"RTC" (space) message & send to 7575

مولانا سمیع الحق اور نواز شریف،ایک بھولابسرا واقعہ

شامی صاحب نے مولانا سمیع الحق کے جلیل القدر والد مولانا عبدالحق کے فقر واستغفا کی کہانی سنائی۔ یہ غلام مصطفی کھر کا چشم دید واقعہ تھاجو انہوں نے شامی صاحب سے بیان کیا۔ یہ بھٹو صاحب کے ''نئے پاکستان‘‘ میں دستور سازی کا مرحلہ تھا۔ مولانا عبدالحق بھی دستورساز اسمبلی کے رکن تھے، ( جنہوں نے مولانا مفتی محمود کی زیر قیادت جمعیت علمائے اسلام کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن اس شان سے جیتا کہ ایسی مثالیں کم کم ہی ملتی ہیں۔ خان عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کے اجمل خٹک مد مقابل تھے۔ مولانا نے الیکشن مہم شروع کی تو لوگ مدرسہ حقانیہ پہنچ گئے اور عرض کیا، ہمیں گنہگار نہ کریں، آپ کو گائوں گائوں اور گلی گلی جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ مدرسے میں قال اللہ وقال الرسول ﷺ کا اصل کام کرتے رہیں اور الیکشن کی فکر نہ کریں؛ چنانچہ مولانا مدرسے میں بیٹھ رہے ، ان کی الیکشن کمپین خود ووٹرز نے چلائی اور مولانا کو سرخروکیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں مفتی محمود نے ذوالفقار علی بھٹو کو شکست دے دی تھی) بھٹو صاحب نے دستور میں اسلامی شقوں کے حوالے سے اہم دینی شخصیات سے براہِ راست رابطے کا فیصلہ کیا۔ وہ لاہور بھی آئے اور سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒسے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ مولانا نے قاصد کو جواب دیا کہ بھٹو صاحب کو5اے ذیلدار پارک تشریف لانے کی ضرورت نہیں۔ نیکی کے اس کام کے لیے میںخود گورنر ہائوس آجائوں گا۔ کہا جاتا ہے، دستور پر اتفاق رائے کے لیے پس پردہ کا وشوں میں مولانا ظفراحمد انصاری، مصطفیٰ صادق (مرحوم) اور جناب الطاف حسن قریشی نے بھی مقدور بھر حصہ ڈالا۔ 
غلام مصطفیٰ کھر کے بقول، بھٹو صاحب سے ملاقات کے بعد مولانا عبدالحق رخصت ہونے لگے تو ایک سرکاری اہل کار نے مولانا کے خادم خاص کو ایک بریف کیس تھما دیا۔ مولانا ٹھٹکے اور استفسار کیا: اس میں کیا ہے؟ بھٹو صاحب نے کہا: کچھ خاص نہیں، آپ کے لیے اور مدرسے کے لیے کچھ نذرانہ ہے۔ مولانا نے بریف کیس واپس کرتے ہوئے کہا: آگ کے ان انگاروں کو میں کیسے قبول کرسکتا ہوں؟ یہ فقرواستغنا قال اللہ وقال الرسول اللہﷺ کہنے والوں کا خاص وصف تھا اور مولانا عبدالحق اس حوالے سے بزرگوں کی روایت کے امین تھے‘ جس میں مدارس کے لیے سرکاردربار سے عطیات وصول /قبول کرنا کوئی پسندیدہ عمل نہیں سمجھا جاتا تھا۔
