''مسافروں‘‘ نے اُدھر سات سمندر پار سے ابھی اڑان بھی نہیں بھری تھی کہ اِدھر اعصاب ٹوٹنے لگے۔ ''متوالوں‘‘ کی گرفتاری کے لیے چھاپے، اور اس میں رات گئے دیواریں پھلانگنے سے بھی گریز نہ کیا گیا۔ ایئر پورٹ کی جانب جانے والے راستے بند کئے جانے لگے۔ ٹرانسپورٹروں کو دھمکیاں کہ وہ مسلم لیگی کارکنوں کی آمد و رفت کے لیے گاڑیاں مہیا نہ کریں۔ یہی سب کچھ 2004ء میں بھی کیا گیا تھا‘ جب شہباز شریف لندن سے لاہور ایئر پورٹ پہنچے تھے۔
شہباز شریف نے 10 دسمبر 2000ء کو جلا وطن ہونے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ تب وہ لانڈھی جیل میں تھے۔ طیارہ سازش کیس کے درجن بھر ملزموں میں وہ بھی تھے۔ امین اللہ چودھری وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ یہ ''پیشکش‘‘ رانا مقبول اور سعید مہدی کے لیے بھی تھی۔ رانا صاحب 12 اکتوبر 1999ء تک سندھ میں آئی جی پولیس تھے‘ اور سعید مہدی وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری ... کہتے ہیں، سرکاری افسروں کی اوّل و آخر ترجیح ان کی نوکری ہوتی ہے، بڑھتے گریڈز ان کی کمزوری بنتے جاتے ہیں۔ خصوصاً اپنے کیریئر کے Peak پر برطرفی ان کے لیے قیامت سے کم نہیں ہوتی۔ لیکن ان دونوں نے پُرکشش پیشکشوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور بد ترین آزمائشوں کے لیے تیار ہو گئے۔ خصوصی عدالت نے باقی تمام ملزموں کو با عزت بری کر دیا۔ طیارہ اغوا سازش کے واحد مجرم نواز شریف قرار پائے، جنہیں لانڈھی جیل سے اٹک قلعے کی کال کوٹھری منتقل کر دیا گیا۔ ایک دوسرے مقدمے (ہیلی کاپٹر کیس) کی سماعت یہیں ہوئی۔ شہباز شریف اور شاہد خان عباسی سمیت طیارہ سازش کیس کے بے گناہ ملزمان کو اندیشۂ نقصِ امن کے تحت لانڈھی جیل ہی میں رکھا گیا۔ نواز شریف کی طرح شہباز شریف بھی بالآخر ابا جی کے حکم پر جلا وطنی پر آمادہ ہوئے تھے۔
جلا وطنی کے دوران، سبزہ زار پولیس مقابلہ کیس میں شہباز شریف بھی نامزد تھے۔ اخبارات میں ان کی طلبی کا اشتہار شائع ہوا تو وہ پیشی کے لیے لاہور ایئر پورٹ پہنچ گئے۔ نواز شریف والی مسلم لیگ میں نقب لگا کرکھڑی کی جانے والی قاف لیگ اب برسرِ اقتدار تھی۔ باقی ماندہ مسلم لیگ نے ''ن‘‘ کے لاحقے کو اپنی پہچان بنا لیا تھا۔ شہباز شریف کی آمد پر لاہور سمیت پورے پنجاب میں سینکڑوں کی تعداد میں نون لیگی کارکن بد ترین کریک ڈائون کا شکار ہوئے اور شہباز شریف کو ایئر پورٹ سے ہی واپس جدہ روانہ کر دیا گیا۔
10 ستمبر 2007ء کو نواز شریف 10 سالہ (مبینہ) معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترے۔ انٹرنیشنل میڈیا کے علاوہ لارڈ نذیر احمد اور عرفان صدیقی بھی ان کے ہم سفر تھے۔ غلام مصطفی کھر نے اسے لائم لائٹ میں آنے کا اچھا موقع سمجھا؛ چنانچہ اس نے بھی اسی فلائٹ کے لیے ٹکٹ کٹوا لیا۔ بعض بد اندیشوں کے خیال میں کھر خفیہ والوں کے مشن پر تھے۔ لارڈ نذیر احمد اور عرفان صدیقی راوی تھے کہ نواز شریف سارے سفر میں مطمئن اور آسودہ رہے۔ آدھا وقت تو انہوں نے سوتے میں گزارا تھا۔ مسلم لیگی کارکن اپنے اپنے شہر میں بد ترین کریک ڈائون سے دوچار تھے۔ ادھر ایئر پورٹ کی طرف آنے والے راستے اس طرح بند تھے کہ چڑیا کے پر مارنے کی گنجائش بھی نہ تھی۔ شہباز شریف کو بھی بڑے بھائی کے ساتھ آنا تھا، لیکن نواز شریف نے انہیں ایئر پورٹ سے واپس بھجوا دیا... کہ پاکستان پہنچ کر دونوں ایک ہی وقت زد میں کیوں آئیں۔ میاں صاحب کو اسلام آباد ایئر پورٹ سے واپس جدہ دھکیل دیا گیا تو بیگم کلثوم ٹی وی سکرین پر نمودار ہوئیں، ''تم نے نواز شریف کو واپس بھجوا دیا‘ لیکن کھیل تو ابھی شروع ہوا ہے۔ اس کے بعد میں آئوں گی، میرے بعد شہباز آئے گا، تم کس کس کو روکو گے؟‘‘
اب نیب کے مجرمان، سزا بھگتنے کے لیے وطن واپس آ رہے ہیں۔ کارکن انہیں گرفتاری سے بچانے کے لیے نہیں، ان کے خیر مقدم کے لیے ایئر پورٹ پہنچنا چاہتے ہیں اور شہر میں دو دن پہلے ہی کریک ڈائون کا وہی عمل ہے، لیکن تب تو ڈکٹیٹر کی حکمرانی تھی، اب ملک میں جمہوریت ہے، قوم نئے انتخابات کے عمل سے گزر رہی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں ہموار میدان کی فراہمی آزادانہ و منصفانہ انتخابات کا بنیادی تقاضا ہے (اگرچہ اس سے قبل بہت کچھ ہو چکا۔ جہاندیدہ اور سرد و گرم چشیدہ جاوید ہاشمی کے بقول، ''مطلوبہ نتائج‘‘ حاصل کئے جا چکے... اس موقع پر انہوں نے ''محکمہ زراعت‘‘ کا ذکر بھی کیا... اور یہ اعلان بھی کہ میں نواز شریف کے استقبال کے لیے 13 جولائی کو لاہور ضرور جائوں گا۔ باپ بیٹی کی وطن واپسی جمہوریت کے لیے عظیم قربانی ہے۔ ورنہ برطانیہ میں سیاسی پناہ اور شہریت حاصل کرنے کے لیے صرف ایک کاغذ پر دستخط کی ضرورت تھی۔)
اِدھر ایک معتبر ذریعے سے ایک اور خبر بھی منظر عام پر آئی۔ نیب کے سزا یافتہ مجرم کے لیے ''پیغام‘‘ کہ وہ (اور اس کی بیٹی) وطن واپسی کا پروگرام ملتوی کر دیں او ر حالات بہتر ہونے پر ہی واپس آئیں... سوموار کی شام دیئے گئے اس پیغام کا جواب، دو دن بعد نواز شریف کی پریس کانفرنس کی صورت میں ملا۔ جیل کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی باپ بیٹی واپسی کے لیے پہلے سے بھی زیادہ پُرعزم تھے۔
نیب کورٹ کے 6 جولائی کے فیصلے سے ایک روز قبل ہم نے دو تین مسلم لیگی رہنمائوں سے جاننے کی کوشش کی کہ ملزموں کو سزا کی صورت میں متوالوں کا ردِ عمل کیا ہو گا؟ ان کا جواب تھا، یہ ہماری پوری طرح سوچی سمجھی حکمت عملی ہے کہ 25 جولائی کے عام انتخابات کے التوا کا کوئی بہانہ، کوئی جواز پیدا نہ ہونے پائے۔ سزا کے دو دن بعد پنڈی میں جو کچھ ہوا، اسی حکمت عملی کے عین مطابق تھا۔ مسلم لیگ (ن) کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کو ایک بڑا پولیٹیکل ایونٹ بنانا چاہتی تھی اور ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے اس کی یہ خواہش اور کوشش فطری تھی۔ کیپٹن (ر) صفدر کی ریلی میں کوئی ایک شیشہ ٹوٹا، نہ کوئی ایک پتھر پھینکا گیا، نہ کوئی ایک ٹائر جلا... ہزاروں پُرجوش متوالے پُرامن رہے اور امن و امان کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوا (لیکن اس کے بعد امن و امان کے ذمہ داروں کی طرف سے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا‘ ہمارے ہاں تو دیہات میں بھی کلچر ہے کہ قتل اور ڈاکے کے مقدمے میں بھی آدھے سے زیادہ گائوں ملزم کے ساتھ کچہری میں موجود ہوتا ہے...)
اب تین بار وزیر اعظم رہنے والا لیڈر، ملکی و بین الاقوامی سروے رپورٹیں جس کی جماعت کو آج بھی ملک کی مقبول ترین جماعت قرار دیتی ہیں، (اپنی بیٹی کے ہمراہ) خود کو قانون کے حوالے کرنے آ رہا ہے اور چاہنے والے اس کا پُرامن استقبال کرنا چاہتے ہیں، تو اس پر ایسی حواس باختگی کیوں؟
باپ بیٹی، زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار اپنی عزیز ترین ہستی کو خدا کے سپرد کرکے واپس آ رہے ہیں تو لاکھوں، کروڑوں دلوں کی دھڑکنیں تیز تر ہو رہی ہیں۔
اے زندگی سپردِ خدا کر دیا تجھے
بے فکر ہو گئے ترے سود و زیاں سے ہم
اب ملک میں جمہوریت ہے، قوم نئے انتخابات کے عمل سے گزر رہی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں ہموار میدان کی فراہمی آزادانہ و منصفانہ انتخابات کا بنیادی تقاضا ہے