یہ محض اتفاق تھا کہ کوئی دو ہفتے قبل ''شیخ الجامعہ کے لیے نیب کی ہتھکڑی‘‘ اس موضوع پر بارش کا پہلا قطرہ بن گیا‘ جس کے بعد شاید ہی کوئی اہم کالم نگار ہو جس نے اساتذہ کے ساتھ اس شرمناک سلوک پر صدائے احتجاج بلند نہ کی ہو۔ ان دنوں سیاست پر لکھنے کے لیے موضوعات کی کمی نہیں‘ لیکن سرگودھا یونیورسٹی کے (سابق) وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری (اور ان کے رجسٹرار بریگیڈیئر (ر) راؤ جمیل اصغر) کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری اور اگلے روز ہتھکڑیوں کے ساتھ نیب کورٹ میں پیشی کی خبر نے دنیائے دل زیر و زبر کر دی۔ دماغ میں بھی زلزلے کی کیفیت تھی جس نے سب کچھ درہم برہم کر دیا تھا۔ سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں شیخ الجامعہ (اور ان کے رفیق کار) کے ساتھ روا رکھے جانے والے المناک رویے پر مرکوز ہو کر رہ گئی تھیں۔ میرے نزدیک یہ اس روز پاکستان کا سب سے بڑا ''مسئلہ‘‘ تھا، سنگین ترین المیہ۔ اگلے روز پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اور ان کے پانچ، چھ رفقا پر بھی یہی المیہ بیت گیا۔ سوشل میڈیا میں اس کالم پر جو رد عمل آیا، سیاسی موضوعات پر لکھے گئے کالموں سے کہیں بڑھ کر تھا اور اس کے ساتھ ہی گئے زمانوں میں اساتذہ کی عزت و تکریم اور تعلیمی اداروں کے تقدس و احترام کی کہانیاں۔
کراچی میں مقیم ہمارے دانشور دوست نصیر سلیمی سندھ (اور خصوصاً کراچی) کے سیاسی حالات و واقعات کا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ انہوں نے کالم پڑھا، تبصرے کے لیے فون کال ان کا معمول ہے۔ اُس روز انہوں نے کراچی یونیورسٹی کے حوالے سے کہانی سنائی۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کا مارشل لا نیا نیا ختم ہوا تھا‘ اور اب اس نے سویلین لبادہ اوڑھ لیا تھا۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے، ایک عظیم محقق، مورخ اور استاد، پاکستان کی پہلی کابینہ میں وزارتِ تعلیم کے سزاوار ٹھہرے (تب کیسے کیسے لوگ کابینہ کے ممبر ہوتے تھے!) کراچی یونیورسٹی کو اپنے ابتدائی برسوں میں ڈاکٹر اشتیاق حسین اور ڈاکٹر محمود حسین جیسے عظیم اساتذہ کی رہنمائی نصیب ہوئی، جس نے اس نوزائیدہ ادارے کو واقعی مادر علمی بنا دیا۔ (ڈاکٹر محمود حسین، ہندوستان کے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کے بھائی تھے، مملکت خدا داد کی خدمت کا جذبہ جنہیں اِدھر لے آیا۔ کراچی یونیورسٹی کی قسمت میں ان کی سربراہی بھی لکھی تھی)
16 دسمبر 1971ء کے بعد بھٹو صاحب کے ''نئے پاکستان‘‘ میں ان کا آبائی صوبہ (سندھ) ممتاز بھٹو کو سونپ دیا گیا۔ سندھی کو صوبے کی سرکاری زبان بنانے والا بل سندھ میں لسانی فسادات کا باعث بن گیا تھا۔ رئیس امروہوی کا مصرع اخبارات کی شہ سرخی بن گیا ''اردو کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے‘‘۔ آگ پر قابو پانے کے لیے بھٹو صاحب خود کراچی پہنچے۔ ان سے مذاکرات میں اردو کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے جو کمیٹی بنی، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اس کے سربراہ تھے۔ (انہی مذاکرات میں سندھ میں تقسیم اختیارات کا جو فارمولا طے پایا، اس کا ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ وزیر اعلیٰ سندھی ہونے کی صورت میں گورنر ''نیا سندھی‘‘ (اردو سپیکنگ) ہو گا۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی کے حوالے سے بھی یہی ''اصول‘‘ طے پایا کہ ایک ''پرانا‘‘ تو دوسرا ''نیا سندھی‘‘ ہو گا۔
