بدھ کی شام جناب شہبازشریف کی سعودی عرب کے لیے اچانک پرواز انگریزی محاورے کے مطابق ''ٹاک آف دی ٹائون‘‘ لیکن حقیقتاً ''ٹاک آف دی ہول کنٹری‘‘ بن گئی تھی‘ الیکٹرانک میڈیا میں اس روز کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز...سعودی عرب میں مقیم دوستوں نے بتایا کہ وہاں کے میڈیا کے لیے بھی یہ ایک بڑی خبر تھی۔ مصدق ملک (اپنی معلومات کی حد تک) اسے نجی دورہ قرار دے رہے تھے لیکن نجی دورہ یوں اچانک تو نہیں ہوتا۔ وزیراعلیٰ کی جمعرات کی سرکاری سرگرمیوں کا شیڈول طے تھا۔ اس میں خواجہ سعد رفیق کے حلقے میں‘ 1947ء کے مہاجرین کی یادگار والٹن میں ''باب پاکستان‘‘ کا افتتاح بھی تھا (چار ارب روپے کی لاگت سے جسے 2 سال میں مکمل ہونا ہے) اور یہ بھی کہ نجی دورے کے لیے میزبانوں کی طرف سے معزز مہمان کے لیے خصوصی طیارہ بھی نہیں آتا۔ یہ اُسی طرح کا طیارہ تھا جو سعودی عرب کی تشکیل کردہ اسلامی فوج کے سربراہ‘ ہمارے جنرل راحیل شریف کی آمدروفت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔شاعر نے کہا تھا ؎
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بُتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
دو روز بعد رخصت ہو جانے والا یہ سال شریف فیملی پر بہت بھاری گزرا ۔ پاناما کیس کے فیصلے والا 28 جولائی ان کے لئے سب سے بُرا دن تھا۔ پھر ''حدیبیہ‘‘ کا معاملہ بھی آ گیا‘ جس میں میاں محمد شریف (مرحوم) کا تقریباً سارا خاندان ملزم تھا‘ ضعیف العمر والدہ محترمہ کے علاوہ عباس شریف مرحوم کی بیوہ اور ان کے بچے بھی اس میں ملوث کئے گئے تھے۔ (فرزند لال حویلی اسے "Mother of all cases" قرار دیتا...''پاناما‘‘ میں شہبازشریف اور ان کے صاحبزادگان نہیں تھے۔ ''حدیبیہ‘‘ میں شہبازشریف کو اہم ترین کردار بتایا جا رہا تھا۔ یہ پورے خاندان کونشانِ عبرت بنانے کا پروگرام تھا۔
اُدھر واسطہ نوازشریف سے تھا۔ عام دنوں میں نرم و ملائم سے روّیے کا حامل یہ شخص آزمائش میں فولادی اعصاب کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے/جو عقل کا غلام ہو‘ وہ دل نہ کر قبول
ایک اور مقام پر فرمایا ؎
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے/عشق بے چارہ نہ ملا ہے‘ نہ زاہد‘ نہ حکیم
چیلنج درپیش ہو تو وہ حواس باختہ نہیں ہوتا۔ کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے چیلنج کو اس نے خود آواز دی ہو۔ تب وہ عقل کی نہیں‘ دل کی سنتا ہے۔ مُلا‘زاہد اور حکیم کی منطق اور استدلال دھرے رہ جاتے ہیں‘ وہ عشق کی پکار پر لبیک کہتا اور ہر طرح کے اندیشوں کو جھٹک کر سبک گامِ عمل ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اپنے رب پر ایمان اور اپنے نبیؐ سے محبت اس کے کام آتی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں میں رمضان المبارک کا شاید ہی کوئی آخری عشرہ ہو‘ جو اس نے مدینہ النبیؐ میں سبز گنبد کے زیرسایہ نہ بسر کیا ہو۔ اس کی جلاوطنی کے سات برسوں میں‘ ہم بھی ایک اخباری ادارے سے وابستگی کے باعث وہیں مقیم تھے۔ حرمین میں حاضری کے موقع پر اس کے جذب وکیف کو ہم نے ''شمعِ رسالت کے کئی پروانوں‘‘ سے بڑھ کر پایا۔
