان نہ ہوتا اگر حکومت (یا ریاست) اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش کرتی لیکن جون 2014ء کے سانحہ ماڈل ٹائون سے خوفزدہ حکومت خوف اور بے بسی کی علامت بن جاتی ہے‘ لال مسجد (اور جامعہ حفصہ) کا خوف اس سے سوا ہوتا ہے۔
وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی حکومت میں پولیس کی کئی اقسام وجود میں آ چکی ہیں‘ ایک تو وہی پنجاب پولیس تھی۔ پھر ایلیٹ فورس‘ محافظ‘ ڈولفن‘ ریپڈ ریسپانس اور کائونٹر ٹیررازم وغیرہ۔ انہیں قیمتی گاڑیاں‘ تیز رفتار موٹر بائیکس‘ جدید اسلحہ اور اعلیٰ ٹریننگ سمیت ہر ممکن وسائل مہیا کئے گئے ہیں‘ لیکن ایک کروڑ سے زائد آبادی والا شہر چند سو یا چند ہزار افراد کے قابو میں آ جاتا ہے۔
وہ جو کہتے ہیں‘ کامیابی کے سینکڑوں ''باپ‘‘ ہوتے ہیں‘ ہر کوئی اسے گود لینا‘ چومنا چاٹنا‘ کندھوں پہ اٹھانا اور سر پر بٹھانا چاہتا ہے لیکن ''ناکامی‘‘ لاوارث ہوتی ہے‘ کوئی بھی جسے ''اون‘‘ کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ احسن اقبال جیسا جرأت مند بھی اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ 25 نومبر کی صبح فیض آباد دھرنے کے خلاف آپریشن ابتدا میں قدرے کامیابی کے بعد بالآخر ناکامی سے دوچار ہوا۔ اس کا سبب ''مس ہینڈلنگ‘‘ تھی‘ ''مس کیلکولیشن‘‘ تھی یا مخالفین کی طاقت اور صلاحیت کو ''انڈر ایسٹیمیٹ‘‘ کیا گیا تھا؟ ماہرین اس بارے میں اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ اتنی سی بات تو سب نے نیوز چینلز آف ایئر ہونے سے پہلے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تھی کہ دھرنے والے ''تربیت یافتہ‘‘ بھی تھے۔ ان کے پاس لاٹھیاں اور دریائی پتھروں کے ساتھ غلیلیں بھی تھیں‘ اور پولیس والی آنسو گیس سے زیادہ موثر اور تیز گیس کے شیل بھی۔ وہ سی سی ٹی وی کیمروں کی کیبلز کی پہچان بھی رکھتے تھے اور انہیں کاٹنے کی صلاحیت بھی۔ اور ادھر ''غیر مسلح‘‘ پولیس تھی جس کے پاس آنسو گیس‘ ربڑ کی گولیوں اور واٹر کینن کے سوا کچھ نہ تھا۔ دنیا بھر کی پولیس کو فسادات پر قابو پانے اور امن و امان کو بحال کرنے یا برقرار رکھنے کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔ اس کی اولین ترجیح مظاہرین کو معمولی سا بھی جسمانی نقصان پہنچائے بغیر امن و امان کا تحفظ ہوتا ہے‘ لیکن وہ ''غیر مسلح‘‘ نہیں ہوتی۔ مشتعل اور بے قابو ہجوم سے نمٹنے کے لئے‘ ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جب اسے خوفزدہ کرنے کے لئے ہوائی فائرنگ ناگزیر ہو جاتی ہے۔ صورتحال مزید بگڑ جائے تو فائرنگ کا رُخ مظاہرین کے سینوں کی طرف نہیں‘ نیچے سڑک کی طرف ہوتا ہے‘ لیکن اپنے ہاں مظاہروں پر قابو پانے اور لڑنے مرنے پر تیار دھرنے والوں سے نمٹنے کے لئے پولیس کو ہتھیار لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
25 نومبر کی صبح آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے حکومت کو دھرنے والوں کی طاقت کے علاوہ اس تحریک کے ملک گیر ''پوٹینشل‘‘ کا بھی اندازہ نہ تھا تو کیا یہ انٹیلی جینس کی ناکامی تھی؟