قارئین سے معذرت کہ بات کسی اور طرف نکل گئی، ہم کراچی یونیورسٹی کی بات کر رہے تھے۔ ایوب خان نے 6 جنوری 1964ء کو جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دیتے ہوئے مولانا مودودی ؒ اور جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کی گرفتاری کا حکم بھی جاری کر دیا۔ ان میں پروفیسر خورشید احمد بھی تھے۔ پروفیسر صاحب تب کراچی یونیورسٹی میں اکنامکس کے استاد تھے۔ پولیس افسر اپنی گارد کے ساتھ وی سی صاحب (ڈاکٹر اشتیاق حسین) کے دفتر پہنچا، تو ڈاکٹر صاحب نے سختی سے استفسار کیا کہ اسے جامعہ میں پولیس کی نفری کے ساتھ (وی سی کی اجازت کے بغیر) داخل ہونے کی جرأت کیسے ہوئی؟ انہوں نے پولیس کو کیمپس کی حدود سے نکل جانے کا حکم صادر کیا اور پولیس افسر پر واضح کیا کہ پروفیسر خورشید احمد کلاس سے فراغت کے بعد (یونیورسٹی کی گاڑی میں) گھر جائیں گے۔ جیل کے لیے ضروری سامان لیں گے، بچوں کو الوداع کہیں گے اور خود کو حوالہ پولیس کر دیں گے۔ پولیس نے پروفیسر صاحب کے ساتھ ادب و احترام کا یہی رویہ اختیار کیا۔
جماعت پر پابندی اور اس کی قیادت کی گرفتاری کو عدالت میں چیلنج کر دیا گیا۔ اس دور کے معروف ترین ماہرینِ قانون جماعت کے وکیل بنے۔ ان میں اے کے بروہی اور میاں محمود علی قصوری کے علاوہ نوجوان ایس ایم ظفر بھی شامل تھے۔ ایم انور بار ایٹ لا اٹارنی جنرل تھے۔ وہ بھی استعفیٰ دے کر جماعت کے وکلا صفائی میں شامل ہو گئے۔ سب قانونی خدمات بلا معاوضہ تھیں۔ مغربی پاکستان ہائی کورٹ نے جماعت کے خلاف اور مشرقی پاکستان ہائی کورٹ نے جماعت کے حق میں فیصلہ دیا۔ جس پر حکومت اور جماعت اسلامی، دونوں اپیل میں چلے گئے اور سپریم کورٹ نے 18 ستمبر 1964ء کو جماعت پر پابندی اور اس کی قیادت کی گرفتاری کا حکم خلافِ قانون قرار دے دیا۔
تعلیمی اداروں اور ان کے سربراہوں کے احترام کی ایک اور مثال، خود سید مودودی ؒ کے طرز عمل میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ 1970ء کا عشرہ پنجاب یونیورسٹی سمیت ملک کے بیشتر تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ کی ''حکمرانی‘‘ کا دور تھا۔ پنجاب یونیورسٹی سوڈنٹس یونین کا 1975ء کا الیکشن بھی عبدالشکور کی صدارت میں جمعیت کے پورے پینل نے جیت لیا تھا۔ رسم حلف وفاداری کے لیے نومنتخب یونین نے سید مودودی ؒ کو مہمان خصوصی بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی میں آخری حد تک کشیدگی کا دور تھا (خوف و دہشت کی علامت غلام مصطفی کھر ایک بار پھر پنجاب کے گورنر تھے) ایسے میں وائس چانسلر جناب امتیاز شیخ، سید صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یونیورسٹی میں تشریف نہ لانے کی درخواست کی۔ جنابِ سید کے مسلک میں ایک استاد کی درخواست مسترد کرنے کا تصور تک نہ تھا۔ سٹوڈنٹس یونین کے حلف وفاداری کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں کہ سید صاحب کی طرف سے صدر یونین کے نام معذرت نامہ موصول ہو گیا۔
معاشرے میں استاد کے ادب و احترام کی جڑیں اتنی گہری تھیں کہ بڑے بڑے کج کلاہ اور کر و فر والے حکمرانوں کے ہاں بھی اس سے روگردانی کا تصور تک نہ تھا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ پر حسین فاروق مودودی کی کتاب حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے جس میں ایک باب مولانا کے ''غیر جماعتی‘‘ احباب کے حوالے سے بھی ہے۔ ان میں بابا جعفری بھی تھے۔ 100 سال سے زائد عمر پائی۔ ان کی رہائش ایمپریس روڈ پر ریلوے ہیڈ کوارٹرز کے سامنے قزلباش ہائوس کی انیکسی میں تھی۔ بابا اسلامیہ کالج کے پرنسپل تھے تو نواب آف کالا باغ مرحوم بھی ان کے طالب علموں میں شامل تھے۔ وہ بابا کا بہت احترام کیا کرتے۔ مغربی پاکستان کی گورنری کے دنوں میں بھی احترام کے اس رشتے میں ذرہ برابر کمی نہ آئی۔ وہ کبھی شام کو گورنر ہائوس کے پچھلے دروازے سے نکل کر بابا سے ملنے قزلباش ہائوس پہنچ جاتے اور ان کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کی بجائے زمین پر ان کے قدموں میں بیٹھنے کو ترجیح دیا کرتے۔
معاشرہ اخلاقی اقدار کے حوالے سے زوال کا شکار ہوا تو یونیورسٹیاں بھی محفوظ نہ رہیں۔ پھر نہ وہ طلبہ رہے نہ اساتذہ‘ یونیورسٹیوں میں پولیس چوکیاں بن گئیں‘ اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور ان کے قابل احترام رفقا کو ہتھکڑیاں پہنانے سے بھی گریز نہ رہا۔