28 جولائی کے فیصلے کے بعد اس نے بیٹھ جانے کی بجائے کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا۔ رانا ثناء اللہ کے بقول‘ اس کے بیٹھ جانے سے پوری پارٹی کا بھٹہ بیٹھ جاتا۔ وفادار سیاسی رفقا کے علاوہ ہمت اور حوصلے والی بیٹی بھی اس کے شانہ بشانہ تھی...نہایت مشکلات کے عالم میں بھی اس نے حلقہ 120 کا ضمنی انتخاب جیت کر دکھا دیا۔معزول وزیراعظم کا بیانیہ بھی رنگ دکھا رہا تھا‘ رنگ جما رہا تھا...پندرہ دسمبر کے عمران خاں کیس کے فیصلے کو اس نے اپنے بیانیے میں نئی مثال بنا لیا‘ اب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ‘ جسٹس (ر)وجیہہ الدین اور عدلیہ بحالی تحریک کے اہم کردار علی احمد کرد ایڈووکیٹ سمیت قانون دانوں میں سے بھی کتنی ہی آوازیں تھیں جو خاموش نہ رہ سکیں۔
دکھوں کی سوغات والے 2017ء کے آخری مہینے میں شریف فیملی کے لیے راحت کا اہتمام بھی تھا۔ سپریم کورٹ نے ''حدیبیہ‘‘ کی لٹکتی ہوئی تلوار کو نیام میں ڈال کر دور پھینک دیا تھا۔ نوازشریف کے بیانیے کی ووٹرز میں وسیع پیمانے پر پذیرائی نے پارٹی میں Defections کو روکنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا ''حدیبیہ‘‘ کے فیصلے نے 2018ء کے عام انتخابات کے لیے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ کی قدروقیمت کو مزید مستحکم کیا‘ رہی سہی کسر نوازشریف کے 20 دسمبر کے ''اعلان‘‘ نے پوری کر دی‘ میاں شہبازشریف کو آئندہ وزیراعظم بنانے کا اعلان...کہنے والوں کو جسے بڑے میاں صاحب کا ماسٹر سٹروک کہنے میں عار نہ تھی۔ رائے عامہ کے جائزوں کے حوالے سے اعتبار اور وقار کے حامل ادارے‘ پنجاب میں اب بھی نوازشریف کی قیادت والی مسلم لیگ کو مقبول ترین قرار دے رہے تھے۔ پاناما کے پراپیگنڈے اور ''ختمِ نبوت‘‘ والے مسئلے کے باوجود مسلم لیگ نون عمران کی تحریک انصاف سے کم از کم دس پوائنٹ آگے تھی...آئندہ وزیراعظم کے لیے‘ ملک گیر سطح پر شہبازشریف کو 60 اور عمران خان کو 47 فیصد تائید حاصل تھی۔
عام انتخابات کی دلّی ''ہنوز دور است‘‘۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے 15 جولائی کو یومِ انتخاب قرار دیا ہے‘ لیکن اصل اور حتمی تاریخ الیکشن کمشن کو دینی ہے۔ حلقہ بندیوں والی آئینی ترمیم کی منظوری میں تاخیر کے باوجود الیکشن کمیشن نے بروقت انتخابات کے انعقاد کا چیلنج قبول کیا اور اس کے لیے ''شہباز سپیڈ‘‘ یا ''پنجاب سپیڈ‘‘ کے ساتھ سرگرم عمل ہے (شہبازشریف اسے ''پاکستان سپیڈ‘‘ کا نام دیتے ہیں) یکم جون کو حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کو 60 روز میں انتخابات کا عمل مکمل کرنا ہے۔ اس لحاظ سے 31 جولائی تک گنجائش ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 15 جولائی کی تاریخ وزیراعظم کی خواہش ہے‘ انتخابات کی اصل تاریخ کا اعلان خود الیکشن کمیشن کرے گا۔
