''عافیہ کی کہانی‘‘ پراحباب کا ردِ عمل ہماری توقعات سے بڑھ کر تھا۔ بعض نے یون ریڈلی پر آرٹیکل کی بھی فرمائش کی۔ انگلستان کی نومسلم صحافی خاتون جس نے سواپانچ سال بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مسئلہ یوں زندہ کیا کہ امریکیوں کیلئے عافیہ کی ''بازیابی ‘‘کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا۔ ریڈلی ستمبر2001ء میں افغان طالبان کے زیر حراست10دنوں کی روداد اور پھر قبولِ اسلام کی کہانی اپنی کتاب''In The Hands of Taliban‘‘ میں بیان کرچکی۔ہم اس کی 10روزہ حراست کی بات کریں گے جو اس کی سوچ میں تبدیلی کا باعث بنی۔ اس نے اسلام کامطالعہ کیا اور روشنی کا یہ سفروسط2003ء میں قبول حق کی منزل پر مکمل ہوا۔ لندن سنڈے ایکسپریس کی رپورٹرتب43سالہ ریڈلی‘ دورانِ حراست جن تجربات سے گزری ‘ وہ خوشگوار حیرت کا باعث تھے۔ اس نے ان کے بارے میں جو کچھ پڑھ اور سن رکھا تھا‘ اس کی روشنی میں ان کی تصویر غیر متمدن اور غیر مہذب لوگوں کی تھی جن کے نزدیک انسانی جان کی کوئی قدر وقیمت نہیں ‘جو عورتوں پر ستم ڈھاتے اور خصوصاً غیر مسلموں کو کسی حسن سلوک کا مستحق نہیں سمجھتے ‘لیکن ریڈلی کو ان سے اس حالت میں واسطہ پڑا کہ وہ ان کے رحم وکرم پر تھی تو اس نے انہیں کیسا پایا؟نائن الیون کے بعد ریڈلی کے دل میں افغانستان جاکر حالات کا بچشمِ خود مشاہدہ کرنے کی خواہش ابھری۔یہ26ستمبر 2001ء کی بات ہے‘ ابھی افغانستان پر امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے فضائی حملے شروع نہیں ہوئے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ اسلام آباد میں افغان سفارتخانہ اسے ویزہ جاری نہیں کریگا۔شاید وہ Exclusive سٹوری کے چکر میں اپنے پروگرام کو دیگر صحافیوں سے پوشیدہ رکھنا چاہتی تھی۔اس نے افغان عورت کا بھیس بدلا‘ برقع اوڑھا اور اپنے پاکستانی ''مددگاروں‘‘ کے ذریعے جلال آباد پہنچ گئی۔ واپسی پر اس کے ساتھ وہی معاملہ ہوا۔؎
قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند/دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا
سرحد کے اُس پارگدھا بدک گیا‘ خوف کے مارے اس کی چیخیں نکل گئیں تو قرب وجوار کے افغانوں کو شک ہوا کہ برقع میں ملبوس کوئی یورپی خاتون ہے۔ اس دوران اس کا کیمرہ بھی ‘ جسے اُس نے چھپا رکھا تھا‘ زمین پر آگرا۔ اب وہ طالبان کی حراست میں تھی‘ جن کے خیال میں وہ کوئی امریکی جاسوس تھی۔ لیکن آگے بڑھنے سے قبل جلال آباد میں اس کے مشاہدات وتجربات کی ایک جھلک ‘جہاں وہ 30کے لگ بھگ افغان مردوں ‘عورتوں اور بچوں سے ملی۔ اس نے انہیں بہت شفیق اور وسیع القلب پایا۔ جنگ سروں پر منڈلا رہی تھی‘ لیکن وہ خوف زدہ نہیں تھے اور اپنی آزادی کیلئے دنیا کی واحد سپر پاور اور اس کے حلیفوں سے لڑنے کو تیار تھے۔ ان میں بادامی آنکھوں والی وہ خوبصورت افغان عورت بھی تھی ‘ جو قدرے انگریزی جانتی تھی‘ جس نے یہ معلوم ہونے پر کہ ریڈلی کی صرف ایک بچی ہے‘ کہاتھا ‘ صرف ایک!تم امریکی اور برطانوی عورتیں صرف ایک‘ دوبچوں کو جنم دے سکتی ہو جبکہ میں15بچے پیدا کرسکتی ہوں اورپھر اس نے ہنستے ہوئے کہا:جب جنگ کے دوران محاذ پر بھیجنے کے لیے تمہارے پاس سپاہی ختم ہوجائیں گے تو ہمارے پاس سپاہیوں کی کمی نہیں ہوگی۔ ہمارے بچے ہاتھوں میں بندوق لئے پیدا ہوتے ہیں‘ وہ جنگجو ہوتے ہیں جو لڑتے ہوئے مرجائیں گے۔ یہ ہماری زندگی اور جدوجہد کا ایک حصہ ہے۔ اگر مجھے بھی لڑنا پڑا تو میں بھی لڑوں گی اور پھر اس نے اپنے پاس کھڑی ہوئی چھوٹے قد کی ایک ضعیف خاتون کی طرف اشارہ کیا‘ اور یہ بھی لڑے گی۔ اس کی عمر100سال سے زائد ہے۔ ضعیف خاتون کی آنکھوں میں بھی عجب سی چمک تھی۔ اس کے ہونٹ مسکرا رہے تھے‘ جن کے پیچھے شاید کوئی دانت نہ تھا۔
طالبان نے اسے گاڑی میں پچھلی نشست پر بٹھا دیا اور خوداگلی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد وہ ایک کھلے میدان میں تھی‘ جہاں اور لوگ بھی تھے۔ اسے امریکی جاسوس سمجھ کر ان کے چہروں پر نفرت تھی۔ خوف کے مارے ریڈلی کے ہونٹ خشک اور چہرہ زرد ہورہاتھا۔وہ سمجھ رہی تھی کہ اس کا آخری وقت آن پہنچا‘ تھوڑی دیر بعد اسے سنگسار کردیا جائے گا۔ اسی دوران ایک اور گاڑی آکر رکی۔ اس میں سے ایک برقع پوش خاتون اُتری اور ریڈلی کی تلاشی لینے لگی۔ اس دوران ہجوم اس کے قریب پہنچ گیاتھا۔اب ریڈلی نے یوں ظاہر کیا جیسے وہ خود اپنا لباس اتار کر برہنہ ہوجائے گی۔ یہ اس کی طرف سے احتجاج کا ایک طریقہ تھا۔ افغانوں نے اس کے یہ ''عزائم‘‘ دیکھ کر صدمے اور نفرت سے منہ پھیر لئے اور منتشر ہونے لگے۔ تلاشی لینے والی عورت نے بے حیائی کے اس مظاہرے پر اس کے منہ پر چپت رسید کردی۔ طالبان کی 10روزہ حراست کے دوران یہ اس کے ساتھ جسمانی تشدد کا پہلا اور آخری واقعہ تھا۔ وہ اسی جلال آباد شہر میں تھی جہاں ایک روز قبل اس نے پوری آزادی کے ساتھ ایک دن گزار اتھا۔ اسے ایک کمرے میں پہنچا دیا گیا‘ جہاں خوبصورت افغانی قالین اور سرخ رنگ کے چارگدے اور کشن موجود تھے۔ ''جیلر‘‘نے کہا کہ وہ باہر سے دروازہ بند کرکے جارہاہے۔ اسے کسی چیز کی ضرورت ہو تو دروازہ کھٹکھٹا دے۔ یہاں اسے تفتیش وتحقیق کے مراحل سے گزرنا تھا۔ یہیں حامد نامی وہ افغان نوجوان بھی آیا جس نے پاکستان میں انگریزی سیکھی تھی اور اسے اس دوران ترجمانی کے فرائض انجام دینا تھے۔ریڈلی نے حراست کے دوران کچھ کھانے پینے سے انکار کردیا۔ اس کا کہنا تھا کہ جب تک اس کی اپنی والدہ اور بیٹی سے بات نہیں کروائی جائے گی وہ بھوک ہڑتال جاری رکھے گی‘ جبکہ طالبان کا موقف تھا کہ کمیو نیکیشن سسٹم کی خرابی کی وجہ سے یہ ممکن نہیں کہ برطانیہ میں مقیم اس کی والدہ اور بیٹی سے رابطہ کروایا جاسکے۔