اس سے کسے انکار ہو گا کہ عشق رسولؐ کے نعرے کے ساتھ یہ ایک سیاسی تحریک تھی۔ ملک کی سپریم انٹیلی جنس ایجنسی نے عدالت عظمیٰ کو جو رپورٹ دی‘ اس میں بھی اسے سیاسی مقاصد کا حامل قرار دیا گیا تھا۔ یہ الیکشن کمشن میں رجسٹرڈ ایک انتخابی سیاسی جماعت ہے جس نے لاہور کے حلقہ این اے 120 اور پشاور کے حلقہ این اے 4 کے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا۔ یہ ایک طرح سے ''گرائونڈ ٹیسٹنگ‘‘ تھی‘ لاہور میں اس نے 7 ہزار اور پشاور میں 9 ہزار ووٹ حاصل کئے۔
ہمیں اس کے سیاسی اور انتخابی ''پوٹینشیل‘‘ کا احساس چند ماہ پہلے ہوا۔ لاہور کینٹ کی والٹن روڈ پر واقع ایک قصباتی سی آبادی میں ہم اپنے ایک عزیز کی قل خوانی کے لئے گئے تھے۔ یہ ایک مخصوص مکتبِ فکر کی مسجد تھی۔ قرآن خوانی کے اختتام پر امام صاحب نے مرحوم کی مغفرت کی دعا کے بعد ایک اور صاحب کے بلندیٔ درجات کے لئے بھی دعا فرمائی۔ اس بار ''آمین‘‘ کی صدا زیادہ زوردار تھی۔ ان صاحب کی پھانسی کو سال بھر سے زائد عرصہ ہو چکا ہے‘ لیکن جذباتی علامت کے طور پر وہ اب بھی زندہ ہیں۔ آئندہ عام انتخابات میں بھی یہ علامت موجود ہو گی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جناب جسٹس شوکت صدیقی نے سوموار کی صبح وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کی (توہین عدالت میں) پیشی کے موقع پر اس دھرنے کے حوالے سے بعض سوالات اٹھائے ہیں۔ خالص آئینی اور اصولی حوالے سے یہ سوالات بجا‘ جمہوری ملکوں میں فوج کا کردار بلاشبہ منتخب حکومت کے Subordinate ادارے کا ہوتا ہے۔ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی سٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسران سے خطاب میں یہی بات یاد دلائی تھی۔ 1973ء کا آئین بھی پاک فو ج کے لئے اسی کردار کا تعین کرتا ہے اور موجود عسکری قیادت بھی اپنے اسی کردار کا اعتراف اور اعلان کرتی رہتی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 6 ستمبر کو جی ایچ کیو میں یوم دفاع کی تقریب میں بھی اسی کا اعادہ کیا تھا۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھی انہی دنوں اپنے ادارے کے اس کردار کی بات کی۔ پاکستان کے جمہوریت پسند عوام بھی اپنی فوج سے آئینی حدود کے اندر اسی کردار کی توقع رکھتے ہیں۔ (مختلف اداروں کی جانب سے کیے گئے ایک حالیہ سروے میں 81 فیصد عوام نے مارشل لا پر جمہوریت کو ترجیح دی) ہمیں اپنی جمہوری تمنائوں کے ساتھ اسی آئیڈیل پر قائم رہنا ہے‘ انہی خوابوں کی پرورش کرنا ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ (سابق چیف جسٹس افتخار احمد چودھری کے اس اعلان کے باوجود کہ نظریہ ضرورت بہت گہرا دفن ہو چکا) زمینی حقائق نہیں بدلے۔ خود سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی روش نہیں بدلی‘ سیاسی حکومت‘ سیاسی ادارے اور برسر اقتدار جماعتیں (تنظیمی لحاظ سے) مضبوط ہوں گی تو تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں رہیں گے۔ پاکستان کے جمہوریت پسند عوام پاک فوج سے محبت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کی تمام تر توجہ اپنے اصل کام پر مرکوز رہے‘ لیکن حالیہ دھرنے جیسی صورت حال ہو تو اس سے نجات کے لئے کسی ادارے کے ثالثی رول کو بھی غنیمت سمجھتے اور سکھ کا سانس لیتے ہیں۔