لیکن لگتا ہے کہ آئندہ وزارت عظمیٰ کے لیے شہبازشریف کی ''نامزدگی‘‘ کو ''عالمی سطح‘‘ پر سندِ قبولیت حاصل ہونے لگی ہے۔ 23 دسمبر کو ایکسپو سینٹر لاہور میں یوم قائداعظم کی خصوصی تقریب میں شہبازشریف کی دعوت پر دو درجن کے لگ بھگ سینئر سفارت کاروں کی شرکت اور اگلے روز مفصل ملاقات کو بیشتر تجزیہ کار مستقبل کے وزیراعظم سے ملاقات کا اشارہ قرار دے رہے تھے۔ اب خصوصی طیارے میں شہبازشریف کی روانگی نے اس تاثر کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
سعودی عرب اور پاکستان میں تعلقات کی اپنی خاص نوعیت ہے‘ جن کا آغاز پاکستان کی ولادت سے بھی پہلے ہو گیا تھا۔ بانیٔ مملکت شاہ عبدالعزیز آل انڈیا مسلم لیگ کو برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت قرار دیتے۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں جمہوری حکومتوں کے ادوار تھے یا فوجی آمریت‘ ان تعلقات میں کوئی فرق نہ آیا۔ بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ
سقوط مشرقی پاکستان پر کتنی ہی راتیں تھیں جو شاہ فیصل نے بے خواب گزاریں۔ کہتے ہیں دنیا کی سب سے بڑی مسلمان مملکت کے ٹوٹنے پر شاہ بچوں کی طرح بلک کر رو دیئے تھے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بھی سعودی فرماں روا اپنا پروگرام قرار دیتے۔ جہاد افغانستان کے ماہ و سال میں پاک‘ سعودی تعلقات باہم شیروشکر کے آخری درجے کو پہنچ گئے‘ تب ضیاء الحق سعودیوں کے دل میں بستے تھے‘ یہی کیفیت نوازشریف کو ورثے میں ملی۔ مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے موقع پر عالمی اقتصادی پابندیوں کے دور میں سعودی بھائی ہی پاکستانیوں کے کام آئے‘ امریکہ سمیت ایک دنیا کی ناراضی کی پروا کے بغیر پاکستان کو تیل کی مفت فراہمی ''عشق‘‘ کی انتہا تھی۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد ولی عہد عبداللہ نے نوازشریف کو اپنا ''فل برادر‘‘ قرار دیا تھا اور یہ رشتہ انہوں نے تادمِ آخر نبھایا۔ اپنے منہ بولے بھائی کو‘ مشرف دور میں ''موت کے پنجے‘‘ سے نکال لے جانا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ 2007ء کے اواخر میں بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کے بعد‘ شاہ نے اپنے معزز مہمان کو خصوصی طیارے میں پاکستان روانہ کیا‘ اس کے خلاف مشرف کے تمام تر منت سماجت بیکار رہی۔
نوازشریف کی تیسری وزارت عظمیٰ کے آغاز ہی میں ڈیڑھ ارب ڈالر کا بے مانگے عطیہ بھی سعودیوں کی طرف سے اخوت و یگانگت کا ایک اور اظہار تھا۔ یمن کے مسئلے پر پیدا ہونے والا ''ڈیمیج‘‘ بھی رفتہ رفتہ کنٹرول کر لیا گیا۔ اب شہبازشریف سعودی عرب میں ہیں۔ کیا یہ ''مستقبل کے وزیراعظم‘‘ سے رسم عہدِ وفا کا اہتمام ہے؟