"RTC" (space) message & send to 7575

عاصمہ جیلانی سے عاصمہ جہانگیر تک

اپنے اصول اور نظریے کا بلاخوف و خطر اظہار اور اس کیلئے عملی جدوجہد میں جرأت و استقامت کے اوصاف اسے ورثے میں ملے تھے۔ منافقت اور مداہنت ، مصلحت اور مصالحت اسے چھو کر بھی نہ گزری تھی۔ اس حوالے سے وہ نجیب الطرفین تھی، ''ادبی دنیا‘‘ جیسے معتبر جریدے کے مدیر اور عہد ساز ادیب ''مولانا‘‘ صلاح الدین کی نواسی ۔ برادرم عطاء الرحمن کو فیلڈ مارشل ایوب خان کے عہدِ آمریت کا وہ واقعہ یاد ہے۔ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس کی آخری نشست‘ فیلڈ مارشل جس کے مہمانِ خصوصی تھے۔ ڈکٹیٹر کے عطا کردہ 1962 ء کے دستور میں پاکستان ''اسلامی جمہوریہ‘‘ کی بجائے صرف ''جمہوریہ‘‘ تھا۔ مولانا صلاح الدین کی اس پر سخت تنقید فیلڈ مارشل کیلئے ناگواریٔ طبع کا باعث تھی‘ اپنے خطاب میں وہ جس کا اظہار کئے بغیر نہ رہے... ملک غلام جیلانی کی صاحبزادی، جو ایوب خان کی اسمبلی میں جرأتِ اظہار کااستعارہ تھے۔ تب نواب آف کالا باغ مغربی پاکستان کا گورنر تھا‘ سیاسی مخالفین کیلئے غضب کی علامت۔۔ کیرٹ اینڈ سٹک کے تمام حربے ناکام رہے تو کرائے کے قاتل کی خدمات حاصل کی گئیں‘ شب کے اندھیرے میں جس کا نشانہ چُوک گیا، ملک صاحب کی بجائے ان کا مہمان‘ پاکستان پریس انٹرنیشنل کا نمائندہ ضمیر قریشی زد میں آگیا‘ جسے وہ دروازے پر الوداع کر رہے تھے۔ یحییٰ ‘ بھٹو ملی بھگت سے مشرقی پاکستان کی منتخب سیاسی قیادت (اور نمائندہ سیاسی جماعت) کیخلاف ملٹری آپریشن کو وہ قائد اعظم کے پاکستان کی سلامتی کیلئے جان لیوا سمجھتے تھے چنانچہ آپریشن کے شکار بنگالی بھائیوں کی حمایت میں مغربی پاکستان سے اٹھنے والی چند آوازوں میں ملک غلام جیلانی کی آواز بھی تھی۔ پنجاب کی ''محب وطن‘‘ رائے عامہ کی پروا کئے بغیر اس پر احتجاج کرنے والوں میں ایئر مارشل اصغر خان اور ''سدا کے غدار‘‘ ولی خاں بھی تھے۔ شاعروں میں حبیب جالب تھا جو چیختا رہا: 
محبت گولیوں سے بو رہے ہو 
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
جالب کی ''کالی زبان‘‘ 16 دسمبر کو سچ نکلی۔
اب بھٹو کا ''نیا پاکستان‘‘ تھا۔ انتخابی مہم میں بھی جنہیں سیاسی مخالفین کو ''فکس اپ‘‘ کر دینے کی دھمکیوں میں عار نہ ہوتی۔ نئے پاکستان کا دوسرا دن تھا جب ملک غلام جیلانی ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت گرفتار کر لئے گئے تب عاصمہ بیس سال کی تھی، قدرت نے قانون کی نوجوان طالبہ کی قسمت میں عالمی شہرت لکھ دی تھی۔ ''عاصمہ جیلانی کیس‘‘پاکستان کی سیاست اور عدالت کی تاریخ کا یادگار کیس بننے جا رہا تھا۔ ملک صاحب کی گرفتاری کو ان کی صاحبزادی نے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا تھا جس نے سماعت کیلئے سات دن کی تاریخ دیدی۔ اس سے ایک دن پہلے اس گرفتاری کو ڈیفنس آف پاکستان رولز کی بجائے مارشل لاء ریگولیشن 98 کے تحت کر دیا گیا اب ہائی کورٹ سماعت کی مجاز نہیں رہی تھی۔ 20 دسمبر کے انتقالِ اقتدار میں بھٹو صاحب کو یحییٰ خان کا مارشل لاء بھی منتقل ہو گیا تھا۔ اب وہ تاریخ کے پہلے سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے ۔ ادھر کراچی میں ڈان کے ایڈیٹر الطاف گوہر بھی مارشل لاء کے تحت گرفتار کر لئے گئے۔ سندھ ہائیکورٹ نے بیگم زرینہ گوہر کی درخواست کی سماعت سے معذرت کر لی تھی۔
عاصمہ جیلانی لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں چلی گئی اور یحییٰ خان کے مارشل لاء کی آئینی حیثیت کو چیلنج کر دیا جو بھٹو صاحب کو منتقل ہوا اور جسے وہ اپنے سیاسی مخالفین کا نا طقہ بند کرنے کیلئے استعمال کر رہے تھے۔ مارشل لاء کے زیر عتاب الطاف گوہر کی بیگم صاحبہ بھی اپنی اپیل لئے سپریم کورٹ پہنچ گئیں۔ چیف جسٹس جناب حمود الرحمن نے یہ کیس سماعت کیلئے منظور کر لیا تھا۔ پانچ رکنی بنچ کے دیگر ارکان میں جسٹس محمد یعقوب علی (لاہور ہائیکورٹ کے موجودہ چیف جسٹس جناب یاور علی کے والد محترم‘ جو بھٹو صاحب کے آخری برسوں میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی بنے) ،جسٹس سجاد احمد جان (سینیٹ کے سابق چیئر مین اور سابق وزیر قانون بیرسٹر وسیم سجاد کے والد)، جسٹس وحید الدین (جسٹس وجیہ الدین کے والد ) اور جناب جسٹس صلاح الدین شامل تھے۔ اے کے بروہی، منظور قادر، شریف الدین پیر زادہ ، ایم انور اور یحییٰ بختیار جیسے اپنے عہد کے عالمی شہرت یافتہ قانون دان اپیلوں کی پیروی کر رہے تھے۔ فاضل بینچ نے فیصلہ دیدیا، ''یحییٰ خان نے غیر آئینی طور پر اقتدار پر قبضہ کیا اور آئین منسوخ کر ڈالا، اس لئے ہم اسے غاصب اور اس کا مارشل لاء غیر آئینی قرار دیتے ہیں‘‘۔
