تاثیر مصطفیٰ نے بڑی دلچسپ بات کہی۔ وہ مغیث کا بچپن کا دوست ہے۔ دونوں نے حضرت میاںمیر کی بستی دھرم پورہ میں آنکھ کھولی۔ عمر میں ڈیڑھ ‘ دوسال کا فرق تھا۔ دھرم پورے کی گلیوں میں اکٹھے کھیلتے کودتے ‘پروان چڑھے۔تاثیر کا کہنا تھا: مغیث اچھا بچہ تھا۔ اتنا اچھا کہ محلے کے والدین اسے آئیڈیلائز کرتے کہ ان کے بچے بھی اس جیسے ہوں۔
اب وہ پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ ہیں ‘ تدریس وتحقیق کی دنیا کا بڑا نام‘ جنہیں ہائر ایجوکیشن نے ''بیسٹ یونیورسٹی ٹیچر ایوارڈ‘‘سے نوازا اور حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ''اغرازِ فضیلت‘‘ عطا کیا۔ یاد آیا‘ سید مودودیؒ کو پہلا''شاہ فیصل ایوارڈ‘‘ ملا‘ تو شامی صاحب کے اداریے کا عنوان تھا: ''اعزاز کو اعزاز مبارک‘‘۔
66سالہ ڈاکٹر مغیث سے ہماری آشنائی کے ماہ وسال نصف صدی سے چار پانچ سال کم کا قصہ ہیں۔1973ء میں ہم نے پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں داخلہ لیا۔تب یونیورسٹی میں مغیث بھی موجود تھے۔ جاوید ہاشمی اپنی طلبا قیادت کا ڈنکا بجانے کے بعد رخصت ہوچکے تھے ‘لیکن طلبا سیاست پران کی گہری چھاپ اب بھی موجود تھی‘ بلکہ آئندہ کئی برسوں تک بھی ہاشمی ہی کو طلبا سیاست کا سب سے مضبوط اور توانا حوالہ رہنا تھا۔ وہ جو غالبؔ نے کہاتھا۔
ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں‘ اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
ہاشمی سے پہلے بارک اللہ خان تھے‘جنہوں نے ایوب خاں کی آمریت کے خلاف جواں جذبوں کی اوّلین تحریک کی قیادت کی گورنر کالا باغ کا قہر وجبر بھی ان کے حوصلوں کو پست نہ کرسکا۔ ہم اپنی اٹھتی جوانی میں ہی جمعیت کے اسیر ہوگئے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی آنے سے پہلے‘ ہاشمی کی زیر قیادت بنگلہ دیش نامنظور تحریک کے نعرے لگانے میں ہم بھی پیش پیش ہوتے۔ یونیورسٹی میں داخلہ لیا ‘تو یہاں جمعیت کا طوطی بولتا تھا۔ اس کے ''ارکان‘‘ کی میٹنگ میں ہم بھی شریک ہوتے۔ یہاں طلبا سیاست کے حوالے سے فیصلوں اور منصوبوں میں مغیث کا کردار بہت اہم ہوتا۔ ان کی رائے‘ اور تجاویز غور سے سنی جاتیں۔ انہوں نے بڑا سریلا گلا پایا تھا؛ چنانچہ اجتماع کا آغاز ان کی قرأت سے ہوتا۔ اڑھائی‘تین گھنٹے جاری ہونے والے اجتماع کے اختتام پر‘ ذہنی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے مغیث سے کچھ سنانے کی فرمائش کی جاتی۔ وہ عموماً فریدہ خانم کی گائی ہوئی صوفی تبسمؔ کی غزل سناتے۔
وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ
کہاں میں‘ کہاں یہ مقام اللہ اللہ
ہم وکیل بننے کے لیے یونیورسٹی میں داخل ہوئے تھے‘ لیکن فارغ التحصیل ہو کر کوچۂ صحافت میں چلے آئے۔ مغیث صاحب نے صحافت میں تدریس کو کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا۔ان کی زندگی کا یہ نیا(اور طویل)دور بھی ہنگامہ خیز رہا۔ وہ جو شاعر نے کہا تھا: جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ گئے!۔
مغیث جہاں بھی اور جس پوزیشن میں بھی رہے‘ اپنا نقش بنایا‘ اپنا سکہ چلایا۔ خود ان کے اپنے الفاظ میں ''شاہراہِ زندگی پر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھنا کبھی گوارا نہیں کیا۔ ہمہ رنگ زندگی میں قدم قدم پر میرا واسطہ خیر خواہوں کے ساتھ ساتھ بد خواہوں سے بھی پڑا‘ مگر میں اپنی ڈگر پر رواں دواں رہا۔ ناکامیوں کو بھی کامیابیوں کی کلید سمجھا اور بندگلی میں بھی اپنے حوصلے اور جذبے کی بدولت راستہ تلاش کیا اور کسی شے کو پائوں کی زنجیر نہیںبننے دیا‘‘۔
پی ایچ ڈی کے لیے امریکہ کی یونیورسٹی آف آئیووامیں داخلہ لیا اور ایک سال‘ گیارہ ماہ ‘ دو ہفتے میں یہ پہاڑ سرکرلیا۔(سوشل سائنسز میں پی ایچ ڈی کے لیے پانچ چھ سال تو معمول کی بات ہیں)انہیں یہاں نوم چومسکی اور ایڈورڈ سعید جیسے شہرۂ آفاق استادوں سے فیض حاصل کرنے کا موقع بھی ملا۔
پاکستان اور اس کے بنیادی نظریے سے عشق ‘ مغیث کو گھٹی میں ملا۔ اس حوالے سے وہ کبھی کسی مداہنت یا مصلحت کا شکار نہیںہوئے۔مغیث کو آج بھی 16دسمبر1971ء یاد ہے۔ ''میں پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کی سیڑھیاں اترر ہاتھا۔ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ایک سینئر اور بزرگ پروفیسر محترمہ نسیم شوکت‘ جو ساڑھی پہنتی تھیں‘ وہاں کھڑی تھیں۔ انہوں نے عینک لگائی ہوئی تھی اور آنکھیں آنسوئوں سے لبریز تھیں۔ مجھے روک کر کہنے لگیں: مغیث ! روتے کیوں نہیں ہو؟ رونے کا اور کون سا دن ہوگا؟ وہ ایسے کرب ناک دن تھے کہ لگتا تھا جیسے گھر میں کوئی مرگ ہوگئی ہو۔ اب بھی 16دسمبر آتا ہے‘ تو میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنی نسلوں کو بتائوں کہ آج کون سا دن ہے‘ آج ہمارے ساتھ کیا ہواتھا؟ہمیں رونا پیٹنا تونہیں چاہیے ‘لیکن مستقبل کی بہتری کے لیے وہ واقعات اور اسباب ضرور ذہن نشین رکھنے چاہئیں ‘جو اس سنگین المیے کی بنیاد بنے‘‘ ۔
مختلف عالمی تحقیقی مجلوں میں ڈاکٹر مغیث کے35 سے زائد تحقیقی مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ امریکہ سے شائع ہونے والے انسائیکلو پیڈیا آف انٹرنیشنل میڈیا اینڈ کمیونیکیشن پر نظر ثانی بھی کی۔ امریکہ سے واپسی پر1994ء میں دوبارہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے منسلک ہوگئے۔ یہاں چیئر مین بنے تو اسے نئی اور وسیع تر جہت دینے میں لگ گئے اور اسے انسٹی ٹیوٹ کے درجے تک پہنچا دیا۔ اس کے بانی ڈائریکٹرکے ہونے کے ساتھ وہ ''ڈین‘‘ بھی ہوگئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد‘ ایک نجی یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے اور ان دنوں یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے سکول آف میڈیا کمیونیکیشن‘ سٹڈیز کے سربراہ ہیں۔
شبانہ روز پیشہ وارانہ مصروفیات کے باوجود ‘ ڈاکٹر مغیث نے اپنی خود نوشت کے لیے بھی وقت نکال لیا ''سسکتی مسکراتی زندگی‘‘ کے 331صفحات میں‘ انہوں نے اپنی ہنگامہ خیز زندگی کے روز وشب یوں سمودیئے ہیں کہ ''وہ لکھے اور پڑھا کر ے کوئی‘‘والا معاملہ بن گیا ہے۔ اس میں اُس دور کی طلبا سیاست کا احوال بھی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سے اٹھنے والی تحریکیں ‘سٹوڈنٹس پالٹکس میں رائٹ اور لیفٹ کی کشمکش ( خصوصا بھٹو دور میں سٹوڈنٹس سیاست میں پیپلز پارٹی اور حکومت کی مداخلت) مغیث صاحب کے اپنے شعبے کے اساتذہ کرام کی سیاست بازی اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا عمل ‘ امریکہ میں پی ایچ ڈی کے دوران دلچسپ حالات اور معلومات افزا واقعات ‘بیرونی دوروں کا سفر نامہ ‘ جہاد افغانستان (اور اس میں جنرل ضیاء الحق کا کردار...گلبدین حکمت یا رسے ذاتی تعلقات)اور پاکستانی سیاست اور صحافت کی 12ممتاز شخصیات سے شخصی معاملات اور تعلقات کا احوال۔
خودنوشت میں مغیث نے ذاتی پسند ‘ناپسند سے بالا تر رہتے ہوئے معروضیت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ وہ دورِ طالب علمی میں جمعیت سے وابستہ رہے تھے‘ لیکن یونیورسٹی میں انتظامی ذمہ داریاں سنبھالیں ‘تواسے قواعد وضوابط کے خلاف کوئی رعایت دینے پر آمدہ نہ ہوئے۔ اس حوالے سے بعض دلچسپ واقعات بیان کرتے ہوئے لکھا : نتیجہ یہ ہوا کہ وہ میرے دشمن بن گئے‘ مجھے خوف زدہ کرنے کے لیے جوتوں کے ڈبے میں کفن ڈال کر اگربتیوں سمیت میرے گھر میں پھینکا گیا۔ میرے خلاف پوسٹر لگائے گئے۔ میری کردار کشی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی... میرے ڈیپارٹمنٹ پر حملہ کیا۔ میرے کوٹ پر ہاتھ ڈالا‘ مگر میں نے پریس کانفرنس کی اور سب کو معاف کردیا کہ شاید یہ لوگ سدھر جائیں اور ان کا مستقبل تباہ نہ ہو۔ علامہ علائوالدین صدیقی سے ڈاکٹر مجاہد کامران تک‘ ڈاکٹر مغیث کا پنجاب یونیورسٹی میں جن وائس چانسلرز سے واسطہ رہا‘ ان کے بارے میں تاثرات بھی دلچسپ اور چشم کشاہیں (ضروری نہیں کہ آپ ان سے اتفاق بھی کریں)
تقریب رونمائی میں ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر کتاب کے عنوان میں لفظ ''سسکتی‘‘ سے اختلاف کئے بغیر نہ رہیں کہ ''سسکتی‘‘ تو کمزور ‘ بے بس ‘ بے کس اور ناتواں چیزیں ہیں‘ جبکہ ڈاکٹر صاحب کو تو ہم نے بدترین حالات میں بھی کمزور نہ پایا‘ایسے میں بھی وہ گرجتے‘ برستے اور چیختے ‘ چنگھارتے نظر آئے۔ اپنے ہاں''سسکتی‘‘ تو ناتواں جمہوریت ہے‘ ہانپتی کانپتی معیشت ہے‘ سسکتا تو آزادیٔ اظہار والا آرٹیکل 19ہے اور سنگین غداری والا آرٹیکل 6ہے۔ ڈاکٹر لبنیٰ بات کو کدھر لے گئی تھی اور ہال میں تالیوں کی گونج تھی۔