یہیں ایک ڈاکٹر بھی اس کا طبی معائنے کیلئے آیا۔ اس نے اسے صحت مند قرار دیا‘ تاہم اس کا بھی اصرار تھا کہ وہ بھوک ہڑتال ختم کردے۔ لیکن ریڈلی اپنی والدہ اور بیٹی کے حوالے سے پریشان تھی اور انہیں اطمینان دلانا چاہتی تھی کہ طالبان کی حراست میں اسے فلش ٹائلٹ‘ شاو راور ائیر کنڈیشنڈ کمرے کی سہولتیں حاصل ہیں۔ بی بی سی سننے کیلئے اس کے پاس ریڈیو بھی ہے۔حامد اسے بتا رہاتھاکہ سب لوگوں کو اس پر تشویش ہے کہ وہ کچھ کھاکیوں نہیں رہی‘ اسے یہ کھانا پسند نہیں تو اس کی پسند کے مطابق اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ اس کیلئے ہوٹل سے کھانا منگوایا جاسکتاہے۔
ریڈلی کا کہنا ہے:وہ مسلسل مجھے اپنا مہمان قرار دے رہے تھے۔ گھنی ڈاڑھیوں‘ گنگھریالے بالوں والے یہ نوجوان عجیب لوگ تھے۔ نرم رو‘ نرم خو‘ شریف ‘ بامروت اور دوسرے کا لحاظ رکھنے والے‘ لیکن یہی لوگ جب لڑنے پر آتے ہیں تو دنیا کے خوفناک ترین جنگجوہوتے ہیں۔ریڈلی نے اپنی بات جاری رکھی:یہ علم ہونے پر کہ میں طالبان کی حراست میں ہوں‘ میرے گھر والے اور دیگر لوگ کیا کیا خیال کررہے ہوں گے۔ میں شرط لگا سکتی ہوں کہ ان کے خیال میں مجھ پر تشدد ہورہا ہوگا‘ مجھے مارا پیٹا جارہا ہوگا‘ میرے ساتھ جنسی زیادتی کی جارہی ہوگی۔لعنت ہے‘ ایسی سوچ پر۔ تفتیش کے مراحل میں جو بات ہیر پھیر کر بار بار اس سے پوچھی جاتی رہی وہ یہ تھی کہ آخر وہ غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرکے افغانستان میں کیوں داخل ہوئی تھی؟ ریڈلی اس پوچھ تاچھ سے اتنی تنگ آئی کہ ایک موقع پر اس نے نہایت تمسخرسے کہا: طالبان کے ساتھ شامل ہونے کیلئے۔ ایک موقع پر اس نے اپنی نفرت کا شدید اظہار زمین پر تھوک کر کیا۔ یہ اپنے میزبانوں کے ساتھ نہایت توہین آمیز سلوک تھا۔ لیکن انہیں اپنے آداب ِ مہمان نوازی کا لحاظ تھا اور یہ احساس بھی کہ ان کا معاملہ ایک خاتون سے ہے جو ہر حال میں عزت واحترام کی مستحق ہے۔ جلال آباد سے اسے کابل لے جایا گیا ‘جہاں اسے ان مغربی خواتین کے ساتھ رکھا گیا جو مشنری سرگرمیوں کے الزام میں زیر حراست تھیں اور پھر ملا عمر کی طرف سے ان کی رہائی کا حکم آگیا۔ریڈلی کو اس کے میزبانوں نے نہایت عزت واحترام کے ساتھ پاک افغان سرحد پر پہنچا دیا۔ اس نے کیمروں کی چکا چوند میں سرحد عبور کی۔ اب وہ اپنے اخبار نویس ساتھیوں کے سوالات کی زد میں تھی۔ ''افغان طالبان نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا‘‘؟10روزہ حراست کی یادیں ریڈلی کے ذہن میں ابھرآئیں اس کا جواب تھا: With courtesy and respect۔''احترام...اور کرٹسی کارویہ...‘‘قارئین !''کرٹسی‘‘ کے اس ایک لفظ کے کتنے ہی معانی ہیں...نوازش‘ کرم‘ تواضع‘شائستگی۔