"RTC" (space) message & send to 7575

تمہاری یاد کی پُروا چلی ہے

پانچ سال گزر گئے پھر بھی کل کی بات لگتی ہے۔ ان ساٹھ مہینوں میں تم اکثر یاد آتی رہیں۔ میمونہ ، آصف اور کاشف بھی تمہیں یاد کرنے کا کوئی بہانہ ڈھونڈلیتے۔ سرما اپنے ساتھ اداسی لئے آتا ہے (وہ جو انگریزی میںWinter bluesکہتے ہیں)لیکن میرے لئے تو یہ اداسی ''جاں تک اترتی جاتی ہے‘‘۔ یکم نومبر 2013تمہاری زندگی کا آخری دن تھا۔ یہ جُوں جُوں قریب آتا ہے، اپنے ادھورے پن کا احساس گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔ خالد شریف کی ایک غزل کا شعر ہے۔
تمہاری یاد کی پُروا چلی ہے/ستمبر کا مہینہ آگیا ہے
''میں ستمبر‘‘ کی جگہ ''نومبر ‘‘ کرلیتا ہوں۔کل کی بات لگتی ہے۔ یہ ان راستوں پر تمہارا آخری گزر تھا۔ کشادہ سڑک کے دونوں طرف گھنے درخت ، سڑک کے بیچوں بیچ سرسبز گھاس کے تختے اور ان میں رنگا رنگ پھول۔''لاہور کتنا خوبصورت ہوگیا ہے‘‘ تم نے دھیرے سے کہاتھا۔ کہتے ہیں سبھی موسم انسان کے اندر ہوتے ہیں۔ اندر خزاں کا عالم ہو، تو بیرون میں بہار کی دلآویزیاں بھی بے معنی ہوجاتی ہیں، کبھی کبھی تو کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں۔ کوئی چار ہفتے قبل ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ تمہارے جگر کو سرطان نے آلیا ہے۔ ظالم نے چپکے سے وار کیا تھا، بہت کاری اور مہلک وار، کئی ٹیسٹ ہوئے، ماہرین کا کہنا تھا کہ معاملہ آخری حد کو پہنچ چکا ۔ اب ٹرانسپلانٹیشن بھی کارگر نہیں ہو گی لیکن ہم نے تمہیں اس کی کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ تم بہت باحوصلہ خاتون تھیں ۔ رفاقت کے33برسوں میں تنگدستی کے ماہ وسال بھی تھے لیکن تم نے کبھی اُف تک نہ کی، الٹا میرا حوصلہ بڑھایا کرتیں ۔بے حوصلہ ہونا تمہاری فطرت میں تھاہی نہیں ۔ بدترین حالات میں بھی اپنے رب پر تمہارا یقین اور اعتماد متزلزل نہ ہوتا لیکن انسان پھر بھی انسان ہے۔ یہ احساس اذیت تو دیتا ہے کہ اپنوں سے جدائی کے دن آپہنچے ۔یہ گھڑیاں پھر نہ لوٹیں گی، یہ ساعت پھر نہ آئے گی۔ چنانچہ ہم نے تمہیں اس بری خبر سے بے خبر رکھنا ہی مناسب سمجھا اور پھر جدائی کی گھڑی آگئی اور ہم تمہیں اللہ کے سپرد کرآئے۔
نفاست تمہارے مزاج کا خاص حصہ تھی۔ کسی پیارے کی قبر پر فاتحہ کے لئے پرانے طرز کے قبرستان میں جانا ہوتا تو قبروں کی حالت دیکھ کر تم دکھی ہوجاتیں۔عجیب سی بے ترتیبی ، قبر پر قبر چڑھی ہوئی لیکن اب شہر کی جدید بستیوں میں صورتحال مختلف ہے۔ یہا ںقبرستان بھی خوبصورت اور منظم ہیں۔ ایک ترتیب ہے، قبروں کی تیاری میں جس کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ باقاعدہ نمبر ہوتے ہیں اور مناسب فاصلے کے ساتھ راہداریاں بھی۔ قبرستان کی دیکھ بھال کے لئے باقاعدہ ملازم ہوتے ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ کہ بے پناہ مصروفیت کے اس دور میں بھی لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر پھول چڑھانے ، فاتحہ پڑھنے کا وقت نکال ہی لیتے ہیں۔ عید اور محرم کے ایام میں تو میلے کا سماں ہوتا ہے۔ اور قبرستان خوشبوئوں سے مہک اٹھتے ہیں۔تمہاری فرقت کے یہ ماہ وسال بہت گراں گزرے ۔ بچے بات بات پر تمہیں یاد کرتے رہے۔ بیٹی نے گھر کا سارا کام سنبھال لیا۔ بیٹوں میں بھی ذمہ داری کا احساس بہت بڑھ گیا۔ یہ گھر جسے جدہ میں میری ملازمت کے دوران تم نے بڑے شوق سے بنوایا تھا، اس میں اب تم نہیں لیکن تمہاری پرچھائیاں موجود رہتی تھیں،تمہاری آخری آرام گاہ قریب ہی تھی، آصف تو بطور خاص ہفتے میں ایک بار ضرور حاضری دے آتا۔ اب ہم واپڈا ٹائون سے لیک سٹی اُٹھ آئے ہیں۔یہاں بھی تمہاری پرچھائیں ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔ 
ان پانچ برسوں میں لاہور مزید خوبصورت ہو گیا ہے۔ایک اور نومبر آگیا ہے۔ آج پھر تم یاد آئی ہو اور بے حساب یاد آئی ہو‘ تو میں تمہیں امجد اسلام امجد کی ایک نظم سناتا ہوں:
تو چل اے موسمِ گریہ
تو چل اے موسمِ گریہ، پھر اب کی بار بھی ہم ہی
تری انگلی پکڑتے ہیں تجھے گھر لے کے چلتے ہیں
وہاں ہر چیز ویسی ہے کوئی منظر نہیں بدلا
ترا کمرہ بھی ویسے ہی پڑا ہے، جس طرح تونے 
اسے دیکھا تھا، چھوڑا تھا
ترے بستر کے پہلو میں رکھی اس میز پر اب بھی
دھرا ہے مگ وہ کافی کا
کہ جس کے خشک اور ٹوٹے کناروں پر
ابھی تک وسوسوں اور خواہشوں کی جھاگ کے دھبے نمایاں ہیں
قلم ہے، جس کی نِب پررَت جگوں کی روشنائی یوں لرزتی ہے
کہ جیسے سوکھتے ہونٹوں پہ پپڑی جمنے لگتی ہے
وہ کاغذ ہیں
جو بے روئے کچھ آنسوئو ں سے بھیگے رہتے ہیں
ترے چپل بھی رکھے ہیں
کہ جن کے بے ثمر تلووں سے وہ سب خواب لپٹے ہیں
جو اتنا روندے جانے پر بھی اب تک سانس لیتے ہیں
ترے کپڑے،
جو غم کی بارشوں میں دُھل کے آئے تھے
مری الماریوں کے ہینگروں میں اب بھی لٹکے ہیں
دلاسوں کا وہ گیلا تولیہ
اور ہچکیوں کا ادھ گُھلا صابن
چمکتے واش بیسن میں پڑے ہیں اور
ٹھنڈے گرم پانی کی وہ دونوں ٹوٹیاں اب تک
رواں ہیں تو جنہیں اس دن
کسی جلدی میں چلتا چھوڑآیا تھا
دریچے کی طرف دیوار پر لٹکی گھڑی 
اب بھی، ہمیشہ کی طرح، 
آدھا منٹ پیچھے ہی رہتی ہے
کیلنڈر پر رُکی تاریخ نے پلکیں نہیں جھپکیں
اور اس کے ساتھ آویزاں !!
وہ مہکارتا منظر
وہ اک تصویر جس میں وہ
مرے شانے پہ سررکھے، مرے پہلو میںبیٹھی ہے
مری گردن اور اس کے گیسوئوں کے پاس ایک تِتلی 
خوشی سے اڑتی پھرتی ہے
کچھ ایسا سحر چھایا ہے 
کہ دل رکتا،ہَوا چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے
مگر اے موسمِ گریہ
اسی ساعت 
نجانے کس طرف سے توچلا آیا
ہمارے بیچ سے گزرا
ہمارے بیچ سے تو اس طرح گزرا
کہ جیسے دو مخالف راستوں کو کاٹتی سرحد 
کہ جس کے ہر طرف بس دُوریوں کی گرد اڑتی ہے
اک گرد کی تہہ سی
تجھے دروازے کی بَیل پر جمی شاید نظر آئے
کوئی تصویر کے اندر کمی شاید نظر آئے
تمنا سے بھری آنکھیں جو ہر دم مسکراتی تھیں
اب ان آنکھوںکے کونوں میں نمی شاید نظر آئے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں