ملک کے ممتاز اور بزرگ استاد کی گرفتاری کا صدمہ ہی کم نہ تھا، کہ اگلے روز ہتھکڑیوں کے ساتھ نیب کورٹ میں اس کی پیشی ایک اور قیامت ڈھا گئی۔ دنیا نیوز پر شامی صاحب (اور جامی) کے ''نقطۂ نظر‘‘ نے بیرونِ ملک بھی اسے ہر اُس جگہ پہنچا دیا جہاں پاکستانی بستے ہیں۔ ایک اور ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں ڈاکٹر حسین احمد پراچہ، پی ٹی آئی کے جاوید حیدر گردیزی اور اس کالم نگار کی صدائے احتجاج کا کلپ بھی یار لوگوں نے وائرل کر دیا۔ یہ پروفیسر ڈاکٹر چودھری محمد اکرم کے ساتھ نیب والوں کے شرمناک سلوک کی کہانی ہے۔ اس سے پہلے بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خواجہ علقمہ کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا گیا تھا، ہتھکڑیوں کے ساتھ عدالت میں پیشی۔ ہمیں حیرت تھی کہ کسی یونیورسٹی کی سٹاف ایسوسی ایشن، کالجوں اور سکولوں کے اساتذہ کی کسی تنظیم یا سول سوسائٹی کے کسی گروپ نے اس پر کسی علامتی احتجاج کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔ ڈاکٹر خواجہ علقمہ، ڈھاکا والے خواجگان کے چشم و چراغ تھے۔ 1906ء میں ڈھاکا میں مسلم لیگ کے تاسیسی اجلاس سے لے کر 14 اگست 1947ء کو پاکستان کے قیام تک، جن کی جدوجہد تاریخ کا سنہری باب ہے۔ قیام پاکستان کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل کے طور پر بانیٔ پاکستان اور پھر وزیرِ اعظم کے طور پر لیاقت علی خان کے جانشین بنے۔ ڈکٹیٹر ایوب خان کے مقابلے میں وہ مادرِ ملت کے کاروانِ جمہوریت کے ہراول دستے میں تھے۔ علقمہ کے والد خواجہ خیرالدین نے سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد، قائد اعظم کے باقی ماندہ پاکستان کو مسکن بنا لیا۔یہ بھٹو کا نیا پاکستان تھا‘ جس میں خواجہ خیرالدین نے قائد کے جمہوری نظریات کا پرچم بلند رکھا‘ اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء میں بھی وہ جمہوریت کا پرچم تھامے رہے۔ وہ مسلم لیگ کے اس دھڑے کے سربراہ تھے جو ایم آر ڈی کا حصہ تھا۔
علقمہ پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت BZU کی فرنچائز دینے میں بے قاعدگی کا الزام تھا۔ وہ کسی غیر قانونی حرکت کے مرتکب ہوئے تھے تو ان کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہیے تھی‘ لیکن کیا اس کے لیے انہیں ہتھکڑیاں لگانا بھی ضروری تھا؟ یہی معاملہ اب ایک اور شیخ الجامعہ کے ساتھ تھا۔
ڈاکٹر محمد اکرم چودھری اکتوبر 2007 ء میں سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ اکتوبر 2011 ء میں چار سالہ ٹرم مکمل ہوئی تو خادم اعلیٰ نے چار سال کی دوسری ٹرم بھی انہیں سونپ دی۔ ان برسوں میں سرگودھا یونیورسٹی نے کامرانیوں کے کیسے کیسے سنگِ میل عبور کر لئے تھے۔ بے مقصد اور بے مصرف تعلیمی ڈگریوں کے ساتھ معاشرے میں بیکار اور بیروزگار نوجوانوں کی فوج ظفر موج کی بجائے 21ویں صدی کے جدید تقاضوں کے مطابق نوجوانوں کی تیاری، ڈاکٹر اکرم (اور ان کے رفقا) کا بنیادی ویژن تھا، جس کے لیے ایگریکلچر، مینجمنٹ اینڈ ایڈمنسٹریٹو سائنسز، انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز سمیت 9 فیکلٹیز بروئے کار تھیں۔ طلبا و طالبات کی تعداد 25 ہزار کے قریب پہنچ گئی تھی‘ جن میں 67 فیصد سے زائد طالبات تھیں۔ وائس چانسلر کو اساتذہ میں جہاں بھی جوہرِ قابل نظر آیا، ''منہ مانگی قیمت‘‘ پر لے آئے۔ تب یہاں 812 اساتذہ میں سے 248 پی ایچ ڈی اور 187 ایم فل تھے۔ انٹرنیشنل ریسرچ جرنلز میں ان کی پبلیکیشنز کی تعداد 500 تک پہنچ گئی تھی۔ یونیورسٹی نے خصوصاً زراعت کے شعبے میں ایسی ایسی تحقیق کی کہ ڈاکٹر صاحب بیان کررہے تھے اور ہم خوشگوار حیرت میں ڈوبے جارہے تھے۔ ان میں گنے کی8 سے 12سال تک بیماری سے محفوظ رہنے والی ورائٹی بھی تھی۔ Stevia نامی ایک پودے کے ذریعے چینی کے متبادل کی تلاش ایک الگ کارنامہ تھا۔ سٹرس نرسری سے کسانو ں کو بیماری سے پاک پودے رعایتی قیمت پر مہیا کئے جانے لگے۔ ہڈیوں سے تیار ہونے والی جیلاٹن کے متبادل کی، اسپغول کے ذریعے تیاری ایک الگ اچیومنٹ تھی۔ جدید تحقیق کے ذریعے خوردنی تیل کی مدت استعمال (شیلف لائف)میں ایک سال کا اضافہ الگ تھا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں ایسی جڑی بوٹیاں سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں جنہیں امریکی اور یورپی کمپنیاں اینٹی کینسر میڈیسنزمیں استعمال کرتی ہیں اور پھر یہ ادویات کئی سوگنا قیمت پر پاکستان میں دستیاب ہوتی ہیں۔ سرگودھا یونیورسٹی نے اینٹی کینسرمیڈیسنز پر تحقیق کا ڈول بھی ڈالا۔ فیکلٹی آف فارمیسی نے ایسا منرل واٹر تیار کیا جسے کوالٹی کنٹرول والوں نے پاکستان کا بہترین منرل واٹر قرار دیا۔ اس کی ایک لاکھ سے زائد لٹر کی روزانہ پیداوار یونیورسٹی کی آمدن کا اہم ذریعہ تھی۔ یہاں کے ڈائیگناسٹک سنٹر میں میڈیکل ٹیسٹوں کا معیار ملک کی دوتین معیاری لیبارٹریوںکے برابرلیکن فیس ان کے مقابلے میںنصف تھی۔ یتیم طلبا و طالبات کے علاوہ قرآن پاک کے حفاظ کی فیس 100 فیصد معاف تھی اور اس سب کچھ کے باوجود یونیورسٹی پرافٹ میں جا رہی تھی۔ وائس چانسلر کے طور پر ان 8سالہ خدمات کے بعد چودھری اکرم تھک سے گئے تھے؛ چنانچہ چار سال کی تیسری ٹرم کے لیے انہیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد وہ لاہور رائے ونڈ روڈ پر اوورسیز پاکستانیز ہاؤسنگ سوسائٹی میں آ بسے۔ یہاں بھی وہی تحقیق اورتجزیے کا شغل تھا کہ ''مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا‘‘۔ اپنی تصانیف پر نظر ثانی کے ساتھ Message of Islam کے عنوان سے آن لائن پروگرام میں مصروف رہتے۔فرصت کے اوقات میںمختلف تقریبات میں بھی چلے آتے اور تشنگانِ علم کی آسودگی کا باعث بنتے۔ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کی ''سسکتی مسکراتی زندگی‘‘ کی تقریب رونمائی میں ایک نظریاتی ریاست میں اساتذہ اور ذرائع ابلاغ کے کردارپر ان کا خطبۂ صدارت واقعی ایک پروفیسر اور ڈاکٹر کا خطاب تھا۔ جناب الطاف حسن قریشی کے پائنانے ''قومی آزادی کے تحفظ میں داخلی ہم آہنگی کی اہمیت‘‘ پر پنجاب یونیورسٹی میں سیمینار کا انعقاد کیا۔یہاں بھی چودھری محمد اکرم کا خطبۂ صدارت سامعین کے دل ودماغ کو مسحور اور مسخر کرتا چلا گیا۔ اس میں1947ء کی ہجرت کی وہ کہانیاں بھی تھیں جووالدہ محترمہ انہیں بچپن میں سنایا کرتی تھیں۔ سچے اور پکے پاکستانی کے طور پر ان کی شخصیت کی تعمیر میںان کہانیوں کا اہم کردار تھا۔
سرگودھا یونیورسٹی کی وائس چانسلرشپ کے دوران انہوں نے میانوالی اور بھکر میںیونیورسٹی کے سرکاری کیمپس کھولے۔ اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور منڈی بہائوالدین میں 6 ''فرنچائز‘‘ کی منظوری دی۔ ان میں سے 5کیمپس یونیورسٹی سنڈیکیٹ کی باقاعدہ منظوری سے قائم ہوئے۔ایک کیمپس کی منظوری انہوں نے وائس چانسلر کے ہنگامی اختیارات کے تحت دی۔ قواعد وضوابط کے مطابق بعد میں سنڈیکٹ کے اجلاس نے اس کی منظوی دے دی۔ اب نیب نے انکوائری کا آغاز کیا تو وہ چار بار پیش ہو کراپنی صفائی دے چکے۔ اس سوموار کو مزیدانکوائری کے لیے طلب کیا گیا لیکن اب گھر واپسی نہ ہوئی۔ رات نیب کے زنداں میں گزری اور اگلی صبح ہتھکڑیاں ڈال کر نیب عدالت سے 10روز کا ریمانڈ لے لیا گیا۔ نیب نے اتنی مہربانی کی کہ ''خطرناک‘‘ ملزم کو صرف ہتھکڑیاں لگانا کافی سمجھا(شہبازشریف کی طرح بکتر بند گاڑی میں لے جانے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ شہباز صاحب کو ہتھکڑیاں نہ لگانے کی رعایت دے دی تھی) اُس دور کے رجسٹرار بریگیڈیئر(ر) رائو جمیل اصغر بھی اس کیس میں شریک ملزم ہیں۔ وہ بھی اسی سلوک کے مستحق ٹھہرے۔
ہتھکڑیاں سیاستدانوں کے لیے ''زیور‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیںاور عوام میں ان کی جرأت وبہادری کے نقش کو گہرا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں اس کے ''دشمن نمبرایک‘‘ کو جہاز میں ہتھکڑیاں لگا کر، سیٹ کے ساتھ باندھ دیا گیا تھا۔ خادم پنجاب کی صاحبزادی کے ساتھ ایک بیکری کے ملازم کی بدتمیزی پر گارڈز نے ملازم کی پٹائی کردی۔ ایف آئی آر میں شہباز صاحب کے داماد کا نام بھی لکھوادیا گیا۔ وہ اس وقت کراچی میں تھا، شہباز نے اسے پہلی دستیاب فلائٹ سے واپس آنے اور شامل تفتیش ہونے کے لیے کہا۔ وہ رات کی فلائٹ سے واپس آیا، رات حوالات میں گزاری ، اگلی صبح ٹی وی سکرینوں پر لوگوں نے اسے ہتھکڑیوں کے ساتھ عدالت جاتے ہوئے دیکھا... لیکن یونیورسٹی کے استادوں کے ساتھ یہ سلوک، کسی بھی مہذب معاشرے کے منہ پر طمانچہ ہے۔ کیا نیب کے چیئرمین عزت مآب جسٹس(ر)جاوید اقبال اس کا نوٹس لیں گے؟