پیر کے روز مدرسہ حقانیہ میں مولانا سمیع الحق کی رسم قل تھی۔ ہم بھی شامی صاحب کے ساتھ اکوڑہ خٹک چلے آئے تھے۔ عزیزم عثمان شامی بھی ہمراہ تھے۔ مدرسے کے وسیع وعریض ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی، بالکونیاں بھی چھلک رہی تھیں۔ جو لوگ جنازے میں نہیں آسکے تھے وہ اب حاضری کے لیے چلے آئے تھے۔ ان میں ملک کے دور دراز علاقوں سے آنے والے بھی بڑی تعداد میں تھے۔ اکابر کی ایک طویل فہرست تھی، جو دو، اڑھائی منٹ کے لیے مائیک پر آتے، اپنے شہید ساتھی کے لیے کلماتِ خیر ادا کرتے اوردعائے مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھا دیتے۔ منتظمین کی درخواست تھی کہ یہ سعادت حاصل کرچکنے والے، ان کے لیے جگہ خالی کرتے جائیں جو ہال کے اندر آنے کے منتظر ہیں۔ صبح سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ سہ پہر کے بعد تک جاری رہا۔
پاکستان میں جمعیت علمائے اسلام کی تاریخ دلچسپ رہی ہے۔ متحدہ ہندوستان میںتحریک آزادی کے دوران علمائے دیوبند کا ایک حصہ جمعیت علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے کانگریس کی حمایت کررہاتھا‘ جس کے مقابلے میں مسلم لیگ کے حامی علمائے دیوبند نے جمعیت علمائے اسلام کے نام سے خود کو منظم کیا۔ حکم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی تائید بھی انہیں حاصل تھی(مسلم لیگ نے ہزاروں کی تعداد میں ان کے اس خواب کی کاپیاں تقسیم کیںاور اشتہار کی صورت میں کوچہ وبازار میںچسپاں کیںجس میں پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ نے انہیں قائد اعظم (اورمسلم لیگ)کی حمایت کی ہدایت کی تھی) مفتیٔ اعظم جناب مولانا محمد شفیع، مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفراحمد عثمانی جیسے اکابر جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم پر سرگرم تھے۔ قائد اعظم کی خواہش پر کراچی میں پاکستان کا پرچم لہرانے کی سعادت مولانا شبیر احمد عثمانی کے حصے میں آئی، ڈھاکا میں یہ سعادت مولاناظفراحمد عثمانی نے حاصل کی۔ قائد کی وصیت کے مطابق آپ کی نماز جنازہ بھی مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی، (مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی نمازِ جنازہ نشتر پارک میںمفتی محمد شفیع نے پڑھائی تھی)قیام پاکستان کے بعد جمعیت علمائے اسلام والوں کی توجہ مسجد اور مدرسہ پر مرکوز ہوگئی، عملی سیاست سے وہ بہت حد تک دستبردار ہوگئے تھے۔ جمعیت علمائے ہندوالوں میں سے ، جواِدھر پاکستان میں تھے، وہ اپنی سیاسی تگ وتاز کے لیے جمعیت علمائے اسلام میں چلے آئے۔ پاکستان بن جانے کے بعد، مملکت خداداد سے ان کی محبت اور وفاد اری کسی ''سچے اور پکے پاکستانی‘‘ سے کم نہ تھی۔ 1960ء کی دہائی میں اس کی قیادت مفتی محمود نے سنبھالی (وہ 1962ء والی قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے) ان کے اصل جوہر بھٹو صاحب والی قومی اسمبلی میں کھلے (مولانا عبدالحق بھی ان کے شانہ بشانہ تھے) جمعیت علمائے اسلام قومی اسمبلی کے اندر اور باہر متحدہ حزب اختلاف کا سر گرم حصہ تھی۔ مفتی صاحب ان ارکان میں تھے،اسمبلی کارروائی میں ''خلل ڈالنے پر‘‘سارجنٹ ایٹ آرمز جنہیں اٹھا کر ایوان سے باہر پھینک آئے تھے (تب بھٹو صاحب ایوان میں موجود تھے) بھٹو کے خلاف 1977ء والی پی این اے کے صدر بھی مفتی صاحب تھے۔ ان کی جمعیت علمائے اسلام پی این اے کی دیگر جماعتوں کے ساتھ جنرل ضیاء الحق کی کابینہ کا آٹھ، نو ماہ تک حصہ بھی رہی۔ ان میں ہمارے نواب زادہ صاحب کی پی ڈی پی بھی تھی۔ ضیاء الحق کے 90روز، مہینوں اور برسوں پر محیط ہونے لگے تو نواب زادہ صاحب حسبِ عادت اور حسبِ روایت، اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کیلئے سرگرم ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی شمولیت کے ساتھ ایم آرڈی کے نام سے اس اتحاد کی تشکیل آخری مرحلے میں تھی کہ مفتی صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ اشتراک پر اختلاف نے جمعیت علمائے اسلام کو دوحصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک دھڑا مولانا فضل الرحمن کی زیر قیادت ایم آر ڈی میں شامل ہو گیا۔ دوسرے نے مولانا عبداللہ درخواستی کی زیر قیادت اپنا الگ تشخص برقرار رکھا ۔مولانا سمیع الحق اسی کا حصہ تھے۔
1988ء کے الیکشن میںمولانا سمیع الحق والی جے یو آئی 9جماعتی اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ تھی۔ الیکشن میں پی پی پی کی93نشستوں کے مقابلے میں آئی جے آئی نے قومی اسمبلی کی54نشستیں حاصل کیں۔ مولانا فضل الرحمن والی جمعیت نے اپنے الگ تشخص کے ساتھ سات نشستیں جیت لی تھیں۔ 
مولانا سمیع الحق کی سیاست کے حوالے سے میڈیا میںبہت کچھ آرہاہے۔ لیکن ایک اہم واقعہ شاید کسی کو یاد نہیں جس نے ہماری قومی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ بھٹو کی بیٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے ستمبر1988ء میں 9جماعتی اسلامی جمہوری اتحاد کا قیام عمل میں آیا تو جناب غلام مصطفی جتوئی اس کے صدر ، مولانا سمیع الحق نائب صدر اور پروفیسر غفور احمد سیکرٹری جنرل''منتخب‘‘ ہوئے۔ یہ تقرریاں تین ماہ کے لیے تھیں۔ اس دوران محترمہ بے نظیر بھٹو نے وفاق میں (مخلوط) حکومت کی باگ ڈور سنبھالی، پنجاب میں آئی جے آئی کا راستہ روکنے کی، وفاقی حکومت کی کوششیں ناکام رہیں اور میاں نوازشریف وزیر اعلیٰ بن گئے۔ فروری1989ء میں آئی جے آئی کی جنرل کونسل کا اجلاس تھا، عہدیداروں کی تین ماہ کی مدت مکمل ہوچکی تھی۔ ''روٹیشن‘‘ کے تحت اب مولانا سمیع الحق کو صد ربننا تھا۔اپنے''الوداعی خطاب‘‘ میں جتوئی صاحب کا کہناتھا، پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ پنجاب میں اتحاد کی حکومت ختم کردے‘ اس لیے یہاں اتحاد کو زیادہ مضبوط اور مستحکم کرنے کی ضرورت ہے‘ ورنہ ہم میں سے کوئی بھی نہیں بچے گا‘‘ ادھر مولانا کا مؤقف تھا کہ صدارت کا بوجھ اٹھانے کے لیے ہمارے درمیان نوازشریف موزوں ترین شخصیت ہیں، میں ان کے حق میں دستبردار ہوتا ہوں اور جنرل کونسل سے درخواست گزار ہوں کہ نوازشریف کو صدارت کے لیے منتخب کرلیں۔ جنرل کونسل نے یہ تجویز منظور کرلی او ر مدت بھی تین ماہ سے بڑھا کر ایک سال کردی۔ پروفیسر غفور صاحب کے بقول اس کے پس پردہ قاضی حسین احمد صاحب کا بھی اہم کردار تھا۔ تاریخ ایک نیا موڑ مڑ گئی۔ پیپلز پارٹی مخالف عناصر کو نواز شریف کی صورت میں ایک نیا لیڈر مل گیا تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں