منگل کی سہ پہر، جس وقت یہ سطور قلم بند کی جا رہی ہیں، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں صدارتی انتخابات کا عمل مکمل ہو چکا۔ نویں، دسویں کی جنرل سائنس میں ہم نے آکسیجن کے اوصاف پڑھے تھے، بے رنگ، بے بو، بے ذائقہ۔ 4 ستمبر کو منعقد ہونے والے اس صدارتی انتخاب کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہو گیا تھا۔ ایک ایسا انتخاب جس کا نتیجہ سب کو معلوم تھا۔ الیکشن میں کسی امیدوار کی فتح سو فیصد یقینی ہو، دیوار پر موٹے موٹے الفاظ میں لکھی ہوئی تحریر، جو اندھوں کو بھی نظر آ رہی ہو، تو مزاحاً کہا جاتا ہے کہ باقی امیدواروں میں اب مقابلہ دوسری پوزیشن کے لیے ہے، لیکن یہاں تو اس حوالے سے بھی دلچسپی کا عنصر موجود نہیں تھا۔ مسلم لیگ (ن) سمیت ''متحدہ اپوزیشن‘‘ کے امیدوار مولانا فضل الرحمن اور پیپلز پارٹی کے بیرسٹر اعتزاز احسن میں سے کون کتنے پانی میں تھا؟ ''الیکٹورل کالج‘‘ کے اعداد و شمار سب کو نظر آ رہے تھے۔ دوسری پوزیشن کے لیے مولانا کو اپنے حریف پر واضح برتری حاصل تھی۔
حکمران جماعت کو صدارتی انتخاب میں ٹف ٹائم دیا جا سکتا تھا، خود اسے بھی اندازہ تھا کہ یہ انتخاب اس کے لیے ٹیڑھی کھیر ثابت ہو سکتا ہے۔ تبھی تو جہانگیر ترین کو غیر ملکی کاروباری دورہ مختصر کر کے واپس آنے کو کہا گیا۔ پنجاب کے نامزد گورنر چودھری سرور، سینیٹ کے رکن تھے، گورنری کا اِن کا حلف صدارتی انتخاب تک ملتوی کر دیا گیا کہ جناب عارف علوی کے انتخاب کے لیے ایک، ایک ووٹ اہم ہو گیا تھا۔ لیکن زرداری صاحب کا اپنا کھیل تھا۔ زیادہ صحیح الفاظ میں یہ کسی اور کا کھیل تھا، جو وہ کھیل رہے تھے۔ کہا جاتا ہے، جنرل راحیل شریف کے دور میں، دھمکیوں والی اُس تقریر کے بعد اختیار کردہ (خود ساختہ) جلا وطنی سے واپسی ایسے ہی نہیں ہوئی تھی۔ نئے کھیل میں انہیں اہم کردار ادا کرنا تھا۔ بلوچستان میں تبدیلی اور مارچ کے سینیٹ انتخابات میں ''مطلوبہ نتائج‘‘ میں وہ مددگار ہوئے۔ سٹاک مارکیٹ کی طرح یہاں بھی روز کے روز بھائو نکلتا تھا۔ اس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے... پیر پگاڑا (مرحوم) ''بلی اور چوہے کا کھیل‘‘ کہا کرتے تھے۔ یہاں بھی ایک اور انداز میں یہی کھیل تھا؛ البتہ سکرپٹ اور کردار مختلف تھے۔
25 جولائی کے عام انتخابات کے بعد اپوزیشن کا کیا غلغلہ تھا جو بلند ہوا۔ عمران خان کی پی ٹی آئی سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت سے ابھر آئی تھی (اس حوالے سے اپوزیشن کی شکایات اور آزاد منش میڈیا پرسنز کے مشاہدات اپنی جگہ) لیکن وزارتِ عظمیٰ کی منزل تک خاصا لمبا سفر تھا‘ جو اسے طے کرنا تھا؛ تاہم خان کی وزارتِ عظمیٰ کی راہ کھوٹی کرنے کا خواب کوئی دیوانہ ہی دیکھ سکتا تھا۔
لیکن اپوزیشن بھی عددی اعتبار سے خاصی بھاری بھرکم تھی۔ سینیٹ میں تو یہ دو تہائی اکثریت سے بھی بڑھ کر تھی۔ کہا گیا، ایک تبدیلی پی ٹی آئی لائے گی دوسری طرف سینیٹ میں تبدیلی اپوزیشن کے ہاتھوں برپا ہو گی۔ سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی تحریک عدم اعتماد کی نذر ہو جائیں گے۔ اپوزیشن جماعتوں نے ''پاکستان الائنس فار فیئر اینڈ فری الیکشن‘‘ کے نام سے متحدہ جدوجہد کے عزم کا اظہار کیا‘ جس کا اعلان خود پی پی پی کی شیری رحمان نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ (حیرت ہے، کائرہ جیسے سنجیدہ اور معتبر سمجھے جانے والے لیڈر کو بھی یہ کہنے میں کوئی حجاب نہیں ہوتا کہ وہ کوئی الائنس نہیں تھا، محض ایک انڈر سٹینڈنگ تھی، ایک ارینجمنٹ... جی ہاں! یہ حقیقت تو واشگاف ہو چکی کہ آپ کا وہ ارینجمنٹ کس لئے تھا اور کس کے ساتھ تھا... پھر ''الائنس فار فیئر اینڈ فری الیکشن‘‘ سے بیک آئوٹ کا آغاز ہوا، وزارتِ عظمیٰ کے لیے شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے کا اعلان۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے مؤقف کا بودا پن کسی دلیل کا محتاج نہیں۔ مسلم لیگ (ن) تو شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے کے اعلان کے بعد بھی، الائنس کے فیصلے کے مطابق قومی اسمبلی کے سپیکر کے لیے پی پی پی کے امیدوار کو ووٹ دینے کے معاہدے پر قائم رہی‘ لیکن پیپلز پارٹی نے پنجاب اسمبلی میں بھی وزارتِ اعلیٰ اور سپیکر و ڈپٹی سپیکر کے الیکشن میں Abstain کیوں کیا؟
اور اب صدر کے انتخاب میں بھی پیپلز پارٹی کا رویہ معروف سیاسی اخلاقیات سے کوسوں دور تھا۔ اس نے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے مشاورت کے بغیر بیرسٹر اعتزاز احسن کے نام کا اعلان کر دیا اور مطالبہ کیا کہ اپوزیشن جماعتیں اس کے یک طرفہ فیصلے پر عملدرآمد کریں۔ اعتزاز کے بارے میں شامی صاحب کے ایک کالم کا سدا بہار فقرہ یاد آیا: ان میں کوئی ایسی چیز ہے جو انہیں مقامِ رفعت پر ٹکنے نہیں دیتی۔ پیپلز پارٹی سے وابستگی کے باوجود، مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ ایک دور میں اعتزاز کی گاڑھی چھنتی تھی۔ زرداری صاحب کی ناراضی (بلکہ ان کی جھڑکیوں) کے باوجود عدلیہ بحالی کے حوالے سے ان کا موقف، نواز شریف کے مؤقف سے ہم آہنگ تھا۔ 15 مارچ 2009ء کو نواز شریف عدلیہ بحالی کے لیے لانگ مارچ پر روانہ ہوئے، تو اعتزاز بھی اپنی نظر بندی توڑ کر، میاں صاحب کی گاڑی میں جا سوار ہوئے (یہ گاڑی حمزہ شہباز چلا رہے تھے) اس صبح پولیس اعتزاز احسن کے گھر پہنچی، انہیں ہائوس اریسٹ کا نوٹس دکھایا، میڈیا بھی وہاں موجود تھا۔ اعتزاز نے دھواں دھار گفتگو کے بعد یہ نوٹس وصول کیا اور اندر جا کر نظر بند ہو گئے۔ ادھر میاں صاحب سب پابندیوں کو روندتے ہوئے ماڈل ٹائون سے نکل کھڑے ہوئے... پولیس پسپا ہوتی چلی گئی۔ چند روز پہلے صدر زرداری کے حکم پر پنجاب میں شہباز شریف حکومت کی جگہ گورنر راج نافذ ہو چکا تھا۔ میاں صاحب کے نکلتے ہی سارا لاہور بھی سڑکوں پر نکل آیا۔ اعلیٰ پولیس حکام نے گورنر سلمان تاثیر کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کر دیا تھا۔ ادھر اعتزاز بھی نظر بندی توڑتے ہوئے میاں صاحب کی گاڑی میں جا سوار ہوئے... جی ٹی روڈ پر لوگ ہی لوگ تھے، پنڈی اور اسلام آباد میں بھی جذبوں کا طوفان انگڑائی لے رہا تھا۔ تب جنرل کیانی ہیلی کاپٹر پر ایوانِ صدر اُترے۔ وزیر اعظم گیلانی اور وزیر داخلہ رحمن ملک بھی موجود تھے۔ وہیں سے جنرل کیانی کی کال آئی۔ میاں صاحب نے اعتزاز سے کہا کہ وہ خود سن لیں۔ جنرل صاحب، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت 3 نومبر والی عدلیہ کی بحالی کی خوشخبری دے رہے تھے۔
مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت سے ''غلطی‘‘ یہ ہوئی کہ 2013ء کے الیکشن میں لاہور کے حلقہ 124 سے اس کے امیدوار شیخ روحیل اصغر نے، بیگم اعتزاز کے مقابلے میں نہ صرف الیکشن لڑا بلکہ بیگم صاحبہ کی ضمانت بھی ضبط کرا دی۔ بہاول بخش کے پوتے کے لیے یہ زخم بہت گہرا تھا (ادھر مارچ کے انتخابات میں وہ خود بھی سینیٹ سے فارغ ہو گیا) تب سے اس نے مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت کو نشانے پر رکھ لیا تھا۔
بیگم کلثوم نواز صاحبہ کی علالت کے دوران بھی اعتزاز احسن نے جو ریمارکس دیے، وہ ان کے مقام و مرتبے سے فروتر تھے۔ 13 جولائی کو میاں صاحب اور مریم کی واپسی میں بھی بیرسٹر صاحب کو کوئی ''این آر او‘‘ نظر آ رہا تھا۔ اب صدارتی انتخاب میں پرویز رشید کے اس ''مطالبے‘‘ کو کہ بیرسٹر صاحب اڈیالہ جیل جا کر میاں صاحب سے معافی مانگیں، میاں صاحب کے متوالے کا جذباتی رد عمل کہہ لیں، لیکن مسلم لیگ (ن) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے لیے اصل معاملہ جناب زرداری (اور ان کی پیپلز پارٹی) کا رویہ تھا۔ وہ مسلم لیگ (ن) سمیت اپوزیشن کی دس جماعتوں سے سرِ تسلیم خم کا تقاضا کر رہے تھے۔ لیکن پس پردہ کھیل کچھ اور تھا جو پسِ پردہ بھی نہیں رہا تھا۔
جناب عارف علوی کو ''واک اوور‘‘ مل گیا۔ قائد اعظم کے پاکستان کے 13ویں، اور بھٹو کے نئے پاکستان کے 10ویں صدر کو یہ منصبِ جلیلہ مبارک ہو۔