چیف جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ یحییٰ سے بھٹو کومنتقل ہونے والے مارشل لاء کے خاتمے کی تمہید بن گیا؛ اگرچہ وہ قومی اسمبلی سے مارشل لاء کو غیر معینہ مدت تک جاری رکھنے کی ''منظوری‘‘ حاصل کر چکے تھے۔ انہوں نے 20 اپریل 1972 ء کو قومی اسمبلی سے ''عبوری آئین کی منظوری کے بعد مارشل لاء اٹھانے کا اعلان کردیا(عبوری آئین نے صدر مملکت ذوالفقار علی بھٹو کو بے پناہ اختیارات کے ساتھ سول ڈکٹیٹر بنا دیا تھا) سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ ''عاصمہ جیلانی کیس‘‘ کے عنوان سے قانون کی کتابوں کا شاندار باب بن گیا۔ اس کے فیض یا فتگان میں ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، جناب الطاف حسن قریشی اور مجیب الرحمن شامی صاحب کے علاوہ بائیں بازو کے حسین نقی اور مظفر قادر بھی تھے۔ جو مارشل لاء عدالت سے ایک ایک سال قید بامشقت ، ایک ایک لاکھ روپے جرمانے اور کسی اخبار یا رسالے کی ادارت سے تاحیات نااہلی کی سزا بھگت رہے تھے۔ 
شادی کے بعد وہ عاصمہ جہانگیر ہو گئی۔ کہنے والے نے کیا سچ بات کہی، چھوٹے سے قد اور منحنی سے جسم والی عورت، آئین کی بالادستی، جمہور کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور ظلم و زیادتی کے شکار افراد کے حقوق کیلئے جدوجہد کے حوالے سے اپنے عہد کی کیسی قد آور اور بھاری بھرکم شخصیت تھی۔جہاں جہاں ضرورت پڑی ، اس نے سول اور فوجی حکمرانوں کو ٹوکا اور ڈنکے کی چوٹ پر ٹوکا اور اس میں کسی خوف یا خواہش کو آڑے نہ آنے دیا۔
عاصمہ کا باپ بھٹو کا سخت ترین ناقد تھا جس کی قیمت بھی وہ ادا کرتا رہا۔ بھٹو کی بیٹی سے ملک غلام جیلانی کی بیٹی کی دوستی تھی لیکن یہ دوستی اس کے اصول اور نظریے کی راہ میں کبھی حائل نہ ہوئی۔ وہ اس دنیا سے رخصت ہوئی ہے تو عمر بھر اس کی فکر اور طرزِ عمل کی مخالفت کرنے والے بھی اسے خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ آصف محمود کو ''آپریشن اسامہ بن لادن‘‘ سے اگلے روز کا واقعہ یاد آیا جب عاصمہ وکیلوں سے کہہ رہی تھی ، اسامہ جو بھی تھا لیکن اس کی فیملی کو کیوں گرفتار کیا گیا تو کیوں نہ ہم اسامہ کے بیوی بچوں کی رہائی کیلئے آواز اٹھائیں؟
وہ پاک ‘ہندامن کی علمبردار تھی اور اس خواہش کے اظہار کیلئے چودہ اور پندرہ اگست کی درمیان شب واہگہ بارڈر پر دیے جلانے پہنچ جاتی لیکن اپنے وطن سے اس کی محبت کسی محب وطن سے کم نہ تھی۔ برہان الدین وانی کی شہادت والے دن وہ وہیں تھی‘ اسے اقوام متحدہ نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے سفیر بنا کر بھیجا تھا۔ کشمیر کے مسلمانوں پر بھارت کے ریاستی مظالم کے حوالے سے بھرپور رپورٹ اس کی انصاف پسندی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ واپسی پر وہ ہندوستان میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو پکار رہی تھی، تم اپنے دعوئوں میں سچے ہو تو آئو ہمارے ساتھ مل کر کشمیر کی آزادی کیلئے آواز بلند کرو۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی عدلیہ بحالی تحریک میں بھی وہ پیش پیش رہی لیکن چیف صاحب کا جوڈیشل ایکٹوزم (اس کے خیال میں) حدود عبور کرنے لگا تو اسے اس یاد دہانی میں بھی کوئی عار نہ تھی کہ ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہیں۔ وہ ''بار‘‘ اور'' بینچ‘‘ میں اچھے تعلقات کی خواہاں تھی لیکن بینچ کو بار کا سپہ سالار تسلیم کرنے پر تیار نہ تھی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں