عمران خان 29 اپریل کو لاہور میں مینار پاکستان پر ہونے والے جلسے کو 2018 ء کے انتخابی معرکے کا فیصلہ کن مرحلہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کے بقول 30 اکتوبر 2011ء کو یہیں مینار پاکستان پر ہونے والا جلسہ ''سونامی‘‘ تھا تو اب 29 اپریل کا جلسہ ''سونامی پلس‘‘ ہو گا۔ پاناما کیس کے (28 جولائی کے فیصلے کے) بعد نواز شریف کا جی ٹی روڈ مارچ اور اس کے بعد مختلف شہروں میں رابطہ عوام کے جلسے ، عوام کی شرکت (اور جوش و خروش) کے اعتبار سے تاریخی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔ خود عمران خان کے اپنے صوبے میں بھی پشاور اور سوات کے جلسوں نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے تھے۔ بعض مقامات پر تو ایسا بھی ہوا کہ جلسہ وہاں کی روایتی جلسہ گاہ کی بجائے کسی اور وسیع تر جگہ پر کرنا پڑا۔ ان جلسوں میں مریم بھی ساتھ ہوتیں۔ سوشل میڈیا کنونشن کے نام سے مریم کے ''سولو شو‘‘ بھی حاضری اور جوش و خروش کے لحاظ سے کم نہ تھے۔ ایک اور اہم بات یہ کہ ان کیلئے پورے صوبے سے حاضرین کو نہیں لانا پڑتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ ایک دو قریبی اضلاع کے ورکر چلے آتے۔ نیب کورٹ کو نواز شریف (اور بچوں) کیخلاف ریفرنسز کے فیصلے کیلئے دو ماہ کی اضافی مدت ملی تھی جو اگلے ماہ کے وسط میں مکمل ہو جائے گی۔ عمران خان (اور ان کے ترجمان) تو ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ اڈیالہ جیل میں کمرے کی صفائی ہو رہی ہے۔ باخبر اور بااعتماد صحافی جناب عارف نظامی نے بھی گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں فرمایا، فیصلہ لکھا جا چکا ( ''رسمی عدالتی کارروائی‘‘ کے بعد) اعلان ہونا باقی ہے۔ ویسے ان دنوں فرزند لال حویلی کم کم ہی سنائی اور دکھائی دے رہا ہے۔ کیا شکیل اعوان کی پٹیشن کے متوقع فیصلے کے خوف نے شیخ کو آ لیا ہے۔ راولپنڈی میں شیخ کے انتخابی حریف کا الزام ہے کہ اس نے کاغذات نامزدگی میں 983 کنال ظاہر کی جبکہ اس کی زیر ملکیت اصل اراضی 10,81 ہے۔ اس کے علاوہ ایک رہائشی سکیم میں اس نے اپنی زیر ملکیت ایک کنال اراضی کی ملکیت ایک کروڑ روپے بیان کی جس کی بکنگ پرائس ہی چار کروڑ اسی لاکھ روپے سے زائد تھی (موجودہ مارکیٹ پرائس 6 کروڑ روپے ہے۔) شیخ کے وکیل نے پٹیشن میں بیان کردہ ''حقائق‘‘ کو درست قرار دیا تاہم اس کا کہنا تھا کہ اس میں کسی بد دیانتی یا بدنیتی کا دخل نہ تھا، یہ محض حساب کتاب کی غلطی تھی۔ فرزند لال حویلی کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ شیخ ہے اور ایک ایک پیسے کا حساب کتاب رکھتا ہے، حیرت ہے کہ اپنے اثاثے بیان کرتے ہوئے وہ ایک دو کنال کی نہیں ، اکٹھے 98 کنال کی غلطی کر گیا۔ اسی طرح بحریہ والی زمین میں بھی بھول چُوک ایک آدھ لاکھ کی نہیں پونے چار کروڑ سے زائد کی ہے۔ مزید حیرت یہ کہ صبح و شام غریبوں میں اٹھنے بیٹھنے اور غریبوں کے ساتھ جینے مرنے کے دعوے کرنے والا ''انقلابی‘‘ اثاثوں کی قیمت کے حساب سے ماشاء اللہ ارب پتی نکلا۔ وہ جو اقبال نے کہا تھا ؎
دریشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری
اسی حوالے سے گزشتہ دنوں ایک دوست کی کال آئی۔ عجیب خبطی سا شخص ہے۔ شامی صاحب کہا کرتے ہیں ، دوستوں کو ان کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول اور (برداشت ) کرنا پڑتا ہے۔ اسی جذبے کے تحت ہم اپنے اس دوست کو بھی برداشت کرتے آ رہے ہیں۔ اس کا کہنا تھا‘ یہ جو پی ٹی آئی کے اجلاسوں میں اور عمران خان کے جلسوں، جلوسوں میں سفید بالوں والا دراز قد سمارٹ سا آدمی نظر آتا ہے‘ کون ہے ؟ ہم نے عرض کیا‘ جہانگیر ترین ہے اور کون ہے ؟ اس کا جواب تھا‘ وہ تو مجھے بھی معلوم ہے لیکن نواز شریف ہی کی طرح وہ بھی سپریم کورٹ سے سرٹیفائیڈ غیر صادق اور غیر امین ہے (اسے یہ بھی یاد تھا کہ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے بھی ترین صاحب سزا یافتہ ہیں۔ اپنے ملازمین کے نام سے اِن سائیڈ ٹریڈنگ کے ذریعے ایک سودے میں سات کروڑ روپے کمائے۔ یہ بات چھپی نہ رہی تو 17 لاکھ روپے جرمانے کے علاوہ ناجائز طریقے سے کمائے گئے سات کروڑ بھی واپس کرنا پڑے۔)
ہم نے یاد دلایا کہ سپریم کورٹ سے نااہل قرار پانے کے بعد اب ترین صاحب پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل نہیں رہے۔ لیکن فضول بحث پر تلے ہوئے اس خبطی کا اپنا استد لال تھا‘لیکن پارٹی میں ان کے اختیارات اور اثرو رسوخ کا تو اب بھی وہی عالم ہے۔ تمام اہم فیصلوں میں وہ اب بھی اسی طرح شریک ہوتے ہیں۔ ان کی اے ٹی ایم مشین بھی اسی طرح رواں دواں ہے۔
سچ بات یہ ہے کہ خود ہم بھی عمر کے ساتھ دماغی خلل سے دوچار ہوتے جا رہے ہیں۔ بات عمران خان کے 29 اپریل کے جلسے سے شروع ہوئی تھی‘ پھر نواز شریف (اور مریم ) کی رابطہ عوام مہم کی طرف نکل گئی۔ وسط مئی میں متوقع نیب عدالت کے فیصلے سے قبل جتنی بھی مہلتِ عمل ہے‘ وہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے نئی مہم پر نکلنے والے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اس دوران انہیں سندھ اور بلوچستان کا بھی رخ کرنا چاہیے۔ جرمِ وفا کی سزا میں بلوچستان کی وزارت اعلیٰ سے محروم ہونے والے نواب ثناء اللہ زہری بدھ کی صبح نیب کورٹ میں اپنے لیڈر کے ساتھ تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ میاں صاحب بلوچستان کیلئے بھی وقت نکالیں کہ وہاں کے عوام بھی ان سے وفاداری کا اظہار کر سکیں۔
ہم وفا کے اسی موڑ پر
چاک داماں کھڑے ہیں کہ جب
اپنے احباب گزریں ادھر سے کبھی
آئینہ دیکھ لیں
عمران خان 29 اپریل کے جلسے کو ''سونامی پلس‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بات چھپانے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اس میں ملک بھر سے لوگ شریک ہوں گے۔ انہوں نے 2018 ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی ٹکٹ کیلئے میرٹ بھی یہی رکھا ہے کہ اس سونامی پلس میں کس کا کتنا حصہ ہوگا۔ اکتوبر 2011 ء کے ''سونامی‘‘ میں بھی سندھ، بلوچستان اور کے پی سے لوگ آئے تھے لیکن غالب حصہ لاہوریوں کا تھاجو تبدیلی کے خواب آنکھوں میں سجائے کشاں کشاں چلے آئے تھے۔ آج عمران خان کے گردو پیش نظر آنے والے Electables میں سے تب شایدکوئی بھی سٹیج پر نہ تھا۔کہا جاتا ہے، اس جلسے کے اخراجات میں بڑا حصہ علیم خان کا تھا، لیکن اس نے بھی پی ٹی آئی میں شمولیت کا باضابطہ اعلان بعد میں کیا اور پھر اس ''سونامی‘‘ کے بعد موقع پرستی، ابن الوقتی اور موروثی سیاست کی علامت چہرے‘ خان کے گرد جمع ہو گئے‘جن کیخلاف تبدیلی کا نعرہ لے کر خان اٹھا تھا۔
29 اپریل کے جلسے کیلئے لاہور میں پی ٹی آئی کے جھنڈوں اور خان کی تصاویر والے بینروں اور فلیکسوں کی بھرمار ہے، لیکن لاہور والوں کا وہ جذبہ ، وہ موٹیویشن کہاں ؟ خان نے 2013ء کے الیکشن میں کراچی میں سات لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کئے تھے، لیکن پھرانہیں سنبھال نہ سکا۔ بلدیاتی الیکشن میں (جماعت اسلامی سے اتحاد کے باوجود) اس کے کامیاب امیدواروں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ کیا لاہور میں بھی خان اسی انجام سے دوچار ہو چکا ؟ حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب میں (حلقہ کی ''پیرافری‘‘ پر) خان کے جلسے خالی کرسیوں سے بھرے ہوتے تھے۔ 17 جنوری کو چیئرنگ کراس کے جلسے میں بھی خالی کرسیوں کا سامنا تھا۔ اپریل کے اوائل میں ممبر شپ مہم میں بھی خان کی کارنر میٹنگز عبرت کی مثال تھیں اور دو روز قبل لاہور میں اندرون شہر پانچ مقامات پر میٹنگز میں شرکت کئے بغیر اچانک اسلام آباد روانگی، کیا لاہور والوں کی سرد مہری کے باعث تھی یا سکیورٹی خدشات اس کا سبب تھے ؟ ایک ٹاک شو میں ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے ''خانگی وجوہات‘‘ کو اس کا سبب بتایا ، میڈیا میں بھی اس طرح کی خبریں آئیں، نعیم الحق جن کی تردید کرتے ہیں، ان کے بقول‘ بشریٰ بی بی بنی گالہ میں ہی موجود ہیں۔